Baseerat Online News Portal

مسلمان اب تو متحد ہو جائیں!

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
رابطہ :8969648799
ملک کے مسلمانوں کے دینی قائد اور سیاسی رہنماوں(نام نہاد ہی سہی) کی مسلسل خاموشی اور بے اعتنائی کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اب حکمرانوں کی شہ پر سرکاری عملہ بھی بے خوف اور بے جھجھک ہو کر سیکڑوںمسلمانوں کو نماز اور سجدہ کی حالت میں بے رحمی کے ساتھ جوتوں کی نوک پر رکھ رہا ہے۔ عوام کی حفاظت پر معور پولیس کا یہ ادنیٰ سا داروغہ ملک کی راجدھانی دہلی کے اندرلوک علاقہ میں ایک ہفتہ میںہونے والی نصف گھنٹے سے بھی کم وقفہ کے لئے سر بہ سجود نمازیوں کو جس طرح میں اپنے جوتوں سے ٹھوکروں پر رکھا ۔اس نے درحقیقت اندر لوک کے ان چند مسلمانوں کو جوتوں سے نہیں مارا ، بلکہ اس پولیس والے نے اس ملک کے بائیس کروڑ مسلمانوں کو اپنے سرکاری جوتوں سے ذلیل و رسواکرنے کا جرم کیا ہے۔ دیکھنے والے نے دیکھا کہ بوٹوں سے سجدے کی حالت میں ٹھوکر مارنے والا مرکزی حکومت کے ماتحت کام کرنے والا پولیس کا یہ کارندہ ذرا بھی ہچکچا نہیں رہا ہے اس لئے کہ وہ جان رہا ہے کہ اس کی ایسی حرکت سے حکومت اور حکمراں خوش ہونگے اور اسے اس ’کارنامہ‘ پر شاباشی ملے گی،سابقہ ریکارڈ تو یہی بتا رہا ہے کہ مسلمانوں پر جتنا ظلم کیا جائے ، قتل کیا جائے ، زنا کیا جائے۔ایسے ’کارناموں ‘ کو انعام و اکرام کا مستحق قرار دیا جاتا ہے ،بلکہ ایسے لوگوں کو ایوان تک کا’ معزز‘ بنایا جاتا ہے۔ ملک کی تاریخ کی آنکھوں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے قاتلوںاور زانیوں کو جیل سے تمام تر قوانین کو در کنار کرتے ہوئے رہا کرایا جاتا ہے انھیں ’سنسکاری‘ کا اعزاز سے نوازتے ہوئے پھول مالا سے استقبال کیا جا تا ہے۔ ایسے میں ہر وہ شخص جو حکومت کی نگاہ میں اپنی اہمیت اور وقعت بڑھانا چاہتا ہے اور سرکاری مراعات کا خواہاں ہے وہ ایسے ’کارنامے‘ انجام دے کر خود کو سرخرو کرتا ہے اورخلعت سے فیضیاب ہوتا ہے۔ دراصل موجودہ حکومت کو لگتا ہے کہ اقتدار پر بنے رہنے اور اپنے ہندوتوا ایجنڈوں کو نافذ کرنے کے لئے ملک کے مسلمانوں پر تشدد اور نفرت کے اسلحہ سے ان کے وجود اور تشخص کو ختم کرنا ضروری ہے ،تاکہ ملک میں فرقہ واریت کی فضا بنی رہے اور ان کی حکمرانی قائم رہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ حکمراں ملک کی اکثریت کو یہ تاثر دیتے رہتے ہیں کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو روکنا ضروری ہے اگر نہیں روکا گیا تو یہ مسلم اقلیت یہاں کی اکثریت پر حاوی ہو جائیں گے ۔ انتہا تو یہ ہے کہ اس ملک کا وزیر داخلہ اپنے سیاسی مفادات کے لئے یہ کہنے میں ذرا بھی نہیں جھجھکتا اور شرمندگی محسوس کرتا ہے کہ گجرات میں 2002 ء میں فرقہ وارانہ فساد اور ہزاروں مسلمانوں کا قتل کرانے کے پیچھے دراصل یہاں کے مسلمانوں کو سبق سکھانا مقصد تھا۔
اس پورے تناظر میںدیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو اس وقت ہر طرح سے سیاسی ، سماجی ، معاشی ، اقتصادی ، تعلیمی اور صنعتی طور پر کمزور ، بے دست و پا اور بے وقعت کئے جانے کی دانستہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ رام مندر ، لو جہاد ، گھر واپسی ، گؤ مانس ، گؤ رکچھا ، وندے ماترم ، 370 کا خاتمہ ، طلاق ثلاثہ، مسلم پرسنل لا ٔ ، شہریت ترمیمی قانون ، یونیفارم سول کوڈ وغیرہ کے نام پر مسلسل یہاں کے مسلمانوں کو نہ صرف خوف و دہشت میں مبتلا ٔ کیا جا رہا ہے بلکہ بات بات پر انھیں اور ان کے اسلام مذہب کو مغلظات سے نوازا جاتا ہے اور اب تو سجدے کی حالت میں جوتوں سے مارتے ہوئے یہ سرکاری عملہ (پولیس)جو دراصل عوام کی حفاظت پر معمور ہیں۔ وہ اپنی جسمانی قوت کے ساتھ ساتھ سیاسی پناہ حاصل شدہ رعونت کا بھی سرِ عام مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ ہماری خاموشی اور ہمارے صبر وتحمل کو ہماری کمزوری تصور کیا جا رہا ہے ، جو کہ پوری طرح غلط ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلمان نوجوان اپنے بڑے بزرگوں کی بات مانتے ہوئے وقت کی نزاکت اور تقاضے کے تحت خاموش ہو جاتے ہیں ، اپنی ذلالت و رسوائیوں کو خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں ۔ جس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے ۔ لیکن ہمارے صبر و تحمل کا مسلسل امتحان لیا جا رہا ہے ۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے ابھی دعویٰ کیا ہے کہ وہ تین دنوں میں گوہاٹی کو میاں مسلموں سے خالی کرا دینگے ۔جس کے جواب میں آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے صدر بدرالدین اجمل نے جواب دیا ہے کہ میاں مسلموں کو تین سال کیا تین سؤ سال میں بھی ہٹانا ممکن نہیں ہے ۔ ویسے اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ دن بدن ملک میں مسلمانوں کے لئے زمین تنگ کرنے کی عملی کوششیں شدت اختیات کرتی جا رہی ہیں۔ یہ ہیمنت بسوا سرما ہو، یا یتی نرسمہا ہو یا پرگیا سنگھ یا یوگی ہو،ان جیسے سینکڑوں فرقہ پرست اور بد زبان ایسی باتیں یونہی نہیں کہتے بلکہ مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لئے اور اکثریت سے متنفر کرنے کے لئے ایک ایجنڈہ کے لئے ہی کیا جاتا ہے ۔ زیادہ دور نہ جا کر گزشتہ دس برسوں میںجو کچھ دیکھنے اور سننے کو ملا ہے وہ ہم بھولے نہیں ہیں ۔ مسلمانوں کو مسلسل ہدف ملامت بنا کر آر ایس ایس اور اس کی ہمنوا جماعت مثلاََ بجرنگ دل ، شیو سینا ، وشو ہندو پریشد ، درگا وا ہنی، ہندوستانی یووا ہندو دل، رام سینا ، رام چرتر سینا، ہندو ویراٹھ سینا، ہندو یووا جاگرن منچ، ہندو سینا، اکھنڈ بھارت سمیتی، ہندو جاگرن سمیتی وغیرہ جیسی فرقہ پرست اور انتہا پسند تنظیموں نے منافرت اورفرقہ واریت کا زہر گھول کر ملک کے اندر ایسی فضاتیار کی ہے جس سے ہر شخص پریشان اور خوف زدہ ہے اور موجودہ حکومت اور حکمرانوں کی یہی بڑی کامیابی ہے ۔
ایسے ناگفتہ بہ حالات میںاب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان کو وقت اور حالات کے تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے ہمّت اور حوصلے کے ساتھ ان نامساعد حالات کے تدارک کے لئے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دانشورانہ ، عالمانہ ، مدبرانہ اور حکمت عملی کے ساتھ مختصر مدتی اور طویل مدتی منصوبے تیار کریں اور ان پر منصوبوں پربہت سنجیدگی سے عمل کریں۔ آزادی ہند کے بعد ہم چندسیاسی پارٹیوں کے بھروسے اور ان کے جھوٹے وعدوں پر تکیہ کئے رہے ۔ اپنی بقا اور تشخص کے لئے کبھی کوئی سنجیدہ اور بڑا فیصلہ یا اقدام نہیں کیا ۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے لئے اور اپنے آنے والی نسل کے لئے جاگیں ۔ وقت ہمیشہ یکساں نہیںرہتا اور کب کون سا رخ اختیار کر لے ، نہیں کہا جا سکتا ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم منظم اور متحد ہو کر سب سے پہلے ذات پات کی خلیج کو ختم کر یں ۔ موجودہ حالات میں یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے ۔ اس کے بعد ہمارے مذہبی رہنمأ اور علمأ وقت اور حالات کی نزاکت اور تقاضوں کے پیش نظر اپنے مسلکی اختلافات کو ٹھنڈے بستے میں ڈال کر اسلامی نظریہ حیات کو اپناتے ہوئے مسلمانوں کے اندر اتحادو اتفاق پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں ۔ اس بات پر تو تمام مسلک کے لوگ اتفاق کرینگے کہ قران پاک مکمل ضابطۂ حیات ہے ،جس سے ہمیں روشنی حاصل کرتے ہوئے لائحہ عمل تیار کرنا ہے ۔اگر ان دو اہم مسئلہ پر اتفاق ہو جائے تو پھر ہم مقامی ، ریاستی اور پھر قومی سطح پر ایسے قائد تلاش کریں جو اپنے کردار و عمل سے یہ باور کرائے کہ وہ امت مسلمہ کا بے لوث خادم ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہر ریاست میں ایک’ ’تھنک ٹینک ‘ کی تشکیل دی جائے تاکہ وہ عوام اور قائد کے درمیان رابطہ رکھے اور دانشمدانہ مشوروں و منصوبوں پر عمل ہو ۔ یہ تھنک ٹینک اور قائد ملک کی اہم سیکولر شخصیات اور سیاسی و سماجی تنظیموں کے رابطہ میں رہیں ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہندوستان میں ہمیں سیکولر طاقتوں کے ساتھ مل کر ہی اپنی حکمت عملی کے ساتھ متعصب ،فرقہ پرستوں اور فسطائی قوتوں کے مسلم مخالف منصوبوں اور سازشوں کے تیز دھار کو کند کرسکتے ہیں ۔ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی فرقہ پرستتوںکی کوششوں کو ناکام کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم جذباتیت کا شکار نہیں ہوں۔ فرقہ پرستوں کی یہی کوشش اور منصوبہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو مشتعل کر انھیں احتجاج اور مظاہرے کے لئے مجبور کریں اور وہ بغیر کسی منصوبہ اور قائد کے سڑکوں پر نکلیں اور اس بھیڑ میں غیر سماجی عناصر کو دانستہ طور پر شامل کرکے ، آئینی اور قانون کے دائرے میں ہونے والے احتجاج اور مظاہرے کے مثبت مقاصد کو فوت کر تے ہوئے کوئی ایسی حرکت کریں کہ پولیس کے ظلم و بربریت کے مسلمان شکار بنیں ۔ انھیں گولیاں ماری جائیں ، انھیں جیلوں میں سڑایا جائے ، ان کے گھروں کو منہدم کیا جائے ۔ گزشتہ ماہ ہی ایسے کئی سانحات سامنے آئے ہیں جن میں مظلوم مسلمانوں کو ہی ملزم بنایا گیا ، ان کی گرفتاریاں ہوئیں ان کے گھروں اور دوکانوں کو بلڈوزر سے زمین بوس کیا گیا ۔اس لئے اس ضمن میں بہتر یہ ہے کہ فرقہ پرستوں کے نعروں اور ناپسندیدہ بیانات کا جواب وہی سیکولر جماعت اور شخصیات دیں ، جن کے ہم رابطے میں ہیں اور جو ہماری مجبوریوں کو بخوبی سمجھ رہے ہیں ۔ یہی ہماری حکمت عملی ہونی چاہئے ۔ساتھ ساتھ ہم اپنے سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ دیکھیں کہ جب حذب اختلاف کی تمام پارٹیاں اپنی بقا ٔ کے لئے اپنے سیاسی مفادات کو ترک کرتے ہوئے بڑے دشمن کو زیر کرنے کے لئے متحد ہو گئی ہیں تو ہم مسلمان ،جو مسلسل فرقہ پرستوں کے نشانہ پر ہیں اور ہمارے وجود اور تشخص کو ختم کرنے کے در پئے ہیں تو پھر ہم کیوں نہیں اپنی بقا کے لئے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے مذہبی قائدین بھی حزب مخالف کی طرح گفت و شنید اور لائحہ عمل کے لئے کسی جگہ اپنے مسلکی اختلافات کو وقتی طور پر بھول کر کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور مسلمانوں کے صبر و تحمل ، احساسات و جذبات اور غم و غصہ کو سیاسی حکمت عملی اور سیاسی بصیرت سے متحد ووٹ میں تبدیل کر دیں۔ یا درہے کہ دشمن ہمارے ووٹوں کے منتشر ہونے سے ہی فائدہ اٹھا رہا ہے اور ہماری وقعت اور وجود کو ختم کر رہا ہے ۔ اس ضروی بلکہ اشد ضروری حکمت عملی میں اسدالدین اویسی ، بدرالدین اجمل اور ان جیسے سیاسی رہنماوں کو بھی ضرور شامل رکھا جائے اور انھیں خدا کا واسطہ دیا جائے کہ وقتی طور پر ہی سہی ہم متحد ہو کر فرقہ واریت کا مقابلہ کرکے پارلیمنٹ میں اپنے نمائندہ بھیجیں تاکہ ہماری آواز ایوان بالا سے نکل تک اس کی بازگشت دور تک سنائی دے اور آج ہم جن مسائل کے بھنور میں گھرے ہیں ان سے نکل سکیں ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے درمیان دوست نما جو دشمن ہیں ان سے ہم ہوشیار رہیں اور ان کے مسلمانوں جیسے نام سے دھوکہ نہ کھائیں ۔ ایسے لوگ دراصل ہمارے آستین کے سانپ ہیں ۔ اس لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ ہم سید شہنواز حسین ، مختار عباس نقوی ، ایم جے اکبر ، ظفر السلام ، دانش آزاد انصاری ، محسن رضا ، عارف محمد خاں ، امام عمر احمد الیاسی ، طارق منصور، غلام علی کھٹالہ وغیرہ جیسے نام نہاد مسلمانوں سے نہ صرف دوری بنا کر رکھیں بلکہ ان کا سماجی طور پر بائکاٹ کا اعلان کریںجو مسلمانوں کے نام پر بے ضمیری کا سودا حکومت سے کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مسلم دشمنوں کو قوت بخشتے ہیں ۔ اب تو ملک کے مسلمانوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کرنے کے لئے شہریت ترمیمی قانون کو بھی نافذ کر دیا گیا ہے ۔اس بار کے پارلیمانی انتخاب میں بھی علمأ اور برساتی مینڈکوں کی طرح صرف الیکشن میں سامنے آنے والے نام نہاد سیاست دانوںسے کی میٹھی میٹھی بولیوں سے بہکاوے میں آئے اور اگر ہمارے آپسی انتشار اور ووٹوں کے بکھراؤ سے فرقہ پرستوں اور فاشسٹوں کو کامیابی ملتی ہے تو یہ یقین جانیں کہ پھر ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں ۔ اب بھی زیادہ وقت نہیں گزرا ہے۔ سجدے کی حالت میں پولیس والے کے جوتوں کی ٹھوکروں سے اب بھی سبق لیا جا سکتاہے ۔
( مضمون نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Comments are closed.