Baseerat Online News Portal

عُمان کے دارالحکومت مسقط میں چند دن

شمع فروزاں : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

سکریٹری و ترجمان آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ

         

            تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ملکوں میں ایک ”عُمَان“ ہے، (عین پرپیش اور میم پر بلا تشدیدزیر)اس سے ملتا جلتا نام عَمّان(عین پر زبر اور میم پر تشدید) ایک شہر کا نام ہے، جو اردن کی راجدھانی ہے، یہ ملک ایک جزیرہ نما ہے، اس کا نام عمان کیوں ہے؟ اس بارے میں مؤرخین نے مختلف باتیں لکھی ہیں، مشہور مؤرخ علامہ قزوینیؒ (متوفی ۲۸۶ھ) نے کہا ہے کہ یہ ایک شخص کا نام تھا، جو اُن کی تحقیق کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے، اور یعقوب حمیریؒ (متوفی: ۶۲۶) کی تحقیق ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحب زادے تھے، بہر حال کئی مؤرخین نے عمان کے والد کے نام میں فرق کے ساتھ ان کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پوتا قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم

            اِس ملک کا رقبہ ۳/لاکھ دس ہزار مربع کیلومیٹر کے قریب ہے، یہ رقبہ کے اعتبار سے خلیج میں سعودی عرب کے بعد سب سے بڑا ملک ہے، جس کی سرحدیں سعودی عرب، یمن اور امارات سے ملتی ہیں، اپنی وسعت کی وجہ سے اس کے مختلف علاقوں میں موسم کا کافی تفاوت پایا جاتا ہے، یہاں سخت گرم علاقے بھی پائے جاتے ہیں اور بہت ٹھنڈے علاقے بھی؛ اس لئے یہاں دونوں علاقوں کے پھل بھی پائے جاتے ہیں، یہاں کی کل آبادی ۲۴/لاکھ کے قریب ہے، جس میں تقریباََ ساڑھے تئیس لاکھ ملک کے اصل باشندے ہیں، یہ ملک گوشہئ گمنامی میں تھا، یہاں تک کہ سلطان قابوس بن سعید نے اقتدار سنبھالا، یہ ۳۲/جولائی ۰۷۹۱ء کی تاریخ تھی، یہی اس کا قومی دن ہے، یہاں سے عمان نے ترقی کی ایک نئی کروٹ لی، اور اس وقت مختلف خلیجی ملکوں کی طرح یہ بھی شاندار سہولتوں سے آراستہ ہے۔

            عمان کی تاریخ بہت قدیم ہے، کہا جاتا ہے کہ مالک بن فہد یزدی (متوفی: ۲۰۲ھ) یمن سے ہوتے ہوئے اور مختلف قبائل کو اپنا تابعدار بناتے ہوئے عمان پہنچے، اس طرح فارسی سلطنت کے غلبہ سے یہ علاقہ باہر آگیا، اور یہاں عربوں کی حکمرانی قائم ہو گئی، اسلام کی آمد سے پہلے اس ملک میں مختلف مذاہب پائے جاتے تھے، زیادہ تر آتش پرست تھے؛ کیوں کہ اس خطہ کا تجارتی اور سمندری تعلق فارس سے تھا، اسی طرح درخت، پتھر اور مورتیوں کی بھی پوجا ہوا کرتی تھی۔

            یہ اس سرزمین کے لئے باعث سعادت ہے کہ خود پیغمبر علیہ السلام کے عہد میں اسلام کی کرنیں اس دور دراز خطہ تک پہنچ گئی تھیں، یہاں اسلام کی آمد کے سلسلہ میں دوقصے بیان کئے جاتے ہیں، اور دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، ایک یہ کہ عمان کے ایک شخص مازن بن عزوبہؓ تھے، جو ایک خاص واقعہ کی بناء پر مدینہ منورہ تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا اور شرفِ صحابیت سے سرفراز ہوئے، مدینہ سے واپسی پر انھوں نے عمان میں مسجد تعمیر کی، جس کے بارے میں مشہور مؤرخ علامہ ابن اسیر جزریؒ (متوفی: ۰۳۶) نے اپنی کتاب ”اسد الغابہ“ میں اور معروف محدث حافظ ابن حجرؒ نے ”الاصابۃ“ میں لکھا ہے کہ یہ عمان کی سب سے پہلی مسجد ہے، ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطہ کے بادشاہ کے بیٹوں عبد اور جیفر کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے خط لکھا، جسے حضرت عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ لے کر آئے، ان دونوں بھائیوں نے بلا تأمل اسلام قبول کر لیا، اور اس ملک میں ان ہی کی حکومت قائم ہوگئی، ان کے علاوہ بہ حیثیت مجموعی مختلف عمانی قبائل سے گیارہ حضرات نے صحابیت کا شرف حاصل کیا، اور براہ راست رسول اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کی (دیکھئے احمد بن الخلیلی وجھودہ الفکریہ لدکتور ازھر حسین الندوی:۲۵)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل عمان کی تعریف بھی فرمائی ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک نمائندہ کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے ایک قبیلہ میں بھیجا، قبیلہ والوں نے ناقدری کی، اُن کو برا بھلا کہااور مارا پیٹا، جب وہ بارگاہ نبوی میں واپس آئے اور احوال بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اہل عمان کے پاس گئے ہوتے تو وہ تم کو نہ برا بھلا کہتے اور نہ مارپیٹ کرتے (مسلم، حدیث نمبر: ۴۴۵۲)

            عربوں میں رواج تھا کہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لئے دیہات کے قبائل کے حوالہ کیا کرتے تھے، اس سے”زبان کی حفاظت، بہتر نشوونما اور تربیت“ تینوں باتیں مقصود ہوتی تھیں، ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین دودھ پلانے والے عمان کے لوگ ہیں (مصنف عبدالرزاق:۷/۵۷، حدیث نمبر: ۷۸۹۳۱)، اس کے علاوہ اور بھی بعض روایتیں اس ملک اور اس کے رہنے والوں کے بارے میں منقول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے مزاج واخلاق کی جو تعریف فرمائی کہ ” نہ وہ سب وشتم کرتے ہیں اور نہ مارپیٹ“ یعنی لڑائی جھگڑے کا مزاج نہیں رکھتے، اس کا اثر آج بھی اہل عمان میں دیکھا جا سکتا ہے، اس حقیر کو خلیج کے تقریباََ تمام ہی ملکوں میں جانے کا موقع ملا ہے؛ لیکن مزاج میں مروت، خوش اخلاقی اور دوسروں کا لحاظ جس قدر اس خطہ کے لوگوں کے اندر دیکھنے کو ملا، کسی اور علاقہ میں یہ بات نظر نہیں آئی، جن لوگوں کی ان ملکوں میں آمدورفت رہتی ہے، ان کو اس کا بخوبی اندازہ ہے کہ وہ عام طور پر اجنبیوں کو اور خصوصاََ عجمی ملکوں کے رہنے والوں کو بہت ہی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں؛ بلکہ ان کو دوسرے درجہ کا انسان سمجھا جاتا ہے؛ مگر یہاں یہ بات نظر نہیں آتی، اجنبیوں کے ساتھ لوگوں کا سلوک بہت بہتر ہوتا ہے، اور اپنے ملازمین کے ساتھ بھی مساویانہ سلوک کرتے ہیں۔

            عمان کی راجدھانی مسقط ہے، جس کی آبادی پندرہ لاکھ سے زیادہ اور رقبہ چودہ سو مربع میل ہے، سطح سمندر سے اس کی بلندی ۹۶/ میٹر ہے، یہ ساحل سمندر پر واقع ہے، اور تجارتی نقطہئ نظر سے بڑی اہمیت کاحامل ہے، یہاں مقامی عربوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد ایرانیوں اور بلوچیوں کی ہے، جن کو یہاں کی شہریت دی گئی ہے، یہ شہر چاروں طرف سے خوبصورت پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، یہاں کے پہاڑ دیکھنے میں مکہ اور مدینہ کے درمیان پائے جانے والے پہاڑوں سے ملتے جلتے ہیں، اور بڑا خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں، ایک طرف سمندر، دوسری طرف پہاڑ اور درمیان میں روشنی میں نہاتا ہوا شہر دل ونگاہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے، یہاں شاہی محلات کم نظر آتے ہیں؛ البتہ خوبصورت مسجدیں اس کی شناخت ہیں، اگر پہاڑی سے دیکھیں تو ہر طرف مسجد کے بلند میناروں پر نظر پڑتی ہے۔

            رمضان المبارک ۰۴۴۱ھ کے پہلے ہی سے مولانا حافظ وسیم ندوی اور مولانا سید حسین ازہر ندوی کی طرف سے مطالبہ تھا کہ میں وہاں کا سفر کروں، اس سے پہلے ہندوستان کے متعدد اہل علم سفر کر چکے ہیں، سفر کا محرک یہ تھا کہ عمان کی وزارت اوقاف اپنے ملک میں مقیم مختلف زبان بولنے والوں کے لئے اصلاحی خطابات کا نظم رکھتے ہیں اور اس کے لئے منتخب اہل علم کو دعوت دیتے ہیں،اس پس منظر میں ان دوستوں کے واسطے سے اس حقیر تک دعوت پہنچی، رمضان المبارک سے پہلے اپنی علالت کی وجہ سے میں نے معذرت کر دی تھی، پھر ان حضرات نے عید کے بعد ہندوستانی مدارس کے معمول کے مطابق شوال کی تعطیل کے ایام میں سفر کی پیش کش کی؛ تاکہ یہاں کے مشاغل میں حرج نہ ہو، اور مجھے آرام کا بھی ایک وقفہ حاصل ہو جائے؛ چنانچہ میں نے اسے قبول کر لیا اور ۹/جولائی ۹۱۰۲ء کوحیدرآباد سے روانہ ہو کر اسی دن شام مسقط ائیرپورٹ پہنچے۔

مسقط ائیرپورٹ پر مولانا وسیم اکرم ندوی، مولانا سید ازہر ندوی، مولانا شمشاد قاسمی اور بعض دیگر احباب موجود تھے، یہ بات خاص طور پر محسوس ہوئی کہ ائیرپورٹ کا عملہ بہت خوش اخلاق اورمعاون مزاج ہے، کہیں کوئی دشواری نہیں ہوئی، وہاں سے مجھے الخبیر نامی محلہ میں جناب مستفیض الرحمن صاحب کے دولت خانہ پر لے جایا گیا، جو پیشہ سے انجینئر ہیں، بہت ہی شریف، خلیق اور مہمان نواز واقع ہوئے ہیں اور تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، وہ کرناٹک کے شہر بیلگام کے رہنے والے ہیں، پورے سفر میں وہ ساتھ رہے اور قدم قدم پر محبت وتعلق کا ثبوت دیتے رہے؛ چوں کہ میرے لڑکے مولانا ڈاکٹر ظفر عابدین ندوی (دبئی اسلامک بینک) بھی اپنے بچوں کے ساتھ دبئی سے آنے والے تھے؛ اس لئے ان حضرات نے ہمارے قیام کے لئے ایک کشادہ، راحت بخش، خالی مکان کا انتظام کیا تھا، جو خبیر ہی میں واقع ہے، کھانے کے بعد ہم لوگوں کو یہاں منتقل کر دیا گیا، اس مکان کے مستقل کرایہ دار جناب محمود صاحب بھی پیشہ سے انجینئر ہیں اور ریاست آندھراپردیش کے شہر گنٹور کے رہنے والے ہیں، یہ بھی تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں،بڑے دینی جذبہ کے حامل ہیں، اور اپنے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لئے بے حد فکر مند رہتے ہیں، مولانا وسیم اکرم ندوی شعبہ جالیات (امر بالمعروف) سے متعلق ہیں، مولانا ازہر ندوی وزارت اوقاف میں کام کرتے ہیں، یہ دونوں حضرات اور جناب مستفیض الرحمن اور جناب محمود صاحب پورے سفر میں ساتھ رہے، لمحہ لمحہ خبر گیری کرتے رہے، نیز میرے آرام اور علمی کاموں کا لحاظ رکھتے ہوئے بار بار تشریف لاتے اور زیادہ تر علمی و دینی گفتگو ہوتی۔

            ۰۱/ جولائی روز چہارشنبہ کو کلیۃ علوم الشریعۃ کے عمید ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی سے ملاقات طے تھی، ہم لوگ وہاں صبح دس بجے پہنچے، مولانا وسیم صاحب، مولانا ازہر صاحب،مولانا شمشاد قاسمی اور بعض دیگر احباب بھی ساتھ تھے، ڈاکٹر ہاشمی سے زیادہ تر اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے طریقہئ کار کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی، بہت خوش ہوئے، جب دوسرے رفقاء نے المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کا ذکر کیا، تو انھوں نے اس کی تفصیلات بھی دریافت کیں، خاص کر شعبہئ فقہ کے نصاب اور مضامین سے متعلق زیادہ استفسارات کئے، اس ادارہ کا نام تو کلیۃ(کالج) ہے؛ لیکن درحقیقت یہ پوری جامعہ ہے، جس میں اسلامی علوم کے علاوہ عصری مضامین کے شعبے بھی موجود ہیں، اور اس کا اچھا خاصا احاطہ ہے، یہاں سے نکل کر ہم لوگ لائبریری کی بلڈنگ میں داخل ہوئے، دو منزلہ بڑی لائبریری ہے، لائبریری کا فرنیچر بھی اعلیٰ معیار کا ہے اور مختلف علوم وفنون کی کتابیں بھی بہت سلیقہ سے رکھی گئی ہیں، قدیم مطبوعات کے ساتھ ساتھ جدید مطبوعات کو جمع کرنے پر بھی بھر پور توجہ دی گئی ہے، اہل سنت کے چاروں فقہی مذاہب کے ساتھ ساتھ فقہ اباضی پر بھی کافی کتابیں موجود ہیں، یہاں جا کر اندازہ ہوا کہ ہم لوگ اِس فقہ کے لٹریچر سے برائے نام ہی واقفیت رکھتے ہیں؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اباضی حضرات نے تفسیر، حدیث، اصول حدیث، فقہ اور کلام وعقیدہ پر کافی کام کیا ہے اور ایک بڑا علمی سرمایہ ان کے ذریعہ وجود میں آیا ہے، لائبریری کے ذمہ دار شیخ محمود عمانی ہیں، وہ کتابوں کے سلسلے میں بہت باخبر ہیں، کتب فقہ کے بارے میں میں نے دیکھا کہ اباضی ہونے کے باوجود احناف، مالکیہ، شوافع اور حنابلہ وغیرہ کے فقہی لٹریچر کے بارے میں بھی ان کی معلومات بہت اچھی ہیں۔

            ۱۱/ جولائی کو میزبانوں نے مجھے پورے دن فارغ رکھا، بعد نماز عشاء جناب حاجی عبدالحمید صاحب کے زیر انتظام چلنے والے مدرسہ تحفیظ القرآن میں پروگرام رکھا گیا تھا، حاجی عبدالحمید صاحب ایک سن رسیدہ بزرگ ہیں، یہ بھی تبلیغی جماعت سے متعلق ہیں، اصل وطن تو گجرات تھا؛ لیکن بہت پہلے عمان آگئے اور یہاں کی شہریت بھی مل گئی، یہ مدرسہ ان ہی کے زیرانتظام ہے، اور زیادہ تر ہندوپاک کے طلبہ اس ادارہ سے استفادہ کرتے ہیں، بحیثیت مجموعی اس وقت طلبہ کی تعداد تقریباََ ساڑھے تین سو ہے، عشاء کی نماز کے فوراََ بعد ہال میں کرسیاں رکھی گئیں اور پروگرام شروع ہوا، اس ہال کا استعمال مصلیٰ کے طور پر بھی ہوتا ہے، آج کا یہ پروگرام تعلیم کے موضوع پر تھا، حاجی صاحب نے استقبالیہ کلمات کہے، مولانا ازہر ندوی نے ادارہ کا اور اس حقیر کا تعارف کرایا، نیز عباء اور سپاس نامہ کے ذریعہ راقم الحروف کی تکریم کی گئی، اخیر میں راقم الحروف کا خطاب ہوا۔

            میں نے تعلیم کی نسبت سے دو باتیں عرض کیں، ایک یہ کہ اسلام نے ایسی تعلیم کا حکم دیا ہے، جس کا رشتہ اللہ کے نام سے جڑا ہوا ہو:اقرأ باسم ربک الذی خلق (علق:۱) اِس وقت مغرب نے پوری دنیا میں ایسے نظام تعلیم کو فروغ دیا ہے، جس کا خدا کے نام سے اور اخلاقی اقدار سے کوئی رشتہ باقی نہیں رہے؛ چوں کہ سامعین میں اچھی خاصی تعداد ہندوستانی حضرات کی تھی، اس مناسبت سے عرض کیا گیا: ہندوستان کی جو نئی ایجوکیشن پالیسی آرہی ہے، وہ اس سے بھی ایک قدم آگے ہے، اس میں کوشش کی جا رہی ہے کہ بچوں کو مشرکانہ افکار واعمال سے مانوس کیا جائے اور دیومالائی کہانیاں ان کے ذہن میں بٹھائی جائیں؛ اس لئے ہر والدین کا شرعی فریضہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لئے بنیادی دینی تعلیم کا انتظام کرے، جس میں عبادات کے ساتھ ساتھ ایمانیات، معاشرت اور اخلاقیات کا عنصر بھی شامل ہو؛ ورنہ آپ کا اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے غریب الوطنی کو گوارہ کرنا ضائع ہو جائے گااور آپ کی نسلیں ذہنی طور پر اغوا کر لی جائیں گی۔

            دوسری بات یہ عرض کی گئی کہ جو لوگ خلیجی ممالک میں بر سر ملازمت ہوتے ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ ان کی آمدنی میں مناسب اضافہ ہو جاتا ہے، اور رزق میں وسعت بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے؛ لیکن اس نعمت کو ایسے کام میں خرچ ہونا چاہئے، جس میں آپ کا بھی فائدہ ہو اور امت کا بھی، اور وہ یہ ہے کہ اس گاڑھی کمائی کو صرف بلڈنگیں بنانے میں، قیمتی اشیاء سے گھروں کو آراستہ کرنے اور شادی بیاہ کی بے فائدہ تقریبات میں ضائع نہ کریں؛ بلکہ بچوں کی اعلیٰ تعلیم پر خرچ کریں، اعلیٰ تعلیم سے صرف میڈیکل اور انجینئرنگ مراد نہیں؛ بلکہ ایسی تعلیم کی طرف توجہ کی ضرورت ہے، جس سے آپ کے بچوں کی معاشی سطح تو اونچی ہو ہی، ساتھ ہی ساتھ امت کا بھی فائدہ ہو، جیسے آپ اپنے بچوں کو سول سروسیز میں لے جانے کی کوشش کریں؛ تاکہ وہ حکومت کی مشنری میں شامل ہو کر مستقبل میں قوم وملت کو فائدہ پہنچا سکیں، آپ انہیں لاء کی تعلیم دلائیں اور اتنا پڑھنے کا موقع دیں کہ وہ بہترین قانون داں بن سکیں؛ کیوں کہ اچھے مسلمان قانون دانوں کی بہت کمی پائی جاتی ہے، آپ اپنے بچوں کو میڈیا اور خاص کر جرنلزم کی طرف لے جائیں؛ کیوں کہ آج اسلام اور مسلمانوں کے خلاف میڈیا زہر اگل رہا  ہے، آپ اپنے بچوں کو صرف ڈاکٹر اور انجینئر بنانے پر اکتفاء نہ کریں؛ بلکہ اپنی لائین کا سائنٹسٹ بنانے کی کوشش کریں، اور اس کے لئے ان کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کا موقع دیں، اس طرح ان سے پوری انسانیت کو فائدہ پہنچ سکے گا، بہر حال دعاء پر یہ مجلس ختم ہوئی۔

            آج کا دن میرے لئے اس پہلو سے بھی بہت خوشی کا تھا کہ میرے لڑکے ظفر عابدین سلمہ دبئی سے اپنے بچوں کے ساتھ ملاقات کے لئے آگئے، اور دو تین دنوں میرے ساتھ رہے، اسلامک فائنانس کے متعلق بعض مسائل پر مذاکرہ بھی کیا، اس سے مزید مسرت ہوئی کہ ماشاء اللہ ان کے اندر”فقہ المعاملات“ کی اچھی سوجھ بوجھ پیدا ہو رہی ہے، بارک اللہ فی علمہ وفہمہ۔

            ۲۱/ جولائی کو جمعہ کا دن تھا، جمعہ اور ہفتہ کو دوسرے عرب ملکوں کی طرح یہاں بھی تعطیل ہوتی ہے؛ اس لئے آج کچھ وقت تفریح کے لئے بھی رکھا گیا، جمعہ سے پہلے سمندر کے کنارے ہم سب لوگ ایک پارک میں گئے، خوبصورت، صاف ستھرا پارک تھا، جس کے ایک طرف خوبصورت پہاڑی تھی، اگر ہندوستان کے کسی شہر میں یہ پارک ہوتا تو شاید لوگوں سے بھرا ہوتا؛ لیکن یہ تقریباََ خالی تھا، ہم لوگوں کے علاوہ ایک دو فیملی تھی، اور موسم بھی خوشگوار تھا، یہیں تھوڑا سا وقت گزار کر جمعہ کی نماز ادا کرتے ہوئے اپنی منزل پر واپسی ہوئی، یہاں ہندوستان کے جو علماء مقیم ہیں، ان میں ایک اہم نام مولانا توقیر ندوی کا ہے، یہاں ہندوستان سے زیادہ تر ندوی فضلاء بر سرِ خدمت ہیں اور یہ ان میں سب سے سینئر عالم ہیں، ہندوستان کے ایک معزز شخص جناب جاوید انجینئر صاحب کے مکان پر ہر جمعہ کو بعد عصر ان کا درسِ سیرت ہوتا ہے، جس میں وہاں کے لحاظ سے مسقط کے پڑھے لکھے اردو داں حضرات کی بڑی تعداد میں شرکت ہوتی ہے، یہ درس زمانی ترتیب سے ہورہا ہے، غالباََ سنہ ۱/ہجری تک کا درس ہو چکا تھا، آج اس مجلس میں مولانا ندوی نے اس حقیر کا خطاب رکھا تھا، میں نے سیرت ہی کے موضوع کو قائم رکھتے ہوئے یہ بات عرض کی کہ سیرت کا مطالعہ کس طریقہ پر ہونا چاہئے؟ گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ سیرت کے تین پہلو ہیں، ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل ومحاسن، دوسرے: حیات طیبہ کے احوال وواقعات، تیسرے: ان واقعات سے حاصل ہونے والے اسباق اور موجودہ حالات کے لئے پیغام، زیادہ تر پہلے گوشہ پر بات کی جاتی ہے؛ لیکن یہ ایسا موضوع ہے کہ مولانا جامی کی توصیف سے بڑھ کر اس پر کوئی بات نہیں کی جا سکتی، وہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد آپ سب سے محترم اور بزرگ ہستی ہیں:

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

            اس کے بعد دوسرے پہلو پر بات کی جاتی ہے؛مگر کم، اورتیسرے پہلو پر شاذ ونادر ہی بولا اور لکھا جاتا ہے؛ حالاں کہ یہی پہلو سب سے اہم ہے، جس کا تعلق ہماری عملی اور فکری زندگی سے ہے، اس پس منظر میں سیرت کا مطالعہ کرنا چاہئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی سے موجودہ دشوار حالات اور معاندانہ روش سے نمٹنے میں سیرت سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟ اس پر روشنی ڈالی گئی۔                       (جاری)

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.