Baseerat Online News Portal

مسجداقصیٰ کے خون میں لت پت نمازی فریادکناں

عبدالرافع رسول
کرہ ارض پرپون صدی سے ارض فلسطین اورارض کشمیرپرمظلوم مسلمان اپنی آنکھوں میں بسائے خوابوں کی تعبیرپانے ، فضائوں سے نوراترنے اوراندھیروں میں روشنیاں پھوٹنے کے انتظارمیں جابر،غاصب اورظالم قوتوں کے سامنے سینہ سپرہیں، انہیں خاک اورخون کے کتنے ہی دریادرپیش ہوں لیکن اس کے باوجودان کی سعی پیہم اور جہد مسلسل میں کوئی ناامیدی، جھول ،تشکیک، تذبذب ، اشکال شبہ، فکری الجھائو ،جذباتی ہیجان اور ڈھلمل یقین اورخود سپردگی ہرگزنہیں پایاجارہاہے۔وہ حق وصداقت کی علم تھامے ہوئے انصاف دلانے کے لئے بارباراورلگاتاراپنی صدابلند کئے ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیاامہ نے فلسطینیوں کوکتوں کے سامنے پھینک دیاہے ۔عرب حکمران توپیٹھ دکھاکراہل فلسطین سے غداری کے مرتکب ہو چکے ہیں اور وہ اسرائیل کے بانہوں میں بانہیں ڈال کررقصان ہیں اگرکسی کوکوئی شک ہے توسوشل میڈیاپھروائرل کئی ویڈیوز کانظارہ کریں۔وہ اب اہل فلسطین سے طعنہ دے رہے ہیں کہ انکی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ خامخواہ ہمارادوری واقع ہوئی تھی۔عبدڈالرعرب حکمرانوں کی مردہ ضمیری کوچھوڑیئے لیکن کیااب عجم کے مسلمان بھی اہل فلسطین سے منہ موڑ گئے ہیں ۔پوری امہ مسلمہ ارض فلسطین سے ارض کشمیرتک مسلمانوں کے کٹتے مٹتے ہوئے ٹی وی کی سکرینوں پر دیکھ رہی ہے۔مگران پرسکوت مرگ چھایاہواہے اورعملی طورپرعالم ایک قبرستان کی شکل اختیار کر چکاہے۔
7مئی 2021جمعہ کو بیت المقدس مسجد الاقصیٰ میں فلسطینی نمازی خواتین وحضرات کے ساتھ اسرائیلی کتوں نے جس درندگی کامظاہرہ کیاخون میں لت پت نمازیوں کی جگرچیردینے والی ویڈیوز اس پرامہ کی خاموشی پراناللہ واناالیہ راجعون؟ کہاں گئی عربوں کی جدی پدری غیرت اور جرات ؟کیاان کاایمان صرف اورصرف ان کی دولت ان کا جاہ و جلال ٹھرچکاہے؟ بخدااس طرح کی مجرمانہ طرزعمل سے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے اورپتابھی نہیں چلے گاانہیں۔ریت میںسرچھپائے اور آنکھیں بند کئے جانے سے خطرے کب ٹلتے ہیں۔وہ عرب جو اپنے راستے سے پتھر ہٹانے کی خواہش میں کانٹے بوتے چلے جا رہے ہیںاورجنہیں کل کی نسلوں کو اپنی آنکھوں سے چننا ہوگا۔افسوس !فلسطین اورکشمیرکے معاملے میںوہ عملاََ دشمن کے سانجھے داربنے بیٹھے ہیں۔یہوداورہنودکے ساتھ ان کی معاشی شراکت داری کوئی رازکی بات نہیں۔عربوں کی تمام دولت یہودی بینکوں میں پڑی ہوئی ہے جبکہ ان کے ممالک میں بھارت کے لاکھوں ہندوموج منارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انکی تگ و تاز کا نام کیا دیاجاسکتاہے؟ٹرمپ کے ہاتھ میں تلوارتھماکررقص تلوارکو کیانام دیاجاسکتاہے؟
فلسطین اورکشمیر کے تنازعات میں کافی مماثلت ہے دونوںعلاقے جبر و استبدادکا شکار ہیں۔ دونوں میں اہل ایمان کی نسل کشی ہورہی ہے کشمیرمیں بھارت جبکہ فلسطین میں اسرائیل نسل کشی کررہاہے ۔اغیاردونوں کی زمینوں پربالجبراورفوجی قوت کی بنیادپرقابض ہیں اسرائیل ایک ناجائزاورجبری ریاست ہے جو فلسطینیوں کی زمین ہتھیا کر ایک سازش کے تحت وجود میں لائی گئی ہے اور امریکہ ، برطانیہ اور بھارت اسرائیل کی سرپرستی کر رہے ہیں۔جبکہ بھارت اپنے ہم پیالوں کے ہلہ شیری سے مقبوضہ ریاست جموںو کشمیر پرجبری طوراورفوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنے جابرانہ قبضے اورجارحانہ تسلط کو مستحکم کرنے کے لئے کشمیریوںپرستم کے پہاڑتوڑ رہاہے ۔فلسطین اورجموں و کشمیر میں یکسان معرکہ برپا ہے جسے دونوں خطوں کے نہتے مکینوں نے جارحین اورقابضین اغیارکی مسلط کردہ کھلی جنگ کے عوض قبول کیا۔ نہتے اور بے بس اہل فلسطین اوراہل کشمیر کو ہتھیار کوئی نہیں دیتا ،پتھروں اورغلیلوں سے وہ اسلحے سے لیس دشمنوں کے سامنے سینہ سپرہیں۔ وہ صدیوں سے رزم آرائی کے فن سے بھی ناآشنا ہیں۔جارح فوجی جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے ساتھ دونوں خطوں پر ٹوٹ پڑے تو اہل فلسطین اوراہل کشمیرنے اپنے جگر گوشوں کے لہو سے کوچہ و بازار میں چراغ جلادیئے۔
ستربرسوں سے مزاحمت سے دستبراربھی نہ ہوسکے ،تھکنا،جھکنااوربکنادونوں کے سرشت میں شامل نہیں۔دونوں خطوں سے لاکھوں کی تعدادمیں مردان حر لہو میںنہاگئے۔غلامی کے اندھیروں کے مقابل ڈٹنے والے دنیا کواپنی حالت زارکی طرف توجہ مبذول کراتے رہے مگرتوجہ تودورکی بات انکے مظالم کی داستان سننے کے لئے دنیا اس قدراندھی بہری بن چکی ہے کہ مظلومین فلسطین وکشمیر دہشت گرد ٹھہرے اوران مظلومین پر جو ٹینک ، توپ اوربم برسانے والے طیارے استعمال کررہے ہیں وہ امن پسند، جمہوریت نواز اور مظلوم ٹھہرے۔یہی بڑی طاقتوں کا کمال ہے کہ ہمارے قبلہ اول کوہم سے چھین کراسے اسرائیل کامرکزقراردے رہے ہیں۔ یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ ایک تاریک ترین رات کے بطن سے لہو کے چراغ جلا کر امید صبح کے پیامبر بن کر ابھرنے والی کشمیری اورفلسطینی نسل ظلمت کے بھنور میں اس طرح پھنسی ہوئی انہیں اس بھنورسے نکالنے کے لئے کوئی اسلامی فوجی اتحاد سامنے آرہاہے نہ کوئی ناخدا ۔
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بزمِ گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی
نال صیاد سے ہوں گے نوا ساما ں طیور
خونِ گل چیں سے کلی رنگیں قبا ہوجائے گی
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی
واضح رہے کہ 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک ناروااورظالمانہ قرارداد کے ذریعہ ارض فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ء اپنی افواج واپس بلالیں اور 14 مئی 1948 کو اسرائیل کی ناجائزحکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ۔ کئی بین الاقوامی رپورٹس میںجو اعدادوشماربتائے جاتے ہیں ان کے مطابق 1948 میں اپنے گھر بار سے بے دخل کئے گئے فلسطینیوں کی تعداد میں اب 9 گنا اضافہ ہو چکا ہے اور اس وقت فلسطین کے اندراوراسے باہرایک کروڑ 24 لاکھ فلسطینی بے گھردربدر کی ٹھوکریں کھانے والی زندگی پر مجبور ہیں۔ان اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ وہ فلسطینی جواس وقت فلسطین کی سرزمین پرموجودہیںکی کل آبادی 60 لاکھ 20 ہزار ہے اوران میںفلسطین کے اندر پناہ گزین فلسطینی شامل ہیں ۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے مطابق اندرون فلسطین رجسٹرڈاپنے گھروں سے بے دخل کئے گئے۔ فلسطینیوںکی تعداد 5.59 ملین ہے۔اندرون فلسطین یعنی اسرائیل کے زیرقبضہ ارض فلسطین میں رہنے والے فلسطینیوں میں سے 34.8 فی صد کی عمریں 15 سال سے کم ہیں جب کہ 65 سال سے زائد عمر کے افراد کی تعداد 4.4 بیان کی گئی ہے ۔جبکہ28.7 فیصدفلسطینی پناہ گزین اردن میں 58 کیمپوں میں رہتے ہیں۔ شام میں فلسطینی پناہ گزینوں کے 9 کیمپ ہیں۔ لبنان میں 12، مقبوضہ مغربی کنارے میں 19 اور غزہ کی پٹی میں 8 پناہ گزین کیمپ ہیں۔ 1949 سے جنگ ستمبر 1967 کے عرصے میں فلسطین سے بے دخل کئے جانے والے شہریوں کی رجسٹریشن نہیں کی گئی۔ ان کی تعداد بھی لاکھوں میں بتائی جاتی ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی جانب سے 1967 کی جنگ میں بے گھر کیے گئے فلسطینیوں کو بھی اپنے ہاں پناہ گزین کے طورپر رجسٹرڈ نہیں کیا۔
رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ یہودیوں کی غالب اکثریت بیت المقدس کے اردگردقابض ہے۔ اس کے علاوہ غرب اردن میں150 بڑی اور 119 چھوٹی کالونیوں سمیت کل 413 مقامات پر یہودی آباد کارارض فلسطین پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔رپورٹس کے مطابق ارض فلسطین کے کل 27 ہزار مربع کلو میٹر رقبے میں سے 85 فی صد پر اسرائیل کا ناجائز تسلط ہے جب کہ فلسطینیوں کے پاس صرف 15 فیصد علاقہ ہے۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کی سرحد پر 1500 کلو میٹر کا علاقہ بفرزون قرار دے رکھا ہے۔ فلسطینیوں کے پاس موجود کل رقبے کا 24فیصد غزہ کا علاقہ شامل ہے جو کل 365 مربع کلو میٹر پر پھیلا ہے۔
90 فیصد وادی اردن اور 29 فی صد مقبوضہ مغربی کنارے کا علاقہ فلسطینیوں کے پاس ہے۔ارض فلسطین کے ساتھ ساتھ فلسطینی قدرتی وسائل پر بھی اسرائیل کی ناجائز ریاست قابض ہے۔ فلسطین کے پانی کے 85 فی صد وسائل اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ فلسطینی شہری اسرائیل کی واٹر سپلائی کمپنی’’ میکروٹ‘‘ سے پانی خرید کر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ 2014 کے دوران فلسطینیوں نے اس کمپنی سے 63.5 ملین گیلن پانی خرید کیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے اپنی جارحیت اوربربریت جاری رکھتے ہوئے ارض فلسطین میں 29 ستمبر 2000 سے 31 دسمبر 2015 تک 10 ہزار 243 فلسطینی شہید کیے۔ جبکہ2014 فلسطینیوں کے قتل عام کا بدترین سال قرار دیا جاتا ہے۔ اس دوران 2240 فلسطینی شہید کے گئے۔ ان میں 2181 فلسطینی غزہ کی پٹی پر اکاون دن تک مسلط کی گئی جنگ کے دوران شہید ہوئے۔اس سے قبل 2009 میں غزہ پر مسلط کی گئی جنگ میں 1219 فلسطینی شہید کیے گئے جب کہ 2012 میں غزہ میں 306 فلسطینی شہید ہوئے۔ 2015 میں اسرائیل کے خلاف شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ القدس کے دوران 181 فلسطینی شہید کئے گئے۔ ان میں 26 غزہ کی پٹی اور 155 مقبوضہ مغربی کنارے میں شہید ہوئے۔فلسطینی محکمہ امور اسیران کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق 1967 سے اپریل 2016 تک 20 لاکھ فلسطینیوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔ 95 ہزار فلسطینی 2000 میں شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ کے بعد گرفتار کیے گئے۔جنہیں قیدوبندکی صعوبتوں سے گذاراگیااورپھرادھ موکرکے مرحلہ واررہابھی کیاجاتارہا۔رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے حراستی مراکز اور جیلوں میں اب بھی 7 ہزار سے زائد فلسطینی قید ہیں۔ ان میں 400 بچے،68 خواتین، 750 انتظامی قیدی، جب کہ 500 عمر قید کے سزا یافتہ اسیر شامل ہیں۔بتایاگیاکہ 2015 کے دوران غاصب اسرائیلی فوج نے کریک ڈان کے دوران 6 ہزار 830 فلسطینی جیلوں میں ڈالے۔ ان میں 2179 بچے اور 225 خواتین شامل ہیں۔ رواں سال یعنی جنوری 2016 سے اب تک 2000 فلسطینیوں کو پابند سلاسل کیا جا چکا ہے۔الغرض اسرائیل ارض فلسطین کوہتھانے اوربچے کچے فلسطینیوں کوارض فلسطین سے مکمل طورپربے دخل کرنے کے لئے مسلسل شش جہت اپنی بربریت اورجارحیت جاری رکھے ہوئے ہے ۔

Comments are closed.