Baseerat Online News Portal

مہتم صاحب مدرسہ میراروڈ اور ماسٹر قمرالزماں بلپکونہ کے نام

تہذیب واخلاق پر مشتمل تذکیری خط
مولانا محمد شاہد الناصری الحنفی
بانی وصدر : ادارہ دعوۃ السنہ ویلفیئر ٹرسٹ ممبئی مہاراشٹرا
مدیر:ماہنامہ مکہ میگزین ممبئی
محترمین مہتمم صاحب مدرسہ میراروڈ و ماسٹر قمرالزماں بلپکونوی صاحبان
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عرض ہے کہ ستمبر یا اکتوبر میں محبی مولانا ممتاز عالم قاسمی کی بچی کے نکاح کے سلسلے میں درآنے والی کچھ دشواریوں کے سلسلے میں خاکسار نے جب آپ سے بات کی تھی تواس وقت آپ نے جس بدتہذیبی اوربداخلاقی کا مظاہرہ پیش کرتے ہوئے ایک سانس میں سینکروں گالیاں میرے توسط سے بظاہر مولانا ممتاز کو آپ نے دی تھی مگر وہ اصلا مجھے دی تھی تو میں نے صبر وضبط اورتحمل کا مظاہرہ پیش کرتے ہوئے آپ سے گفتگو کے سلسلے کو منقطع کردیا تھا مگر وہ گالیاں اوربد تمیزیاں اوربداخلاقیاں میرے لئے سوہان روح بنارہا کہ کوئ عالم دین میراروڈ ممبئی کے ایک دینی مدرسے کا مہتمم اس طرح کی شرمناک حرکت کرسکتاہے اور اس طرح بھی حدود اللہ کی پامالی کرتے ہوئے کسی کی ماں بہن کو بازاری گالیاں دے سکتا ہے ؟
میرے لئے یہ سماعت دل پر کوہ گراں بنا ہی ہواتھا اورمیں تذکیری خط لکھنے کیلئے آج کل پر ٹال رہاتھا کہ نومبر کی 4 تاریخ کو وطن مالوف دربھنگہ کا سفر پیش آگیا ۔
یہاں ہمارے جوار میں ایک بزرگ حضرت الحاج مولانا حافظ شمس الہدی صاحب مدظلہ راجوی تشریف رکھتے ہیں ۔ نقشبندی سلسلے کہ کبیر السن صاحب حال بزرگ ہیں ۔
میرے والد ماجد حضرت مولانا قاری محمد ابوعمر ناصری القاسمی قدس سرہ بھی ان سے محبت فرماتے اور راجو میں ان کے دولت کدے پر ملاقات کیلئے تشریف لے جاتے ۔ بایں وجہ اس بار خاکسارنے معلوم کیا کہ حضرت ممدوح کہاں تشریف رکھتے ہیں تاکہ ملاقات کی سعادت حاصل کی جائے۔
برادر عزیز حافظ قاری محمد حاذق ناصری سلمہ نے معلوم کرکے بتایا کہ حضرت صاحب ان دنوں راجو میں نہیں ہیں بلکہ دربھنگہ شہر کے قریب مقام بھلنی میں ہیں اور 6 نومبر کو بعد عصر دعائیہ مجلس ہوگی ۔
خاکسار نے غنیمت سمجھتے ہوئے آستانہ پر حاضری دی تقریبا بیس سال کا قدیم چہرہ حسب سابق ماضی کی طرح شگفتہ نظر آیا ۔سلام کے بعد حضرت کے روبرو بیٹھ گیا مختصر مخاطبت رہی کہ دیگر لوگ بھی ان سے ہمکلام تھے پھر عصر کی اذان ہوئ اورحضرت کے شامل ہم لوگ مسجد میں داخل ہوگئے ۔
نماز سے پہلے مسجد کے اندرونی حصہ سے ماسٹر قمرالزماں بلپکونوی نمودار ہوئے تو حضرت نے حافظ حاذق سلمہ کی طرف انگلی سے اشارہ کرکے ماسٹر صاحب سے کہا کہ ان کو جانتے ہیں تو انہوں نے کہا اس سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتاہوں پھر ناگواری کا اظہارکرتے ہوئے حافظ صاحب کو ماسٹر صاحب نے گنوار گوڑھی وغیرہ ہونے کا طعنہ دیا ۔
حضرت صاحب مدظلہ تو سکتے میں آگئے پھر معا نماز کا وقت ہوگیا ماسٹر صاحب نے ہی نماز پڑھائ ۔
نماز کے بعد تمام مصلیان اورواردین وصادرین وظائف کیلئے جیسے ہی صف بندی شروع کی ویسے ہی پھر ماسٹر قمرالزماں نے حافظ حاذق صاحب سے بدکلامی وبد تمیزی شروع کردی اور گنوار جاہل کہتے ہوئے ذکر کی مجلس کے صف سے پیچھے ہونے کو کہا اور جنون وغصہ میں غیظ وغضب میں نہ جانے کیا کیا وہ بولتے رہے ۔
مجلس پر سناٹا چھایا رہا ۔ حضرت صاحب کی نگاہ نیچی ہوگئ ۔ اہل مجلس دم بخود ہوکر رہ گئے کہ یہ بوڑھا ذاکر وشاغل صوفی کی شکل وصورت اختیارکرکے کسی حافظ قرآن اور حضرت کے مہمان کے ساتھ کیسی بدتمیزی کررہا ہے ۔
خاکسارنے اس منظر کو دیکھ کر جب حب مداخلت کرنا چاہا اسی وقت ایک دوسرے صوفی مانع بن جاتے ۔ چناں چہ بیٹھے بیٹھے میں نے بلند آواز سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی اورحافظ قرآن کی بے اکرامی سے اورکسی بھی مسلمان کو بے عزت کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ پھر بھی یہ صوفی صاحب بڑ بڑ کرتے رہے ۔ بہ دقت چپ ہوئے اورپھر ذکر کی مجلس ہوئ اوردعاپر اختتام مجلس کا ہوا ۔ افسوس کہ دعابھی اسی بدتمیز ننگ صوفی نے کیا جو اردو اورعربی کی دعاؤں کے الفاظ کی درستگی پربھی قادر نہیں تھے اور یہ مجہول صوفی دعا میں بھی مجہول الفاظ ہی اداکرتے رہے ۔
پھر ہم نے مغرب کی نمازبھی حضرت کے زیرسایہ اسی بداخلاق صوفی کے پیچھے اداکی اوراس کے بعد حضرت سے اجازت لے کر رخصت ہوئے ۔
بوقت رخصت دیکھا کہ حضرت صاحب کے چہرے کی شگفتگی افسردگی میں بدلی ہوئ ہے وہ زیرلب کیا بولے میں سمجھ نہیں سکا ۔
بھلنی حضرت صاحب کی سسرال نگری ہے یہاں واردین وصادرین کی ضیافت حضرت کے سالے صاحبان کرتے ہیں ۔ نماز کے بعد ان حضرات نے شرمندگی کا اورماسٹر صاحب کے تئیں خفگی کا اظہار کیا ۔ حضرت کے سالے غالبا مدنی بابو نے کہا کہ ماسٹر قمرالزماں نے حضرت کے اورہملوگوں کے مہمان کے ساتھ بد سلوکی کرکے اپنی اوقات دکھا دی ہے آپ لوگ صبرکیجیے ۔
یہ دونوں یعنی مہتمم صاحب اور ماسٹر صاحب دربھنگہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اول الذکر کے بارے میں معروف عالم دین اور مشہور شاعر وصاحب قلم مولانا فضیل احمد ناصری استاذ جامعتہ الامام الشاہ محمد انور دیوبند نے برسوں پہلے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا ۔
ایک بہروپیا جو مہتمم بن گیا ۔
میں نے اس مضمون پر صاحب مضمون سے اختلاف کیاتھا مگر جب مہتمم صاحب نے مولانا ممتاز قاسمی کو بازاری گالیاں دیں اوربوقت ملاقات بھی حب دیگر علماء واصحاب کو گالیاں دیتے برابھلا اورمنفی تبصرہ کرتے تو خاکسار الدین النصیحہ کے تحت ان کو محبت سے سمجھانے کی کوشش کرتا مگر ہربار ان کا کبر مانع بن جاتا ۔ موصوف لوگوں سے اور خود خاکسار سے فرماتے کہ آپ میرے اورمیرے مدرسہ کے سرپرست ہیں اس ناطے بھی ان کی تفہیم کرتا مگر افسوس کہ انہوں نے اپنی غلط روش کو ترک نہیں کیا جس کی وجہ سے آج اس تحریر میں ان کاذکر آگیا۔
ثانیا ماسٹر قمرالزماں ہمارے وطن ناصرگنج کے پرائیمری اسکول سے ریٹائر ہو چکے ہیں ۔
جب یہ تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے اسی وقت سے ان کے مولویوں کی برائ کرنے سے ہملوگوں کو واقفیت حاصل تھی اور یہ خود برنگ تواضع کبروغرور میں مبتلاء نظر آتے تھے گرچہ شاید حضرت راجوی سے اس وقت بھی ان کے تعلقات تھے ۔
بہرحال مدرسہ کے مہتمم صاحب نے بداخلاقی کا جوزخم دیاتھا اوروہ ابھی مندمل بھی نہیں ہوا تھا کہ اس کو خانقاہ کے صوفی صاحب نے مزید ہرا کردیا ۔
اس سے اندازہ لگائیے کہ مدرسے اور خانقاہ میں کس قدر انحطاط آگیا ہے
اقبال مرحوم نے شاید اسی لئے کہاتھا کہ
اٹھا میں خانقاہ ومدرسہ سے غمناک
اور حضرت صوفی عبدالرب صاحب خلیفہ مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب الہ آبادی قدس سرہم نے بھی آج سے 60 . 70 سال پہلے خانقاہوں کا مرثیہ لکھا تھا ۔
اس سے معلوم ہوا کہ اکثر مدرسے اورخانقاہ حالالت کے اعتبارسے مال و دولت یاعزت وشہرت کے حصول کے مراکز ہیں کچھ اثتثناء کے ساتھ ۔
اس لئے دل میں یہ خیال آیا علماء سلف اور قدیم صوفیاء ومشائخ کے سرخیل حجتہ الاسلام امام غزالی رحمت اللہ علیہ کی کتاب سے تزکیہ واخلاق پر مشتمل کچھ نصائح کا انتخاب اپنی اصلاح کیلئے کیا جائے اوربار بار اس کا مطالعہ کیاجائے تاکہ بداخلاقی کے مرض سے ہم اپنی حفاظت کرسکیں ۔
اسی ضمن میں یہ داعیہ بھی دل میں پیدا ہوا کہ مذکورہ مہتمم صاحب اورماسٹر صاحب کی خدمت میں بھی یہ مضمون ارسال کروادوں اور اس مضمون کو عام طورپر شائع بھی کروادوں کہ کیا بعید حق تعالی شانہ ان کو بھی اوردیگر احباب جو بداخلاقی میں مبتلاء ہیں ان سب کو توبہ کی توفیق سے نوازدے ورنہ تو شیخ سعدی رح بہت پہلے فرماگئے ہیں ۔
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست ۔
اب تو اعتبار بہت مشکل ہے کہ کس پر کیا جائے ۔
حجۃ الاسلام ابوحامد محمد بن محمد الغزالی (وفات:۵۰۵؁ ھ ) نہ صرف اس اُمت بلکہ ساری انسانیت کے عقلاء ، حکماء اور فلاسفہ میں اپنا امیتازی مقام رکھتے ہیں ۔آپ اپنی معرکۃ الارا تصنیف ’’احیاء علوم الدین ‘‘ میں انسانیت کے لئے فائدہ مند اور ضرر رساں اُمور کو قرآن و حدیث ، فقہاء و صوفیہ کے ارشادات نیز انسانی فطرت کے آئینہ میں متاثرکن اسلوب میں جامعیت کے ساتھ تحریر فرمایا ہے ۔ منجملہ عظیم مباحث کے ایک بنیادی اور کلیدی بحث تہذیب اخلاق اور ریاضت نفس پر درج کی ہے جس کامفہوم اور خلاصہ درج ذیل ہے :
اخلاقِ حسنہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی صفت عالیہ اور صدیقین کے افضل تر اعمال سے ہے اور یہی نصف دین ہے اور متقی و پرہیزگاروں کے مجاہدات کا ثمرہ ہے نیز برے اخلاق سمّ قاتل ، ہلاکت خیز اور رسوا کن خبائث میں سے ہے جو رب العلمین کے قرب و جوار سے دور کرنے والے ، شیاطین کے صف میں پہچانے والے اور دوزخ کا دروازہ کھولنے والے ہیں جوکہ قلب اور نفس کی بیماریاں ہیں جن کا علاج ناگزیر ہے ۔ جسمانی بیماریوں کے علاج میں کوتاہی ہو تو بیمار دنیوی زندگی سے محروم ہوتا ہے اور قلبی بیماریوں کے علاج میں کوتاہی ہو تو وہ حیات ابدی سے محروم ہوتا ہے ۔ ایک شخص رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں روبرو پیش ہوا اور عرض کیا : دین کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’حسن الخلق ‘‘ ( اچھے اخلاق ) پھر وہ سیدھے جانب سے پیش ہوا اور عرض کیا : دین کیا ہے : آپ ﷺ نے فرمایا : اچھے اخلاق ۔ بعد ازاں وہ بائیں جانب سے حاضر ہوا اور وہی سوال کیا : دین کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اچھے اخلاق ۔ پھر وہ پیچھے سے عرض گزار ہوا ۔ دین کیا ہے ؟ آپ ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : کیا تم نہیں سمجھتے کہ دین یہ ہے کہ تم غصہ نہ ہو ۔ اسی طرح آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ ’’منحوسی‘‘ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ‘’’بدخلقی‘‘ ۔
ایک صحابی رسول نے نصیحت کرنے کی گزارش کی تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’جہاں کہیں رہو اﷲ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو ‘‘ ۔ انھوں نے مزید خواہش کی تو فرمایا ، گناہ سرزد ہوجائے تو فوراً نیکی کرلیا کرو ، نیکی اس برائی کو ختم کردیگی ، انھوں نے مزید نصیحت کی خواہش کی ، آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں سے اچھے اخلاق سے برتاؤ کرو ۔ آپ ﷺ نے حسن اخلاق کو افضل ترین عمل قرار دیا اور فرمایا جس بندے کو اﷲ حسن اخلاق سے آراستہ کرتا ہے اس کو دوزخ کی آگ کا نوالہ نہیں بناتا اور یہ بھی فرمایا : تم میں سب سے زیادہ مجھے محبوب اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو تم میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق کاحامل ہوگا اور یہ بھی وضاحت فرمادی کہ انسان برے اخلاق کی وجہ سے جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوگا ۔
حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں : چار خصلتیں قلت علم و عمل کے باوجود بندے کو بلند مراتب تک پہنچادیتے ہیں (۱)بردباری (۲) تواضع (۳) سخاوت (۴) اچھے اخلاق ۔
حسن اخلاق کی تشریح و تعبیر میں اکابر اُمت کے مختلف اقوال ذکر فرمائے ۔ حضرت واسطی کا قول ہے حسن اخلاق یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بھرپور معرفت کی بناء نہ وہ کسی سے جھگڑا کرے اور نہ کوئی اُس سے مخاصمت رکھے اور ایک مرتبہ آپ نے حسن خلق کو اس طرح بھی بیان فرمایا کہ اچھے اخلاق خوشحالی اور تنگدستی میں مخلوق کو راضی رکھنا ہے۔
حضرت سہل تستری سے حسن اخلاق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس کاادنیٰ درجہ یہ ہے تکلیف کو برداشت کرے ، مکافات و ردعمل کو ترک کرے ، ظلم کرنے والے پر مہربان ہو اس کے لئے مغفرت طلب کرے اور شفقت کا برتاؤ کرے ۔ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا : حسن اخلاق تین خصلتوں میں پایا جاتا ہے (۱) حرام کردہ اشیاء سے بچنا (۲)رزق حلال طلب کرنا (۳) اہل و عیال پر کشادگی کرنا ۔
حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ درحقیقت نفس میں پنہاں وہ ھیئت راسخہ ہے جس سے افعال و اعمال غوروفکر کے بغیر بسہولت صادر ہوتے ہیں اگر وہ شرع اور عقلی اعتبار سے قابل تعریف ہوں تو حسن اخلاق سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ شریعت اور عقلی اعتبار سے برے ہوں تو برے اخلاق کہتے ہیں۔
جس طرح اعضاء بدنی کے معتدل اور متوازن ہونے پر خوبصورتی کااطلاق ہوتا ہے صرف آنکھ خوبصورت ہو ، ناک ، منھ اور رخسار میں حسن نہ ہو تو حسین ہونے کا اطلاق نہیں ہوتا اسی طرح جب تک کسی انسان میں چار بنیادی صفات حد اعتدال میں نہ ہوں اس پر حسن اخلاق کااطلاق نہیں ہوتا اور وہ یہ ہیں : (۱) قوت علم (۲) قوت غضب (۳) قوت شہوت (۴) قوت عدل ۔ جب یہ چاروں قوتیں حد اعتدال میں ہوتی ہیں ، ان میں کمی و بیشی نہیں ہوتیں تو وہ (۱) حکمت (۲) شجاعت (۳)عفت(۴) عدل سے موسوم ہوتی ہیں اور ساری خرابیاں ان چار متذکرہ قوتوں کے حداعتدال میں نہ ہونے کی بناء پر ہوتی ہیں۔ اگر قوت علم میں میانہ روی ہو تو وہ حکمت اور دانائی کہلاتی ہے جوکہ پسندیدہ اور مطلوب صفت ہے جس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا جس کو حکمت عطا ہوئی اس کو خیرکثیرعطا ہوئی ہے اور جب اس قوت میں زیادتی ہوتی ہے تو وہ مکر ، فریب ، دھوکہ کہلاتی ہیں جوکہ مذموم صفات ہیں اور اگر اس قوت میں کمی ہو تو وہ بیوقوفی ، حماقت ، جنون اور نہ تجربہ کاری کہلاتی ہیں ۔ اسی طرح جب قوت غضبیہ حد اعتدال میں ہو تو اس کو ’’شجاعت‘‘کہتے ہیں اسی میں کرم ، بزرگی ، شہامت ، کسر نفسی، قوت برداشت ، حلم و بردباری ، غصہ کو پینا ، وقار جیسے اخلاق شامل ہیں اور اس میں زیادتی ہو تو اس کو طیش میں آنا ، تکبر، غرور کہتے ہیں اور کمی ہو تو ذلت ، رسوائی ، خوف ، ہیبت اور خفت جیسے صفات صادر ہوتے ہیں اور جب قوت شہوانیہ حد اعتدال میں ہو تو وہ ’’عفت‘‘ اور پاکدامنی کہلاتی ہے جو جو عقلاً اور شرعاً صفت محمودہ ہے ، اسی سے سخاوت ، حیاء ، صبر ، درگزر کرنا ، قناعت ، ورع ،لطافت ، مدد کرنا ، اعلیٰ ظرفی جیسے صفات ظاہر ہوتے ہیں اور اگر اس قوتِ شہوانیہ میں توازن نہ رہے بلکہ کمی و زیادتی ہو تو اسی سے حرص و ہوس، اسراف ، ریاء کاری ، حسد ، چاپلوسی ، مالداروں کی آؤ بھگت کرنا ، غریبوں کو حقیر سمجھنا جیسے خفیفہ صفات صادر ہوتے ہیں ۔ قوت علمیہ ، قوت غضبیہ اور قوت شھوانیہ کو حد اعتدال میں رکھنے ہی کو قوت عدل کہتے ہیں۔ جب یہ عناصر و صفات حد اعتدال میں ہوں تو حسن اخلاق کہلاتے ہیں اور ان میں کمی زیادتی ہو تو وہ برے اخلاق کہلاتے ہیں ۔ کوئی حسن اخلاق کاحامل پیدائشی اور فطری طورپر ہوتا ہے اور حسن اخلاق کو محنت ، ریاضت اور تربیت کے ذریعہ بھی حد اعتدال میں لایا جاتا ہے ۔ اسی لئے حضور پاک ﷺ نے فرمایا : تم اپنے اخلاق کو حسین بناؤ ۔
افسوس کہ آج قوت غضبیہ اور قوت شہوانیہ کو قابو کرنے کیلئے جدوجہد اور ریاضت کرنے کے بجائے ہم اسی کو غیرشعوری طورپر پروان چڑھارہے ہیں جس کے نتیجہ میں ہر شخص میں برے صفات و اخلاق کا ظہور ہورہاہے ۔ قوت غضبیہ اور قوت شہوانیہ کو مغلوب کئے بغیر کوئی شخص بااخلاق ، متقی ، پرہیزگار اور دین و دنیا میں معزز و مکرم نہیں ہوسکتا ۔ ٹی وی ، انٹرنیٹ ، فلمیں ، سیریل ، ڈرامے ، سوشل میڈیا نے انسانی اخلاق و کردار کو تباہ و تاراج کردیا ہے۔جس کی بناء ملت کا ہر فرد بچہ بوڑھا ، مرد ، عورت سب بداخلاقی کے شکار ہوتے جارہے ہیں ۔ قوت غضبیہ اور قوت شہوانیہ کو حداعتدال میں لانا اور قوت علمیہ یعنی روحانیہ کو فروغ دینے کا نام ہی تصوف میں مجاہدہ نفس کہلاتا ہے یعنی صوفی بااخلاق ہوتا ہے اور بااخلاق بناتا ہے۔
اللہ پاک اپنے فضل سے ہم سب کو اوصاف حمیدہ سے متصف فرماکر تزکیہ کی نعمت سے نوازے آمین۔
آئیے ہم تمام احباب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ جامع دعا اپنے اپنے لئے اللہ کے حضور پیش کریں ۔
الھم آت نفسی تقواھا وزکھا انت خیر من زکاھا انت ولیھا ومولاھا ۔

Comments are closed.