Baseerat Online News Portal

نظریہ اور مشاہدہ درست نہیں توکتابی مطالعے اور جدوجہد کے کیا معنی ! عمر فراھی ‌‌‌‌۔۔۔۔

نظریہ اور مشاہدہ درست نہیں توکتابی مطالعے اور جدوجہد کے کیا معنی !

عمر فراھی ‌‌‌‌۔۔۔۔

ایک مسجد کے امام جو عالم بھی ہیں اور حافظ بھی ‌۔اب اسی پچاسی سال کے ہو گئے ہیں ۔میرا ان کارابطہ تقریبا اس وقت سے ہے جب سے میں نے خود اخبارات میں لکھنا شروع کیا۔مولانا حبیب الرحمن اعظمی کے شاگردوں میں سے ہیں۔ یہ ان کی تربیت کا اثر ہی ہے جو وہ ہمیشہ قوم و ملت اور عالم اسلام کی زبوں حالی پر گفتگو کیلئے بے چین رہتے ہیں ۔جب کبھی موقع ملتا ہے مجھ سے ملنے کا بہانہ ڈھونڈھ لیتے ہیں تاکہ کچھ حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال ہو جائے۔بات کر کے بہت خوش ہو جاتے ہیں ۔مجھے بھی خوشی ملتی ہے کہ میں نے کسی اللہ والے کے شاگرد سے ملاقات کی ۔خیالات سےتو دیوبندی ہیں لیکن کھلا ذہن رکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ غیر مسلموں سے بھی رابطہ کرکے انہیں اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائیں ۔وہ جانتے ہیں کہ میں تھوڑا الٹی اور روایت سے ہٹ کے بات کرتا ہوں جسے عام طور پر قبول کرنا بہت مشکل ہے۔ پھر بھی میں اپنی بات کو مسکراتے ہوئے بہت ہی شائستگی سے ثابت کر لے جاتا ہوں اس لئے انہیں اچھا لگتا ہے ۔ہندوستان کاہر وہ مسلمان جو کسی نہ کسی دعوتی تحریک سے جڑا ہے اور مخلص ہے وہ ہمیشہ غلبہ دین اور انقلاب کا متمنی ہوتا ہے ۔میں پچھلے پندرہ سالوں سے امام صاحب سے بحث کرتا رہا ہوں کہ آپ لوگ جس طرح خطابت اور کتابت سے دعوت و تبلیغ کر رہے ہیں یہ بھی دعوت کا ایک جز ضرور ہے لیکن صرف اسی طریقے سے غلبہ دین اور انقلاب کا خواب دیکھنا مونگیری لال کے سپنے کی طرح ہے ۔اگر انقلاب لانا چاہتے ہیں تو اپنی ان نسلوں کی تربیت کریں جو مسجد اور اسلام میں پہلے ہی داخل ہو چکی ہے تاکہ صالح افراد کی ایک جماعت تیار ہو سکے اور پھر غور بھی کریں کہ ہماری دعوت و تبلیغ اور محنت کی برکت سے صرف خیالی انقلاب ہی آرہا ہے یا اچھے لوگوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے ۔وہ میری بات کو مسکرا کر رد کر دیتے تھے اور کہتے عمر بھائی دعوت کا کام بہت تیزی سے ہو رہا ہے ۔ان شاء اللہ انقلاب بہت جلد آئے گا ۔اب چونکہ بہت ضعیف ہو چکے ہیں ۔کان سے بھی کم سنائی دیتا ہے ۔مسجدوں وغیرہ میں أکثر خطبہ دے دیتے تھے آواز میں تھر تھراہٹ کی وجہ سے صاف بول بھی نہیں پاتے اس لئے اکثر اپنے وطن چلے جاتے ہیں اور سال چھ مہینے کے بعد ممبئ کا ایک سفر کر لیتے ہیں ۔ ابھی کچھ دن پہلے بہت دنوں کے بعد ان سے ملاقات ہوئی کہنے لگے آپ ٹھیک کہتے تھے اب اس قوم کا کچھ نہیں ہوگا ۔نئی نسل وہ چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں بہت بدتمیز اور جارح پیدا ہو رہی ہے۔ یہ تمیز طریقہ اور ادب و احترام سے بہت دور کسی کی کچھ سننے کیلئے تیار نہیں ہے ۔شاید موبائل نے سب تباہ کر دیا ہے ‌۔نسل نو کی تربیت کی ضرورت ہے اور یہ تربیت بھی کسی سیکولر ماحول میں نہیں ۔اس کیلئے اسلامی آپ و ہوا اور ماحول کی ضرورت ہے ۔اور پھر عرب ممالک سے آنے والی خبروں پر بھی تشویش کا اظہار کرنے لگے ۔خاص طور سے عربوں کے سرکاری علماء نے اخوان کو جس طرح دہشت گرد قرار دیا ہے اور جس طرح ان ممالک میں بے پردگی اور فحاشی کا فروغ ہورہا ہے طبیعت بہت مایوس ہے ۔دراصل ایک بار کچھ دس سال پہلے میں نے تحریک آزادی کے دوران کی کچھ عبقری شخصیات کے فیصلوں کو ناقص کہہ دیا تھا تو تھوڑا ناراض ہوگئے تھے ۔میں نے کہا یہ علماء تو صرف بر صغیر میں اسلام کو تباہ کرنے کیلئے جمہوریت اور سیکولرزم کے فریبی کردار سے استعمال کئے گئے جبکہ سچائی یہ ہے کہ جو خفیہ دجالی تحریک مغرب کو بھی استعمال کر رہی ہے اس نے صرف بر صغیر کو ہی نہیں اس نے عالم گیریت کے نام سے پورے کرہ ارض پر اسلام اور اللہ کے دین کے خلاف ایک جال بچھا رکھا ہے اور اسے کہتے ہیں نیو ورلڈ آرڈر جو گلوبلائزیشن کے نام سے عرب دنیا کو بھی اپنے دائرے میں سمیٹ لے گا۔
اقبال نے اسی سال پہلے انہیں حالات کو دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے خوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
بہت ہی مایوس ہو کر کہنے لگے آپ کی ساری باتیں درست تھیں اب تو میری عمر ختم ہو چکی آپ لوگوں کے پاس کچھ وقت ہے اپنا کام جاری رکھیں ۔میں نے کہا بے شک مایوس تو ہم بھی نہیں ہیں اور ہم بھی اسی طرح اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالے جانے کے بعد پرندہ اپنی چونچ میں پانی لا کر آگ بجھانے کی کوشش کر رہا تھا اور جیسے حضرت اصحاب کہف نے اپنے کتے کی مدد سے اپنی جدوجہد جاری رکھی لیکن جو لوگ سیکولر لا دینی نظام کو آزادی کی نیلم پری تصور کرتے ہوئے غلبہ دین اور اسی راستے سے اسلامی انقلاب کا خواب دیکھ رہے ہیں یہ تعبیر کی ایک بھیانک غلطی اور دھوکہ ہے ۔پھر بھی جو مخلص ہیں انہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اللہ نے فرعون کے جبر سے بنی اسرائیل کو ایک ایسے راستے سے باہر نکالا تھا جس کا تصور بھی محال تھا ۔اللہ آج بھی وہی ہے ۔دین بھی اسی کا ہے ہم بھی اسی کے ہیں ۔وہ اپنے صالح اور مخلص بندوں کی ایسے راستے سے مدد کرنے پر قادر ہے جہاں تک ذہن و گمان کی رسائی بھی ممکن نہیں ہے ۔بس ایک صبر اور ضبط کے ساتھ اپنی صحیح کوشش درست عقیدے اور راستے کے انتخاب سے جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔باقی کتابیں آپ کتنا بھی پڑھ لیں ۔لائیبریریاں ختم کر لیں تھیسیس لکھ لیں نظریہ درست نہیں تو سب بیکار ہے چاہے سند کے اعتبار سے آپ کتنے ہی بڑے عالم اور خطیب ہی میں کیوں نہ شمار ہوتے ہوں !

Comments are closed.