Baseerat Online News Portal

مسجد اقصیٰ اور ارضِ فلسطین کی تاریخ سے واقفیت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی کا خطاب

بنگلور(پریس ریلیز) مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے استاذ حضرت مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ روئے زمین پر مسجد حرام خانہ کعبہ کے بعد یہ دوسری قدیم ترین مسجد ہے۔ قرآن وحدیث میں مختلف جگہوں پر اس مبارک مسجد کا ذکر آیا ہے۔ اس مسجد کے ارد گرد کی جگہوں کو برکت والی جگہیں کہا گیا ہے۔ اور سرزمین فلسطین نہایت مبارک اور محترم ہے، یہ سرزمین آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ رہی ہے، اس سرزمین پر اکثر انبیاء اور رسل آئے ہیں، یہی وہ سرزمین رہی ہے جہاں سے معراج سفر کے دوران حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء علیہم سلام کی امامت فرمائی اور ”امام الانبیاء“ کے شرف سے مفتخر ہوئے اور پھر یہیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ سفر معراج شروع ہوا، جس نے انسانیت کو سرعرش مہمان نوازی کا اعزاز عطا کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو مسجد حرام سے سیدھے آسمانوں کی طرف سفر ہو سکتا تھا، لیکن درمیان میں بیت المقدس کو لا کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کے ذریعہ یہ عظیم پیغام دیا کہ اسلام میں بیت المقدس اور مسجد اقصی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ بیت المقدس کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ یہ مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت فلسطینیوں پر اسرائیل یہود کی بربریت اور ظلم بدستور جاری ہے۔ مولانا نے یہودیوں کی تاریخ پر تفصیلی روشنی ڈالی اور یہودیوں کی مسلمانوں سے دشمنی کی اصل وجوہات بھی عوام کے سامنے رکھی۔ مولانا نے فرمایا کہ یہودی دنیا کی بدترین قوم ہے، یہودیوں پر اللہ کا قہر ہے کہ یہ ہزاروں سال سے تباہ و برباد ہوتے چلے آئے ہیں – انہوں نے فرمایا کہ یہودیوں نے اپنے مقدس کتابوں میں تحریف کرکے اپنے آپ پر ظلم کیا اور ہزاروں انبیاء کو قتل کرکے اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے ہیں۔ مولانا نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیدا ہونے والے حالات اور انہیں پہنچائی گئی ذہنی اذیتوں کو مثالوں کے ساتھ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہی قوم ہے جنہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکہ دے کر قتل کرنے کی سازش رچی، ان کے کرتوں میں یہ بھی شامل ہے کہ انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا اور ان پر جادو کرکے انہیں اذیت پہنچاتے رہے۔ مولانا نے نبی کے دور کے بعد کے حالات بھی سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ایک لمبی مدت تک یہ ارضِ مقدسہ مسلمانوں ہی کے قبضہ میں رہا لیکن بڑی چالاکی کے اور مکاری کے ساتھ زبردستی 1948 میں انہوں نے اس پر قابض ہونے کی شکلیں پیدا کیں اور آہستہ آہستہ انہوں نے اس پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ جس کے بعد سے میں وہ لوگ مسجد اقصی کی اسلامی شناخت ختم کرکے صیہونی رنگ میں رنگنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ ایک ایسے بزدل قوم ہے جو سامنے سے وار نہیں کرتی کیونکہ اگر یہ میدان میں مقابلہ کرے گی تو انکا وجود مٹ جائے گا۔ مولانا نے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین مسلم امہ کے مشترکہ موضوعات میں سب سے اہم ترین مسئلہ ہے، کیونکہ ایک ایسا مسلمان ملک جو کئی حوالوں سے مسلمانوں کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اسے اس کے باسیوں سے چھین کر مختلف ممالک سے لائے گئے غیر قانونی اور غاصب افراد کیحوالے کیا جا رہا ہے، فلسطینوں پر ان کی اپنی ہی زمین تنگ کر دی گئی ہے، آئے روز ظلم و ستم اور قتل و غارت کا سلسلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے، غاصب صیہونیوں کو روکنے کیلئے کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی۔ مولانا نے فرمایا کہ القدس جو کہ عالم اسلام کا حساس ترین نقطہ ہے وہاں ایک غاصب اور جعلی ریاست کو تشکیل دیا گیا، نہ صرف تشکیل دیا گیا بلکہ اسے مسلسل غاصبانہ طریقے سے وسعت دی جا رہی ہے۔ حماس اور اس جیسی مزاحمتی تنظیمیں جو اپنی زمین کے دفاع کیلئے کھڑی ہیں ان کو دہشت گرد اور متشدد کے ناموں سے پکارا جاتا ہے، مگر غاصب اسرائیل کو کوسنے والا کوئی نہیں، جس کی دہشت گرد آرمی مسلم امہ کے مقدس ترین مقام مسجد اقصٰی میں مقدسات کی تو ہین کے ساتھ ساتھ نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کی جانوں کے ساتھ کھیلتے نظر آتے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ افسوس کہ آج ہماری قوم بیت المقدس اور ارض فلسطین کی تاریخ سے نا واقف ہے اور غفلت کی نیند سو رہی ہے۔ اور عالم اسلام کے خاموش تماشائی بنے رہنے کے باوجود فلسطینی آج بھی پوری امت مسلمہ کی جانب سے فرض کفریہ ادا کرتے ہوئے مسجد اقصٰی کی حفاظت کیلئے نہتے مزاحمت کر رہے ہیں اور اسرائیلی درندگی کا ڈٹ کر سامنا کر رہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ارض فلسطین کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کو دور فتن، قرب قیامت اور آزمائشی مراحل میں جائے پناہ اور مرکز قرار دیا گیا ہے۔ پہلے زمانہ میں بھی انبیاء اور صلحاء نے مشکل مراحل میں اسی کی طرف رخ کیا تھا اور پھر اسی طرح آئندہ بھی اسی سر زمین کو جائے پناہ اور مرکز اسلام قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ اسلام کے اس عظیم مرکز کی حفاظت کیلئے پوری امت کھڑی ہوجائے۔ مولانا نے موجودہ حالات کے تناظر میں مسلمانوں کے ذہنوں میں پیدا کیے جانے والے شکوک وشبہات کا دلائل کے ساتھ ازالہ کیا اور اس کا پس منظر بھی حاضرین کے سامنے رکھتے ہوئے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ اور ارض فلسطین کی تاریخ سے واقفیت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مولانا نے اپنے خطاب میں اس بات کو زور دے کر کہا کہ مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ جب دنیا کے مسلمان اس کو اپنا مسئلہ سمجھیں گے اس وقت فلسطین کی آزادی کی شکلیں پیدا ہوں گی اور دنیا دیکھے گی کہ اس پر مسلمانوں کا ایک نہ ایک قبضہ ہوکر رہے گا۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔

Comments are closed.