Baseerat Online News Portal

میانمار: اشتراکی آمریت اور بودھی جمہوریت

 

ڈاکٹر سلیم خان

آنگ سان سوچی  کو  ملک کے اندر مقبولیت اپنے والد سے وراثت میں ملی تھی  ۔  ان کو عالمی حمایت اس لیے ملتی رہی تھی  کہ وہ  چین نواز فوجی حکومت کے خلاف جمہوریت کی شمع روشن کیے ہوئے تھیں ۔ چین کے بغض اور جمہوریت کی محبت نے انہیں عالمی سطح پرمشہورکردیا تھا ۔  ملک میں برسرِ اقتدار فوجی حکمرانوں اس خطرے کو بھانپ کر آئین میں ایک ترمیم کرکے  آنگ سان سوچی کے لیےسربراہِ مملکت  بننے کے راستے بند کردیئے۔ اس دستوری ترمیم کے مطابق کوئی ایسا فرد صدر بننے کا اہل نہیں ہوسکتا  ہے کہ جس کا شوہر یا بچے غیر ملکی شہری ہوں ۔  سوچی نے چونکہ دوران تعلیم برطانوی مورخ مائیکل ایرس سے آکسفورڈ میں شادی کرلی تھی ۔ ان کے  دونوں  بچے والد کے انتقال کے بعد بھی  برطانیہ کے  شہری ہیں اس لیے  آئینی مجبوریوں کے سبب وہ صدر کے عہدے پر فائز نہیں ہوسکیں۔  اقتدار پر اپنی پکڑ مضبوط رکھنے کے لیے انہوں نے ’اسٹیٹ کونسلر‘ کا ایک نیا عہدہ  ایجاد کیا ۔ یہ وزیر اعظم کے عہدے  مشابہ  شئے تھی۔ اس کے   ساتھ وزارت خارجہ کو بھی انہوں نے اپنے پاس رکھااور پچھلے ۶ سالوں تک سارے سیاہ و سفید کی مالک بنی رہیں  ۔ یہی وہ دور تھا جب  سوچی کی جمہوریت بے نقاب ہوگئی  اور علامہ اقبال کےیہ   شعر (مع ترمیم)  میانمار پر صادق آگیا ؎

جلال آمریت  ہو کہ جمہوری تماشا ہو                                             جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

آنگ سان سوچی کا اصل امتحان تو ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد شروع ہوا ۔ بدقسمتی سے یہ نیلم پری اپنی پہلی ہی آزمائش میں  پر جلا بیٹھی۔ سن 2017 میں میانمار کی  فوج نے  اپنی مقبولیت بڑھانے کی خاطر  ملک میں بسنے والے ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو  ہلاک کردیا ۔ اس کریک ڈاون میں  87000  سے زائد مسلمان  ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کی ہجرت کے لیے مجبور کردئیے گئے ۔ یہ اس قدر عظیم انسانی سانحہ تھا کہ اقوام متحدہ میں  انسانی حقوق کی نمائندہ خصوصی برائے میانمار یانگ ہی لی نے بھی  روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی مذمت کی اور آنگ سان سوچی کو روہنگیا مسلمانوں کی مدد نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ۔انھوں نے کہا تھا کہ رخائن میں ‘حالات نہایت خراب’ ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ آنگ سان سوچی اس معاملے کے حل کی خاطر ‘قدم اٹھائیں’۔ انھوں نے مزید کہا کہ ‘میانمار کی حقیقی سربراہ کو اس موقع پر ضروری اقدامات اٹھانے چاہییں  تاکہ تمام شہریوں  کا تحفظ ہو اور یہ توقع ہر حکومت سے کی جاتی ہے’۔ ساری دنیا کی نگاہیں سوچی کی جانب تھیں مگر ان کی زبان پر تالے پڑے ہوئے تھے۔  یہ طلسم کے ٹوٹنے کا آغاز تھا۔

ایک پر اسرار خاموشی کے بعد جب میانمار کی  سوچی  حکومت نے ظالم فوج پر لگام لگانے کے بجائے کہہ دیا کہ وہ    ان روہنگیا شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے جو شہریوں پر حملے کرنے میں ملوث ہیں۔اس طرح  نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کا میانمار کی اقلیت روہنگیا  مسلمانوں کے قتلِ عام کا دفاع کرنا جمہوریت کے طلسم میں گرفتار لوگوں  کےلیے  حیران کُن ستم ظریفی بن گیا  ۔ اس کے باوجودسوچی  کے بین الاقوامی مداحوں  نے استدلال کیا کہ وہ ایک عملی سیاستدان  ہیں ۔ انہیں  ایک پیچیدہ تاریخ والے کثیر النسل ملک پر حکومت کرنی ہے لیکن آگے چل کر انہیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑا کہ  سوچی  نے روہنگیا مسلمانوں کی عصمت دری، قتل اور نسل کشی کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اس  ابتدائی شکست کے بعد  سن 2019 میں  اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف  میں جاکر سوچی نے  سماعت کے دوران فوج کے اقدامات کا دفاع  کرکے اپنے ساتھ  جمہوری نظام سیاست کی بھی  مٹی پلید کردی ۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اس کا ایک جواب تو علامہ اقبال نے  ابلیس کی زبانی یہ دیا ہے؎

جمہور کے ابلیس ہیں ارباب ِسیاست                                               باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک

میانمار میں بدھ مت  کے پیروکار 88 فیصد اور مسلمانوں کی تعداد صرف   4.3 فیصد  ہے۔ مسلمانوں سے نفرت کرنے والی  بودھ اکثریت  میں سوچی بہت زیادہ مقبول ہیں۔  انہیں ایک سال بعد انتخاب لڑ کر دوبارہ انتخاب میں کامیابی حاصل کرنا تھی  اس لیے انہوں نے عدل و انصاف کا خون کرکے اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ جمہوریت میں یہ طرز عمل  نہ صرف مباح بلکہ  پسندیدہ ہے۔ دنیا کی عظیم ترین جمہوریت امریکہ سے لے کر  وسیع ترین جمہوریت ہندوستان میں کھلے عام یہ کھیل کھیلا جاتا ہے۔ حسبِ ضرورت   حکمراں نہ صرف  ظالموں  سے آنکھیں موند لیتے ہیں بلکہ بسا اوقات  ان کے حامی و سرپرست بن جاتے     ہیں۔  سوچی نے بھی اس تقاضے کو پورا کیا ۔ ان کو اگر فوج کے مقابلے   2020 میں انتخاب نہ  لڑنا ہوتا تو بعید نہیں کہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتیں لیکن انتخابی مجبوری نے ان کا گلا گھونٹ  کر خود کو بے نقاب  کردیا۔   میانمار میں جمہوریت کے طفیل  اشتراکی آمریت اور اس کی مخالف   بودھی جمہوریت مظلوم کے خلاف  ایک دوسرے کی ہمنوا بن گئی ۔

بودھ ظالموں کی خوشنودی حاصل کرکے اقتدار میں آنے والی سوچی بھی زیادہ دن حکومت نہیں کرسکیں ۔ نو منتخب ایوان زیریں کے اولین  اجلاس کاپہلا  سورج طلوع ہوتے ہی   میانمار کی فوج نے ان  کی گرفتاری کرکے ملک کا کنٹرول  اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔ آنگ سان سوچی اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کے چند گھنٹے بعد میانمار کی فوج نے ٹی وی پر اس بات کی تصدیق کردی کہ وہ ایک سال کے لیے ہنگامی حالت کا اعلان کر رہی ہےاورسارےا ختیارات کمانڈر ان چیف من آنگ ہلاینگ کو سونپ دئیے گئے ہیں ۔ فوج کے ذریعہ سوچی کو  اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد حراست میں لیے جانے کی خبر  جب  بنگلہ دیش میں روہنگیائی پناہ گزینوں کے خیموں میں پہنچی تو خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اے ایف پی کے مطابق بالو کھالی کیمپ  کے محمد یوسف کا کہنا تھا”گوکہ وہ  ہماری آخری امید تھیں لیکن انہوں نے ہمارے ساتھ ہونے والے استحصال پر آنکھیں موند لیں اور روہنگیاوں کی نسل کشی کی حمایت کی۔”

دنیا کی سب سے بڑی پناہ گزین بستی کٹوپالونگ میں روہنگیائی مسلمانوں کے رہنما فرید اللہ نے اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے  کہا کہ ” آخر ہم خوشی کیوں نہ منائیں، وہ ہماری مصیبتوں کی جڑ رہی ہیں۔”نیا پاڑہ کیمپ کے پناہ گزین مرزا غالب بولے”اگر کیمپ کے حکام ہمیں اجازت دیتے تو ہزاروں روہنگیائی جشن منانے کے لیے باہر نکل پڑتے۔“ سوچی کے ساتھ اس قدرتی  ‘انصاف‘ پر شکرانہ ادا کرنے کے لیے بعض روہنگیائی مسلمانوں  نے دعائیہ تقریب کا بھی اہتمام کیا۔اس موقع پرروہنگیا اسٹوڈنٹ یونین کے ترجمان ماونگ کیاومن نے کہا کہ اب ہمارے  میانمار میں لوٹنے کی امیدیں بڑھ گئی ہیں کیونکہ ایک منتخب حکومت کے مقابلے اس فوجی حکومت کو عالمی حمایت کی زیادہ  ضرورت ہوگی اس لیے ممکن ہے  وہ بین الاقوامی دباو کو کم کرنے کے لیے روہنگیا مسئلے پر توجہ دے؟اس کے برعکس  اقوام متحدہ کو خدشہ ہے کہ فوجی بغاوت کے سبب میانمار کے اندر موجود تقریباً ۶لاکھ روہنگیائی مسلمانوں کی حالت ابتر ہوسکتی ہے۔اقو ام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن جارک نے میانمار کے رخائن ریاست میں موجودان  ایک لاکھ بیس ہزار لوگوں پر تشویش جتائی جنہیں کیمپوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ وہ آزادانہ کہیں نہیں جاسکتے جبکہ صحت اور تعلیمی خدمات تک ان کی رسائی بھی  انتہائی محدود کردی گئی ہے۔ یہ ساری پابندیاں فوجی حکومت کے دوران نہیں بلکہ سوچی کی  جمہوری  سرکار نے لگائی تھیں اسی لیے علامہ اقبال کہتے ہیں؎

تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہور ی نظام                                     چہرہ روشن،اندروں چنگیز سے تاریک تر

اقتدار چھن جانے کے بعد    آنگ سان سوچی نے فوج  کے خلاف ایک  بیان جاری کرکے کہا کہ ‘میری گزارش ہے کہ لوگ اسے قبول نہ کریں، اس کا جواب دیں اور فوجی مداخلت کے خلاف احتجاج کریں۔’ اس  اعلان پر لبیک کہتے ہوئے میانمار کی عوام سڑکوں پر نکل پڑے اور  زبردست احتجاج کیا۔سن 2007ء  میں  اسی طرح   بدھ مذہبی رہنماؤں کی قیادت میں برپا ہونے والا  احتجاج  ملک میں جمہوری اصلاحات کی بنیاد بنا تھا۔ اس بار پھر ینگون میں 60 ہزار سے زائد افراد سرخ قمیضیں پہن کر اور سرخ پرچم و غباروں کے ساتھ یہ کہتے ہوئے میدان میں آگئے کہ : ”ہم فوجی آمریت نہیں چاہتے! ہمیں جمہوریت چاہیے!‘‘اس غم و غصے کی ایک وجہ  انٹرنیٹ پر لگی پابندی بھی ہے۔ یہ جلوس  شہر کے مرکزی حصے میں واقع ‘سُولے پگوڈا‘ تک گیا جو نہ صرف 2007ء کے زعفرانی انقلاب بلکہ اس سے قبل 1998ء میں ہونے والے احتجاج کا بھی مرکز تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے  کہ یہ کشمکش اشتراکی آمریت کے مقابلے بودھی جمہوریت  کی ہے۔ مظاہرے میں شریک 21 سالہ طالبہ تھا زِن  کا عزم ہے کہ ، ”ہم اپنی آئندہ نسل کے لیے آمریت نہیں چاہتے۔ ہم یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رکھیں گے، جب تک ہم تاریخ نہیں بنا دیتے، ہم آخر تک لڑیں گے۔‘‘

امریکہ نےمیانمار میں بپا ہونے والی سیاسی اتھل پتھل  کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن حالیہ انتخابات کے نتائج کو بدلنے یا میانمار میں جمہوریت کے تحت طاقت کی منتقلی کے خلاف ہر کوشش کی مخالفت کرتا ہے۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے سرکاری  اور سول سوسائٹی رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ  ‘برما میں جمہوریت، آزادی، امن اور ترقی کی جدوجہد میں امریکہ ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ فوج کو فوراً یہ اقدامات واپس لینے ہوں گے۔’آسٹریلیا میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ‘ہم فوج سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قانون کی بالادستی کا احترام کریں، قانونی طریقہ کار سے تنازعات کا حل کریں اور غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے عوامی  رہنماؤں کو رہا کریں ۔

‘ اس ہنگامہ نے حکومتِ ہند کے لیے دھرم سنکٹ کھڑا کردیا اس لیے کہ وہ گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر نہ توفوج کی حمایت کرسکتے ہیں اور نہ مخالفت اس لیے ہندوستان کے وزیر خارجہ نے صرف یہ کہنے پر اکتفاء کیا کہ ہم حالات پر نظر رکھے ہوئے۔  ہندوستان نے میانمار میں  جو سرمایہ کاری  کررکھی  ہے اس کے  ڈوب جانے کا خوف وزیر ضارجہ کی پہلی مجبوری ہے ۔ نئی  فوجی حکومت ویسے ہی چین نواز ہے۔ سوچی کی حمایت سے  وہ ہندوستان کی دشمن ہوجائے گی اور شمال مشرقی علاقہ میں علٰحیدگی پسند تنظیموں کا تعاون کرنے لگے گی اس لیے مودی سرکار کے لیے جمہوریت کی قبر  پربہانے کے لیے دو آنسو بھی نہیں ہے۔ ینگون میں مدفون آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے جو بات اپنے بارے میں کہی تھی اب  وہ وہاں کی  جمہوریت پر بھی  صادق آرہی ہے؎

کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے                                               دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

Comments are closed.