Baseerat Online News Portal

مولانا آزاد کا نظریہ تعلیم اور بدلتے حالات میں اس کی ضرورت

القاسمی وقار احمد خان
[email protected]

تعلیم ہر فرد کی حقیقت اور واقعیت کا وہ آئینہ دار نظام ہے، جس کے سانچے میں اس کے عادات وخصائل ڈھلتے ہیں۔ اگر تعلیم کی بنیاد حریت اور انسانیت کے ہمہ گیر اصولوں پر استوار ہو، تو: اس کی بدولت عوام کے زاویہ نگاہ میں تبدیلی آسکتی ہے؛ بلکہ قوم کو ترقی وخوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کے مواقع بھی میسر ہوسکتے ہیں۔

چناں چہ سیکڑوں مفکرین نے تعلیم کو خاص اہمیت دی اور اسے بہتر بنانے کے لیے اپنی زندگیوں کا اکثر حصہ لگا دیا، جن میں مولانا ابوالکلام آزاد کا نام بھی سر فہرست ہے؛ کیوں کہ انہوں نے منصبِ وزیر تعلیم پر فائز ہونے کے بعد تعلیم پر خاص توجہ دی اور اسے بہتر بنانے کی فکر کرتے ہوئے کوشش بھی کی کہ تعلیم کے لیے وہ تمام سہولیات مہیا کرائی جائیں، جن کا تقاضہ حالات کرتے ہیں، مثلا: ٹیکنیکل ایجوکیشن کا نظام، عمدہ نصاب، بہترین اساتذہ اور ان کے اقتصادی ومعاشرتی معیار کی بلندی۔

تعلیم میں خود داری اورعزت نفس کا اصول بھی انفرادی واجتماعی آزادی؛ دونوں کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے؛ چناں چہ مولانا کی نظر میں طالب علم کی شخصیت کا خاص خیال رکھنا اور ان کا احترام کرنا، اسے اظہار رائے اور سوال وجواب کے مواقع فراہم کرنا ضروری ہے، تاکہ اس کی مخفی صلاحتیں اجاگر ہوں۔ اسی طرح تعلیم نسواں کی طرف بھی خصوصی توجہ مبذول کرنا ضروری ہے؛ کیوں کہ تعلیم یافتہ نسل غیر تعلیم یافتہ ماؤں کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ بچے کی تعلیم وتربیت میں ماں کا اہم رول ہوتا ہے؛ لہذا اگر ماں تعلیم یافتہ ہے، تو: اولاد بھی تعلیم یافتہ ہوں گی۔

مولاناابوالکلام آزاد کی نظریں تقریبا نصف صدی کا محاکمہ کرچکی تھیں اور آنے والے دور کو ’جدید دور‘ شمار کرچکی تھیں؛ اس لیے وہ وقت کے تناسب ایک ایسا جدید تعلیمی نظام مقبول کرانا چاہتے تھے، جس کی بنیاد اسلامی / مذہبی علوم پر ہو؛ مگر اس کی کوئی حد نہ ہو؛ بلکہ بقدر ضروت ووسعت مختلف علوم وفنون حاصل کیے جائیں؛ کیوں کہ تہذیب وتمدن کی بنیاد تعلیم پر ہی ہے، تعلیم ہی ملکوں اور انسانوں کو عظمت ورفعت اور ترقی پر پہنچاتی ہے۔

ان کا خیال تھا کہ مشرقی ومغربی؛ دنوں علوم حاصل کیے جائیں؛ لیکن اسلامی علوم کا غلبہ ہو، تاکہ انسان ان کا صحیح استعمال کرے اور ان مقاصد کو حاصل کرسکے، جو انسانی فطرت کے تقاضوں کی ترجمانی کرتے ہیں؛ چناں چہ وہ چاہتے تھے کہ ابتدا اسلامی تعلیمات سے ہی ہو؛ کیوں کہ سائنس صرف ایک طاقت ہے، جو بذات خود غیر جانب دار ہے، اس کے انکشاف کو تعمیر و تخریب دونوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے؛ اس لیے دور جدید کی ضرورت ہے کہ سائنسی تحقیقات کو اسلامی فکر ونظر کے مطابق منصف طور پر منکشف کیا جائے۔

مولانا تعلیم میں عمومیت چاہتے تھے کہ ہر فرد ایسی تعلیم حاصل کرے، جو اس کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہوسکے اور اس تعلیم سے معاشرے کو مکمل طور پر فائدہ پہنچے۔ نیز تعلیمی اداروں کا نصب العین عوام کی دینی وملی ترقی اور خوشحالی ہو؛ اگر یہ اصول اختیار کیا گیا، تو: تعلیمی ادارے اہم خصوصی کردار کے ساتھ عمومی فرائض بھی ادا کریں گے۔

مولانا اکثر فرمایا کرتے تھے کہ تعلیم کو صرف ملازمتوں کے حصول کا ذریعہ ہرگز نہیں بنانا چاہیے؛ بلکہ اس کے وسیلہ سے انسانی ذہنوں میں بیداری لانے اور اپنے آپ کو آئندہ زندگی میں خود کفیل بنانے کی پر زور کوشش کرنی چاہیے۔ اس سے یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ آج بھی ملازمتوں میں حصہ نہ لیا جائے؛ مولانا نے اپنے زمانے کی بات کی ہے، اس وقت ماحول کچھ دوسرا تھا؛ لیکن اب ہمارے سامنے ایک جدید چیلینج ہے۔ اس وقت اگر ہم ملازمتوں میں حصہ نہیں لیں گے، تو: وہ دن دور نہیں، جب یہ کہہ دیا جائے گا کہ یہاں آپ کا کام نہیں ہوگا اور بعض مقامات کے بعض شعبوں میں اس کا مظاہرہ بھی کیا جاچکا ہے۔

تقریبا دوصدی تک مغربی اور انگریزی طرزِ تعلیم نے نئی نسل کو جس غلامانہ ذہنیت اورتنگ نظری کا شکار بنادیا تھا؛ مولانا آزاد نے اس نسل کو ایک جامع پیغام دیا اور راہنمائی کرتے ہوئے کہا کہ سائنسی، تکنیکی اور مادی ترقی کو مذہبی و اخلاقی اقدار کے تابع ہی رہنا چاہیے، متبوع نہیں بنانا چاہیے؛ کیوں عقائد واعمال کی درستگی اور انسانی اخوت وہمدردی بہت اہم امر ہے۔

ان کا مقصد تھا کہ نئی نسل میں وجود پذیر ذہنی اندھیرپن کو ان کے دل ودماغ سے نکالنا ہے اور انہیں حقیقی روشنی کی طرف لے جانا ہے؛ چناں چہ وہ قدیم وجدید؛ دونوں علوم کے مابین واسطہ بن کر سامنے آئے۔ ان میں نہ تو مدعیانِ مذہب کا جمود وانحطاط تھا اور نہ خامکارانِ علم کی کج نظری؛ بلکہ وہ علمی تصورات کے چشمہ صافی تھے اور وہ علوم فنون کے تعلیمی نظام پر دانشورانہ نگاہ رکھتے تھے؛ چناں چہ انہوں نے نظام تعلیم کی بہتری اور ہمہ گیریت پر زور دیا، جو ماضی کے ادراک، حال کی بصیرت اور مستقبل کی آگہی پر مبنی ہے۔ انہوں نے ایسی تعلیم کی وکالت کی، جو سائنسی تحقیقات اور صنعتی ایجادات کے شایان شان ہے۔

تعلیم کا ایسا ڈھانچہ تشکیل دینا، جس میں قدیم ومذہبی روایات کی شمع بھی فروزاں ہو اور عصری حالات کی تجلیاں بھی جلوہ گر ہوں؛ پانی پر خط کھینچنے کے مترادف ہے۔ تعلیم کے ایسے منضبط اور منظم خاکے کی تعمیر کے لیے ان اعلی وارفع اورجہاں دیدہ افراد کے نظریات کی کمک درکار ہوتی ہے، جن کے قلوب علم کی روشنی سے منور ہوں اور چشم بصیرت ماضی میں زوال پذیر ہونے والے اسباب سے لے کر مستقبل میں کامیاب ہونے والے آلات کی نشاندہی کررہے ہوں۔

تعلیم کے حوالے سے مولانا آزاد کی شخصیت منفرد وممتاز تھی، جس کا ثبوت آزادئ ہند کے بعد سے تادم مرگ ان کا ’وزیر تعلیم‘ کے عہدہ جلیلہ پر فائز رہنا ہے۔ انہوں نے اس عہدہ پر متمکن ہونے کے بعد اپنے نظریہ تعلیم کو عملی شکل عطا کی اور جو خاکہ پیش کیا، وہ اعلی، متناسب اور معتدل نظریہ پر مشتمل ہے، (جس پر ایک مضمون نہیں؛ بلکہ ایک رسالہ کی ضرورت ہے اور ان شاء اللہ بندہ اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کا ارادہ کرتا ہے)؛ مگر چند محققین کا خیال ہے کہ "ابوالکلام آزاد علوم اسلامیہ کے نہیں؛ بلکہ علوم جدیدہ کے خاہاں تھے”۔ بعض کم فہم یہ گمان کرتے ہیں کہ "وہ بھی ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں سائنس چاہتے تھے”، حالاں کہ یہ دونوں رائے مغالطے پر مبنی ہے، مولانا کی تحریریں اور تقریں جس کی تردید کرتی ہیں؛ کیوں کہ وہ اولا علوم اسلامیہ کے حصول کی ترغیب دیتے ہیں، پھر علوم جدیدہ کی طرف رخ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، جیسا کہ امام محمد قاسم نانوتوی کی رائے تھی؛ گویا مولانا آزاد علوم اسلامیہ اور مذہبی علوم کے حصول کو علوم جدیدہ کے حصول پر ترجیح دیتے ہیں اور یہ فکر ان سے قبل سیکڑوں علمائے کرام کی رہ چکی ہے؛ البتہ مولانا آزاد درس نظامی میں انگریزی داخل کرلینے کے قائل تھے کہ ساتھ میں ہی پڑھا جائے، جیسے ابتدائی درجات میں عربی وفارسی وغیرہ زبان کی تعلیم دی جاتی ہے۔

علاوہ ازیں مولانا کا خیال یہ بھی تھا کہ مذہبی درسگاہوں میں موجودہ دور کے ضروری جدید علوم کا اضافہ کیا جائے -جیسے قدیم زمانہ کی تعلیم گاہوں میں فلکیات، طبعیات، ریاضی اور طب وغیرہ کا درس ہوتا تھا؛ البتہ اس دور میں بھی لوگ اپنے پسندیدہ علوم کو خصوصی طور پر حاصل کرتے اور جو شخص کسی ایک فن میں ماہر ہوتا، وہ دوسرے فن میں ادنی طالب علم کی حیثیت رکھتا تھا؛ البتہ علوم اسلامیہ میں ضرور ماہر ہوتا تھا- تاکہ اسلامی اسکالرس جدید علوم وافکار سے بھی واقف ہوں۔ اسی طرح عصری درسگاہوں میں دینی علوم کی تعلیم کا بھی بندوبست کیا جائے، تاکہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ اپنے دین ومذہب، اپنے عقائد وایمانیات، اپنی تاریخ وتمدن اور اپنی تہذیب وروایات سے ناآشنا نہ رہیں۔ اسی صورت میں دونوں طبقے اپنی قوم وملت کے لیے مفید اور کارآمد ہوسکتے ہیں اور اسی طرح علوم وفنون میں مسلمانوں کے تنزل کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

بلاشبہ یہ صورت مشکل ہے؛ لیکن آزاد ہندوستان کے موجودہ حالات میں یہ ناگزیر ہے، اس سے اغماض برتنے میں شدید قومی وملی خسارہ ہے اور اب تو اس کا تجربہ بھی کیا جا چکا ہے؛ کیوں کہ اگر ہم وقت کے اعتبار سے نہ چلے اور اس سے مقابلہ کیا، تو: یقینا ہم ہار جائیں گے اور وقت جیت جائے گا؛ اس لیے ہمیں اور آپ کو ہر حال میں وقت اور زمانے کی چال کو اپنانا ہوگا؛ ورنہ ہم بہت پیچھے جاچکے ہوں گے اور اس کا احساس اس وقت ہوگا، جب صدی گزر جائے گی؛ کیوں کہ وقت کی رفتار بہت ہلکی ہے۔ وقت جب ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ پر پہونچ جاتا ہے، تب معلوم ہوتا ہے کہ ہم وہاں سے یہاں آگئے؛ اس لیے آج اور کل جیسی ضرورت ہو؛ ویسا قدم اٹھایا جائے اور تعلیم کی مضبوط عمارت تیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تعلیمی عمارت کی اہم بنیادیں کیا ہوں؟ وہ آئندہ اسی عنوان سے ذکر کردی جائیں گی ان شاء اللہ۔

Comments are closed.