Baseerat Online News Portal

مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی کی ہمہ جہت شخصیت

پروفیسر شکیل احمد قاسمی، پٹنہ
چیرمین، فاران انٹرنیشنل فائونڈیشن، انڈیا
(M): 9431860419
بیسویں صدی اپنے طویل ترین سفر کے تمام مراحل طے کرکے اکیسویں صدی کے آمد کا انتظار کر رہی تھی ،غم و اندوہ کے بہت سے واقعات وہ دیکھ چکی تھی لیکن اسے ابھی ایک اور بڑے سانحے سے گزرنا تھا ، چناں چہ 31 ؍ دسمبر 1999کوبیسویں صدی کا وہ عظیم سانحہ کچھ اس طور پر رونما ہوا کہ عالم اسلام کی ایک عبقری شخصیت ،مفکر اسلام سید ابو الحسن علی ندوی اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔ اس طرح بیسویں صدی جو نہ جانے کتنے کرب کو اپنے اندر سمیٹے ہوئی تھی ایک اور عظیم حادثے کو اپنے وسیع دامن میں چھپا کر ہم سے رخصت ہوگئی، اور ملت اسلامیہ ایک عظیم ، جرأت مند و بیباک ، دینی غیرت و ایمانی حمیت سے سرشار ،مخلص اور حق گو داعی سے محروم ہو گئی۔اور پوری دنیا کے علمی وادبی حلقوں نے اپنے ایک عظیم رہنما ومربی کو کھوکر سوگوارانہ انداز میں اکیسویں صدی کا آغاز کیا ۔
مفکر اسلام سید ابو الحسن علی ندوی ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جن کی حیثیت علاقائی ، صوبائی ، قومی ہی نہیں بلکہ عالمی اور بین الاقوامی تھی ، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ رب کائنات نے انھیں بہت سی خصوصیات اور مختلف صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ اور انھوں نے اللہ کی طرف سے عطا کی ہوئی تمام صلاحیتوں کا بجا اور بہترین استعمال بھی کیا، چناں چہ ایک طرف اگر وہ اخلاص کی دولت سے مالامال ، ملی تڑپ ان کے سینے میں موجزن اور علم و مطالعہ سے ان کی زندگی عبارت تھی تو دوسری طرف بیش قیمت تجربات ، وسیع النظری اور دینی غیرت و حمیت کا سرمایہ ان کے پاس تھا ، اور اظہار حق ان کا طرہ امتیاز ۔ مولانا کی پوری زندگی کا مطالعہ ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ مذہبی و ملی مفاد ، دین کی بالادستی اور حق گوئی کو اپنا شعار بنایا اور کبھی بھی اس میں کسی فرد ، ادارے،شہرت و جاہ طلبی، ادنی درجے کی مادیت پسندی یا کسی اور مصلحت کو حائل نہ ہونے دیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کی گراں قدر علمی صلاحیت اور دیگر اعلی خصائل کی بنیاد پر ہر عہد میں ان کی شخصیت اور ان کی عظمت و مقبولیت تسلیم کی گئی۔
مولانا نے اپنی خطابت کے ذریعے موثر انداز میں اسلام کی ترجمانی ، صالح قدروں کی تشکیل ،اسلامی طرزپر نوجوانوںکے مستقبل کی تعمیر کا مقدس فریضہ بھی انجام دیا ہے، وہ نوجوانوں کو ملت کا کار آمد اور مفید سرمایہ تصور کرتے ہیں ،وہ اپنی تقریروں میں ان کی توجہ اس جانب بھی مبذول کراتے ہیں کہ یورپ جا کروہ اعلی تعلیم حاصل تو کریں لیکن اس پر نظر رہے کہ مغربی تہذیب کے دلدادہ اور ذہنی مغلوبیت کے شکار نہ ہو جائیں، وہ قوم کے جیالوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس انتہائی موثر انداز میں اپنی ایک تقریر میں دلاتے ہیں: ’’عزیز نوجوانوں ! آپ مغرب اس لیے نہیں آئے کہ آپ موم کی طرح پگھل جائیں ۔ آپ اس لیے آئیں ہیں کہ ایک نیا عالم تعمیر کریں ۔ابراہیم کے فرزند اور ان کے پیرو ہی ایسا عالم تعمیر کر سکتے ہیں ۔جن پاک باز ،امانت دار ہاتھوں نے حرم کی تعمیر کی انھیں کے نام لیوا اور انھیں کے پیرو نئے عالم کی تعمیر کر سکتے ہیں ، آج دنیا زبان سے یہ کہہ رہی ہے: ’معمار حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز ‘ ۔ آپ مغرب اس لیے ہر گز نہیں آئے ہیں کہ یہاں سے واپس جاکر اہل مشرق کو طوطوں کی طرح رٹا رٹایا سبق سنائیں، بندروں کی طرح نقلیں بنائیں ۔ مشرق کو ایسے صاحب ہمت اور صاحب دانش انسانوں کی ضرورت ہے جن میں ایسی جرأت ہو کہ وہ مغرب سے کہہ سکیں کہ تو نے یہاں یہاں غلطی کی ہے۔‘‘
مو لا نا علی میا ں ندوی کا نما یا ں کا ر نا مہ یہ ہے کہ انہوں نے مذہبی مو ضو عا ت میں ادب کا رنگ و لطف پیدا کیا اور تحقیق و تنقید کو گلے ملا دیا ۔ وہ مورخ ، نقاد ، محقق اور منفرد اسلو ب کے مصنف اور ادیب ہیں ۔ انہوں نے اسلا می تہذیب و تا ریخ کا احسا س ایک غا لب و پا ئیدا ر عنصر کی حیثیت سے کرا یا اور اپنی خا لص اسلا می فکر کی تصو را تی رنگ آ میزی سے دنیا کے سا منے ایک مثا لی نظا م حیا ت کا خا کہ پیش کیا ۔ اعلی نصب العین کی سو سا ئٹی کی تشکیل ان کی فکر کی سب سے اہم خصو صیت ہے ۔ اپنے گہر بار قلم سے صا لح قدیم و نا فع جدید کا ایسا حسین امتزاج پیش کیا ، جو قا بل رشک بھی ہے اور لا ئق تحسین و تقلید بھی، انہوںنے اپنے مو قف کا خو د اعلا ن کیا : ’’میں اس ادب اور پیغا م کی طرف بے اختیا را نہ بڑھتا ہوں ، جو بلند نظری ،اعلی حوصلگی اور احیا ئے اسلا م کی دعوت دیتا ہے اور تسخیر کا ئنا ت اور تسخیر انفس و آفاق کے لئے ابھا ر تا ہے اور جو محمد ﷺ کی عظمت اور ان کے پیغا م کی آفاقیت و ہدا یت پر ایما ن لا تا ہے۔‘‘
سید ابوالحسن علی ندوی کی شخصیت مشاہیر ، علماء اور دانشوروں کی نظر میں حد درجہ مقبول رہی ہے، بقول سید سلیمان ندوی ’حجازومصرکی فضائیں ان کی دعوت کے نغموںسے مسحور ہیں‘بقول عبد الماجد در یابادی ’علی میاں تاروں کی جھرمٹ کے درمیان آفتاب ہیں‘ رشید احمد صدیقی کے خیال میں ’مولانا کی تحریر اسلوب اوراظہار کے اعتبار سے جتنی سنجیدہ اور موئثر ہے اتنی ہی دلکش بھی ‘آ ل احمد سر ور کہتے ہیں ’مو لا نا مفکر بھی ہیں ، مصنف بھی ، مورخ بھی ہیں معلم بھی ، اور ادب کا ایسا رچا ہوا ذوق رکھتے ہیں کہ ان کی تحریر و تقریر میں حکمت کے سا تھ شعر یت کی آ ب وتا ب جلوہ گر رہتی ہے ‘ما ہر القا دری کی نگا ہ میں ’شبلی کا قلم ، غزا لی کی فکر ، اور ابن تیمہ کا جو ش وا خلا ص علی میا ںکی تصنیف میں کا ر فر ما ہے ۔‘
مو لا نا اپنے نظر یہ علم کی وضا حت کر تے ہو ئے فر ما تے ہیں: ’’میرا عقیدہ ہے کہ علم ایک اکا ئی ہے جو بٹ نہیں سکتی ۔ اس کو قدیم و جدید ،مشرقی و مغربی ، نظری و عملی میں تقسیم کر نا صحیح نہیں ،میں علم کو ایک صدا قت ما نتا ہوں ،جو خدا کی وہ دین ہے ،جو کسی ملک اور قو م کی مِلک نہیں اور نہ ہو نی چا ہئے، مجھے علم کی کثرت میں بھی وحدت نظر آ تی ہے ، وہ ’وحدت‘ سچا ئی ہے ، سچ کی تلا ش ہے ، علمی ذو ق ہے اور اس کو پانے کی خو شی ہے۔‘‘
حضرت مولا نا کی عا لمی مقبو لیت او رشہرت کا را ز صرف علم کی وسعت ، تصا نیف کی کثرت ، کئی زبا نو ں پر قد رت اور اسلوب کے جما ل میں پوشیدہ نہیں بلکہ وہ دا رالعلو م ند و ۃ العلما، مدا رس عر بیہ ، دینی تعلیمی کو نسل ، آ ل انڈیا مسلم پر سنل لا بو رڈ ، عا لمی را بطہ ادب اسلا می او ر بہت سے علمی ادا روں کے روح روا ں ، سربراہ اور مشیر خا ص تھے ۔ ان کے فکر و عمل میں وسعت تھی اور شخصیت میں حد در جہ توا زن و اعتدا ل۔وہ اپنے اعلی اخلاق و کردا ر کی وجہ سے سبھوں میں مقبو ل اور مسلک و نظر یات کے اختلا ف کے با وجو د لو گ انہیں خرا ج تحسین و عقیدت پیش کر تے ہیں۔
تصنیف و تا لیف ، زبا ن و ادب، فکر اسلا می کی بلندی ، عا لم اسلا م کے مسا ئل پر گہری نظر ، عا لمی دینی تحریکا ت کی سر پر ستی اور با طل رجحا نا ت پر نکیر ، اسلا می تشخص کا دفا ع ، حکو متوں کو جھکا دینے کی رو حا نی طا قت ، دو لت دنیا سے بے نیا زی ، اور شان ا ستغنا سے بہر ور مو لا نا نے اپنی شخصیت اور کر دار سے دعوت وعزیمت کی تا ریخ کا ایک جلی عنوان قا ئم کر دیا ۔ وطن عزیز کے لئے آپ کی فکرمندی اور دلسوزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دوران علالت آپ کی عیادت کے لئے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی جب ندوہ آئے تو اخلاقی ملاقات کے بعد حضرت نے ان سے کہا : ’’ اٹل جی ! خدا کے یہاں سیاست نہیں چلتی ،خلوص چلتا ہے ، سچائی چلتی ہے ، خلوص کے ساتھ کام کیجئے کامیابی قدم چومے گی ، ترقی کی راہیں کھلیں گی اور فتح و کامرانی آپ کے قدم سے قدم ملا کر چلے گی ۔ اوپر والے نے آپ کو اتنا بڑا ملک دیا ہے وہ اس ملک کے بارے میں آپ سے پوچھے گا بھی ، آپ کو یہ ایک موقع ملا ہے کہ آپ اس ملک کو اتنی ترقی دیں اور اس کو اتنا خوشحال اور پر امن بنائیں کہ لوگ دوسرے ملکوں میں جانے کے بارے میں سوچیں بھی نہیں۔ ‘‘مزا ج کی نر می کے با وجو د قیا دت کے منصب کے تقا ضے کی ادائیگی میں مسلم پر سنل لا بو رڈ کے صدر کا جر اتمندا نہ اقدا م ہندوستا ن کی ملی تا ریخ کا قا بل فخر حصہ بن گیا ۔جب حکومت وقت کو متنبہ کر تے ہو ئے مو لا نا نے فر ما یا کہ’ اگر سر کا ری اسکو لوں سے پو جا کی لا زمیت کو نہیں ہٹا یا گیا تو ہم مسلما نو ں سے کہیں گے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکو ل سے نکا ل لیں‘ ۔حضرت کے اعلا ن کے دو سرے دن حکو مت نے اپنا فیصلہ وا پس لیا اور ان سے معذرت کی ۔ مفکر اسلا م نے اس اقدا م سے نہ صر ف حکو مت کی گو شما لی کی بلکہ ہند وستا ن کی ملی قیا دت کے سا رے قا ئدین کے لئے ایک اعلی نمو نہ پیش کیا۔مختلف مو قعوں پر اس طرح کے فیصلو ں کی ضرورت محسو س ہو تی ہے ۔
اعتدال اور توازن مفکر اسلام سید ابو الحسن علی ندوی کے فکر و عمل کا جوہری وصف تھا،وہ سارے معاملات میں اس کا خیال رکھتے ، یہ وہ خوبی تھی جس کی بنا پر وہ ہر حلقہ میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے، بلائے جاتے،مسند صدارت پر بٹھائے جاتے ، ادارے اور افراد نگاہ و نظر فرش ِراہ کرتے اور حددرجہ احترام کے ساتھ پیش آتے۔ان کا طرز عمل عزیزوں کے ساتھ شفقت اور بزرگوں کے ساتھ اکرام کا ہوتا۔ وہ مثبت طرز فکر کے آدمی تھے۔جہاں کوئی خوبی نظر آتی اس کی قدر کرتے ، کار آمد افراد اور طبقوں کو دعوت فکر و عمل دیتے۔دانشوراورمذہبی شخصیتوں کی ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ جب کسی دور میں اخلاقی گراوٹ کا ایسا دورہ پڑتا ہے تو اس وقت دو طبقے میدان میں آتے ہیں ، ایک مذہبی پیشوائوں کا طبقہ ، دوسرا دانشوروں کا طبقہ ، اس وقت بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی پیشوا اور مذہبی انسان اور دانشور میدان میں آئیں ، وہی اس وقت معاشرہ کو بچا سکتے ہیں۔‘‘ 1997میں جب پٹنہ میں ’عالمی رابطہ ادب اسلامی ‘کا سمینار اور ’پیام انسانیت کانفرنس‘ کا ہم لوگوں نے انعقاد کیا تھا۔مجلس استقبالیہ کے صدر ڈاکٹر احمد عبدالحئی صاحب تھے،راقم الحروف (شکیل احمد قاسمی) سکریٹری کی حیثیت سے ذمہ داری ادا کر رہا تھا،حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب امارت شرعیہ، ڈاکٹر حبیب الرحمان چیغانی صاحب ڈائریکٹر خدابخش لائبریری ، جناب شفیع مشہدی صاحب اور دوسرے حضرات،اراکین میں شامل تھے۔مفکر اسلام پٹنہ تشریف لائے، ڈاکٹر صاحب کے یہاں ان کا قیام تھا۔ ہم لوگوں نے ان سے عرض کیا : بینر کے اوپر ’’ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہونچے‘‘ لکھا گیا ہے ، انہوں نے فوراََ پوچھا کیا اس کا پہلا مصرعہ بھی آپ لوگوں نے لکھا ہے ؟ ہم لوگوں نے جواب دیا نہیں تو انہوں نے اطمینان کا اظہار کیا۔ پہلا مصرعہ’’ان کا جو فر ض ہے وہ اہل سیاست جانیں‘‘ اس سے جو پیغام نکلتا ہے اور طنز و تعریض کی جو صورت سامنے آتی ہے اس سے اہل علم واقف ہیں۔ مولاناحساس تھے اور اس قدر احتیاط پیش نظر رکھتے تھے۔ اس طرح ہم تمام لوگوں کی انہوں نے تربیت فرمائی۔ میری خوش نصیبی ہے کہ میں نے حضرت مولانا پر پی ایچ ڈی(Ph.D.)کی،جس کی وجہ سے حضرت مولانا کو اور ان کی تصانیف کو تفصیل سے پڑھنے کا موقع مجھے مل سکا، اسے میں اپنے لئے سعادت سمجھتا ہوں۔
نگہ بلند، سخن د ل نواز، جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے

Comments are closed.