Baseerat Online News Portal

عصمت مریم پر بھیڑیوں کا حملہ!

 

عبد المتین اشاعتی اورنگ آبادی

 

آج ہر روز ہندی، مراٹھی اور اردو اخبار میں عصمت دری کے واقعات درج ہوتے ہیں، کسی خاتون و دوشیزہ کی عصمت لوٹے جانے پر وقتی وعارضی ہنگامہ ہوتا ہے، کینڈل مارچ نکالے جاتے ہیں، سوشل میڈیا پر شیئرنگ وفارورڈنگ ہوتی ہے اور بس، پھر کچھ دن گزر جانے پر معاملہ دب جاتا ہے، مجرم یا تو گرفتار ہی نہیں ہوتے یا ہوتے بھی ہیں تو ضمانت پر رہا ہوکر پھر کسی اور مریم کی ناموس کی بے حرمتی کی تلاش میں نکل جاتے ہیں، ملک عزیز میں ایک طویل

عرصے سے اس طرح کی گھناؤنی وارداتوں کا سلسلہ جاری ہے، قانون موجود ہے مگر اس پر عمل در آمد نہیں.

بہر حال مندرجہ ذیل واقعات پڑھ کر ہم فیصلہ کرسکتے ہیں کہ آج بہن بیٹیوں کو خبیثوں کی خباثت سے بچانے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی عصمت پر ڈاکہ ڈالنے والے درندے ہر زمانے میں رہے ہیں، چنانچہ دولتِ عباسیہ کے مشہور ادیب، فقیہ، محدث اور مؤرخ أبو محمد عبد الله بن عبد المجيد بن مسلم بن قتيبة الدينوري رحمہ اللہ (213ھ – 276ھ) "أخبار العیون” میں فرماتے ہیں:

ایک عورت ادائے حج وعمرہ کے لیے مکہ مکرمہ پہنچی، وہ بڑی حسین وجمیل تھی، جب وہ رمئ جمار کے لیے نکلی تو اس زمانے کے مشہور ومعروف شاعر "عمر بن ابی ربیعہ” کی نظر اس پر پڑی، وہ عورتوں پر بڑا فریفتہ وشیفتہ اور عشق باز تھا، اس خاتون کو تنہا دیکھ کر اس کے پیچھے ہولیا اور اس سے گفتگو شروع کردی، عورت نے اس کی طرف التفات نہ کیا، رمی کرکے واپس ہوگئی، دوسرے دن بھی یہی واقعہ پیش آیا تو عورت نے کرخت لہجے میں اسے جھڑک دیا اور بولی: مجھ سے دور ہٹ جا، فی الحال میں اللہ پاک کے حرم میں ہوں اور یہ (حج کے) دن بھی محترم ہیں (ذرا ان کی حرمت وعظمت کا کچھ پاس ولحاظ کر)، لیکن وہ شاعر مصر ہوگیا اور اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرنے لگا، عورت اس کی شرارت سے گھبراکر اپنے خیمے میں واپس آگئی پھر تیسرے دن اپنے بھائی سے بولی کہ مناسک (رمئ جمار) کی ادائیگی ورہنمائی کے لیے ذرا میرے ساتھ چلنا، جب عمر بن ابی ربیعہ نے اس خاتون کے ساتھ اس کے بھائی کو دیکھا تو خاموشی کے ساتھ دبک کر ایک طرف کو کھڑا رہا اور چھیڑ چھاڑ نہیں کیا، عورت کو اس پر ہنسی آگئی اور اس نے یہ کلمات کہے:

تعدوا الكلاب على من لا أسود له

وتتقي صولة المستأسد الضاري

(جس کا کوئی محافظ نہیں ہوتا کتے اس پر حملہ کرتے ہیں۔ اور خونخوار وخطرناک شیر پر حملہ کرنے سے کتراتے ہیں)

جب اس واقعہ کی اطلاع عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کو ہوئی تو کہنے لگا کہ "میری خواہش ہے کہ قریش کی ہر دوشیزہ کے کانوں تک یہ خبر پہنچنی چاہیے” (کہ جب بھی وہ گھر سے نکلے تو اپنے کسی محرم کو ساتھ لے لے تاکہ فتنہ پروروں کی بد نگاہی سے محفوظ رہ سکے)۔

ایسے ہی ایک شہر میں ایک صالحہ وعاقلہ خاتون رہا کرتی تھیں، اس کے ساتھ ایک نوعمر جوان بچی تھی، وہ جب بھی کسی ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلتی تو وہ عورت اپنے لڑکے سے کہتی: بیٹا ذرا اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ باہر جاؤ، اس لیے کہ عورت کسی محافظ محرم مرد کے بغیر (جو اس کے لیے راستہ کشادہ کرتا ہے) ایسی ہے جیسے تنہا بکری جس پر ایک کمزور بھیڑیا بھی حملے کی جرأت کرتا ہے۔

قارئین کرام !

معاشرہ کے ہر فرد، ماں باپ، بھائی اور شوہر کے لیے مذکورہ واقعہ میں ایک پیغام ہے کہ اللہ کے حرم میں اس بد معاش ومنچلے شاعر نے ایک شریف خاتون کے ساتھ چھیڑ خانی کی، تو پھر آج فتنہ وفساد کے اس دور میں بازار، شاپنگ مال، اسکول، کالج اور سڑکوں پر ہماری بہن بیٹیاں کیسے ان درندوں سے محفوظ رہ سکتی ہیں؛ لہذا ہم پر ضروری ہے کہ جب بھی ہماری بہن بیٹیاں کسی ضروری کام سے باہر نکلیں تو باپردہ ہوکر نکلیں، اور گھر کے کسی محرم شخص کو ضرور اس کے ساتھ رہنا چاہیے۔

اللہ پاک ہم سب کی ماں بہن بیٹیوں کی عزت وآبرو کی حفاظت فرمائے!

آمین یا رب العالمین

Comments are closed.