Baseerat Online News Portal

مشرکین کو ناپاک کہنا

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
ترجمان وسکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
قرآن مجید میں ایک جگہ شرک کرنے والوں کو ناپاک کہا گیا ہے ، ہمارے بعض ہندو بھائی جو اس کے پس منظر سے واقف نہیں ہیں ، ان کو اس پر سخت اعتراض ہے ؛ اس لئے ضروری وضاحت کی جاتی ہے ۔
قرآن مجید کی جس آیت میں مشرکین کو ناپاک کہا گیا ہے وہ اس طرح ہے :یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُوْا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ھَذَا وَ إِنْ خِفْتُمْ عَیْلَۃً فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمُ اﷲُ مِن فَضْلِہِ إِن شَاء إِنَّ اﷲَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ۔ (التوبۃ: ۲۸) اے ایمان والو ! بے شک مشرکین (اپنے عقیدہ میں) ناپاک ہیں؛ اس لئے وہ اِس سال کے بعد مسجد ِحرام کے قریب بھی نہ آئیں ، اوراگر تمہیں اِفلاس کا اندیشہ ہوتو اگر اللہ چاہیں تو اپنے فضل سے تم کو عنقریب محتاج نہیں رکھیں گے ، بے شک اللہ خوب جانتے ہیں اوربڑی حکمت والے ہیں۔
اس آیت کے سلسلہ میں چند نکات ملحوظ رکھے جانے چاہئیں :
(۱) یہاں مشرک سے صرف بت پرست (مورتی پوجک) مراد نہیں ہیں ، جیسا کہ وی ، ایچ ، پی والے اور ہندو انتہاء پسند اسی کا ترجمہ کرتے ہیں ؛ بلکہ وہ تمام لوگ شامل ہیں، جو خدا کی ذات یااس کی مخصوص صفات و اختیارات میں دوسروں کو شریک ٹھہرائیں ، خواہ وہ بت کا پرستار ہو ، یاکسی پیغمبر کو خدا کا درجہ دیتا ہو ، یا اللہ کے کسی نیک بندہ کو خدا کی قدرت و اختیار میں ساجھے دار سمجھتا ہو ، جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ؛ لیکن انھوں نے خدانخواستہ غیر اللہ کو خدا کا درجہ دے رکھا ہو اور رسول اور اولیاءؒ کی ذات میں وہ اختیارات مانتے ہوں ، جو اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں ، تووہ بھی مشرک کا مصداق ہیں ۔
(۲) مشرکین کو ’’ ناپاک ‘‘ کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کا جسم ناپاک ہے ، ان کے کپڑے ناپاک ہیں ، یا ان کا جھوٹا ناپاک ہے ، پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرمسلموں کی مہمان نوازی کی ہے ، خود ان کی دعوت قبول فرمائی ہے ، مسجد ِنبوی میں ان کو ٹھہرایا ہے ، اپنے بستر پر انھیں بٹھایا اور سلایا ہے ، اگر انھیں جسمانی اعتبار سے ناپاک سمجھا جاتا تو کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا عمل فرماتے ؛ اس لئے یہاں عقیدہ اور فکر کی ناپاکی مراد ہے ، یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی شخص کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ناپاک عزائم رکھتا ہے ، یا آپ کہتے ہیں کہ فلاں دہشت گردوں کے ناپاک منصوبے ہیں ، یہاں ناپاکی سے عمل اور سوچ کے غلط ہونے کا اظہار کیا جاتا ہے ، گویا اس آیت میں شرک کے نہایت غلط اور خلافِ واقعہ عمل ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
(۳) اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اثبات اور شرک کی نفی صرف اسلام ہی نے نہیں کی ہے ؛ بلکہ یہ تمام ہی مذاہب کی اصل تعلیمات ہیں ، بائبل میں جگہ جگہ شرک کی مذمت آئی ہے اور ہمارے عیسائی بھائی جو آج تین کے مجموعہ (Trinity)کو خدا مانتے ہیں ، ان کے پاس اس دعویٰ کے لیے بائبل کا کوئی صریح فقرہ موجود نہیں ہے ، اس لئے وہ تاویل کرتے ہیں کہ یہ تین مل کر ایک ہی ہیں، ہندو مذہبی کتابوں میں بھی خدا کے بارے میں بہ تاکید وحدانیت کا ذکر ہے ، شرک کی نفی ہے ، کہا گیا ہے کہ خدا جسم والا نہیں ہے ، وہ تنہا پورے عالم کا احاطہ کئے ہوئے ہے ، اس سلسلہ میں پنڈت دیانند جی سرسوتی نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’’ستیا رتھ پرکاش‘‘ میں بت پرستی کی تردید میں ہندو مذہبی کتابوں کے جو حوالے نقل کئے ہیں ، وہ بہت ہی چشم کشا ہیں اور جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل ہندو مذہب توحید ہے نہ کہ شرک ، اسی کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے ویدوں کے چند حوالے یہاں ذکر کئے جاتے ہیں :
= وہ محیط ، پاک اور جسم سے خالی ہے ۔ (یجروید : ۴۰ : ۸)
= میں افضل ترین قوت و نعمت کا منبع ، سورج کی طرح تمام عالم کو منور کرتا ہوں ، میں نہ کبھی مغلوب ہوتا ہوں اور نہ مرتا ہوں ، یہ تمام عالم جو نعمتوں کا مخزن ہے اس کا خالق میں ہوں ، تم مجھے ہی اس دنیا کا خالق اور مبتدا سمجھو ، اے اہل علم ! تم نعمت وحشمت کے حصول کے لیے کوشاں رہ کر علم و غیرہ نعمتوں کے لئے مجھ ہی سے التجا کرو ، میری رفاقت سے کبھی روگرداں نہ ہو ۔ (رگ وید : ۵ : ۴۸ : ۱۰)
رگ وید ہی کے یہ ارشادات کس قدر بصیرت مندانہ اور عقیدۂ توحید کے بارے میں واضح ہیں :
اے بنی نوعِ انسان ! میری حقیقی حمد و ثنا راست گوئی ہے ، ایسی حمد کرنے والے انسان کو میں ازلی علوم وغیرہ نعمتیں عطا کرتا ہوں … اس لئے عالم میں جو اشیاء موجود ہیں ، ان کا خالق اور قیوم میں ہوں ، اس لئے تم مجھے چھوڑ کر کسی اور کی عبادت مت کرو اور نہ کسی کو میری جگہ معبود مانو اور جانو ۔ (اتھروید : ۱۰ ؍ ۴۹ : ۱)
پنڈت سرسوتی جی نے کینو پنشد (۱:۶) کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ کی صفات کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے :
جسے آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا ؛ بلکہ آنکھ جس کی قدرت سے دیکھنے کے قابل ہوتی ہے ، اسے ہی تم خدا سمجھو ، آنکھ سے دکھلائی جانے والی جن چیزوں کی لوگ عبادت کرتے ہیں ، وہ خدا نہیں ہیں ۔
ہندو مذہب کی اہم معتبر کتابوں کی عبارتوں سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کو ایک ماننا اوراس میں کسی اور کو شریک نہیں ٹھہرانا ہی اصل ہندو دھرم ہے ، تو مشرکوں کو ناپاک کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو اپنے آپ کو ہندو کہے اور اصل مذہب پر عمل نہ کرے ، جو اپنے آپ کو یہودی کہے اوراصل یہودی مذہب پر عمل نہ کرے ، جو اپنے آپ کو عیسائی کہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصل تعلیمات پر عمل نہ کرے ، جو اپنے آپ کو مسلمان کہے اور اس کا عقیدہ اسلامی تعلیمات کے مطابق نہ ہو ، وہ اپنے خیال و عقیدہ کے اعتبار سے ناپاک ہیں ۔
(۴) جو لوگ کسی دھرم کا نام لیتے ہوں اور اس کی اصل تعلیم پر عمل نہ کرتے ہوں ، ان کو ہر مذہب میں عقیدہ کے بگاڑ کے اعتبار سے خراب نام دیئے گئے ہیں، جن لوگوں نے بائبل کا مطالعہ کیا ہے ، وہ اس سے خوب واقف ہیں کہ اس کتاب میں بہت سے مواقع پر شرک کرنے والے کو کسبی ، فاحشہ ، زانی ، بدکار وغیرہ کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے ، دھرم پر عمل کرنے والوں اورنہ کرنے والوں کے درمیان فرق ہندو مذہب کی کتابوں میں بھی زیادہ سخت لب و لہجہ میں ملتا ہے ’’دسیو‘‘ اور ’’داس‘‘ کے نام سے ہندوستان کے اصل کالے باشندوں کو ویدوں میں یاد کیا جاتا ہے ، جو آریہ لوگوں کے مذہب پر نہیں تھے ، اس قوم کے بارے میں ویدوں کے کلمات ملاحظہ کیجئے :
= ہمارے گرد وہ دسیو ہیں جن کا کوئی دھرم نہیں ہے ، عقل سے محروم ، انسانیت سے خارج ۔ (رگ وید : ۱۰ : ۲۲ : ۲ : ۸)
= اے بہادر ! تو نے لڑائیوں میں بیل جیسے جبڑے والے داسوں کے جادو ٹونے تک کو مغلوب کرلیا۔(رگوید : ۷ : ۴۹ : ۴)
= تو اپنے ہتھیار سے نکٹے دسیوں کو قتل کرتا ہے ۔ (رگ وید : ۵ : ۲۹ : ۱)
کہیں ان لوگوں کو ’’سیاہ رو‘‘ مخلوق سے تعبیر کیا جاتا ہے ، (رگ وید : ۶ : ۲۱) کہیں انھیں ’’گھن کھائے درخت‘‘ کہا جاتا ہے ، (رگ وید : ۸ : ۴ : ۶) کہیں ’’کالے غولوں‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، (سام وید : ۴ : ۲ : ۴ : ۱۱) ویدوں میں اَدھرمی لوگوں کے لئے حریص راکشش اور خبیث دشمن وغیرہ کے نام دیئے جاتے ہیں ۔
اب انصاف کی نظر سے دیکھا جائے کہ قرآن نے تو ایک جگہ مشرکین کو ناپاک کہا ہے ؛ لیکن ویدیں اس مذہب کے مخالفین کو خبیث ، بیل جیسے جبڑے والے ، نکٹے ، سیاہ رو ، عقل سے محروم ، انسانیت سے خارج ، بدذات ، پاپی ، حریص ، راکشش وغیرہ کے الفاظ بے تکلف کہتی ہیں ؛ بلکہ اتھر وید میں آدھرمی لوگوں کے لیے بعینہٖ ’’ناپاک‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے :
یا تو دھانوں کے دلوں کو تیر سے چھید ڈال اور ان کے بازوؤں کو جو تجھ پر حملہ کرنے کے لئے اٹھیں ، توڑدے ، ان شیطانوں کے سامنے بھڑک کر اے اگنی ! انھیں مار گرا ، مردار خوار چتکبرے گدھ اسے کھائیں ، اس’’ پلید‘‘ کو آدمیوں میں سے آدم خور کی طرح تاک کر اس کے تینوں اوپر کے اعضاء کو توڑ ڈال ۔ (اتھروید : ۸ : ۳ : ۶ – ۷ – ۱۰)
(۵) یہ تو وہ القاب ہیں جو اَدھرمی لوگوں کو دیئے گئے ہیں ؛ لیکن منوجی کی تعلیمات میں عقیدۂ و فکر کی بنیاد پر نہیں ؛ بلکہ نسل و خاندان کی بنیاد پر شودروں کو نہایت ذلیل و حقیر القاب دیئے گئے ہیں اور ان کے بارے میں وہ احکام دیئے گئے ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شودر جسمانی طور پر پیشاب ، پائخانہ کی طرح ناپاک اور قابل اجتناب ہیں ، اس سلسلہ میں میں ہندو مآخذ میں اتنا کچھ ہے کہ اگر ان سب کو نقل کیا جائے تو ایک رسالہ بھی ناکافی ہے ، چند نمونے یہاں ذکر کئے جاتے ہیں :
= ہاتھی ، گھوڑے ، شودر قابل نفرت ملیچھ لوگ ، شیر ، تیندوے اور سور (پنر جنم کے) وہ ادنیٰ درجے ہیں ، جوتاریکی سے حاصل ہوتے ہیں۔ (منوسمرتی : ۴۳ : ۱۲)
= شودر کا کھانا نہ کھائے ۔(منوسمرتی : ۲۱۱ : ۴)
= شودر کی لڑکی کو اپنے پلنگ پر بٹھانے سے نرک (دوزخ) میں چلاجاتا ہے ۔ (منوسمرتی ۱۷ : ۳)
= اگر برہمن بھولے سے شودر کا کھانا کھالے تو تین دن تک اُپاس کرے (بھوکا رہے) ، اور اگر جان بوجھ کر کھالے تو اس کا کفارہ وہی ادا کرے جو حیض ، پائخانہ ، یاپیشاب پینے اور کھانے والے کے لئے مقرر ہے۔(منوسمرتی : ۳۲۲ : ۴)
= غذا سور کی بدبو سے ، کتے کی نظر سے اور شودر کے چھونے سے گندی ہوجاتی ہے ۔ (منوسمرتی : ۲۹۱ : ۳)
ان تصریحات سے جو نہ صرف منوشاستر میں ہیں ؛ بلکہ ایسی بعض عبارتیں خود ویدوں میں بھی موجود ہیں ، اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ انسانیت کے ایک طبقہ کو ہندو مذہب کے موجودہ مآخذ کی روایت کے مطابق کس نظر سے دیکھا گیا ہے ؟
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.