Baseerat Online News Portal

نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ والے فیض احمد فیض کی فن و شخصیت

فیض احمد فیض کے 109 ویں یومِ پیدائش کے ضمن میں ایک خصوصی تحریر
محمد عباس دھالیوال
مالیر کوٹلہ، پنجاب
رابطہ 9855259650

اردوادب میں جب ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعراء کا تذکرہ ہوتا ہے تو فیض احمد فیضؔ کا نام سرِ فہرست آتا ہے. ہندوستان کے موجودہ حالات میں جس طرح سے کالج یونیورسٹی کے طلباء و طالبات نے فیض کی مشہور نظم "ہم دیکھیں گے” کو اپنا تقیہ کلام بنایا ہے. اس کی مثال دینا مشکل ہے. آئیں سب سے پہلے ہم اس نظم کو اپنے مطالعہ میں لاتے ہیں جس کے چلتے فیض آجکل ہر خاص و عام میں بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں ملاحظہ فرمائیں نظم:
’’ہم دیکھیں گے‘‘
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
جب سے مذکورہ نظم کو چند تنگ نظر لوگوں نے غلط طریقے سے تشریح دینے کی کوشش کی ہے. تبھی سے لوگوں میں فیض کے بارے میں جاننے کی خواہش پروان چڑھ رہی ہے. قارئین کی اسی تشنگی کو مد نظر رکھتے ہوئے درج ذیل مضمون میں ناچیز کی طرف سے فیض کی فن و شخصیت کے تعلق سے کچھ معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
فیض کی پیدائیش ہندوستان کی تقسیم سے قبل سیالکوٹ موجودہ پاکستان میں 13 فروری 1911ء کو ایک معزز گھرانہ میںہوئی ،آپ کے والدچودھری سلطان محمد خان اپنے وقت کے ایک نامی بیرسٹر تھے۔فیض نے ابتدائی مذہبی تعلیم مولوی محمدابراہیم میر سیالکوٹی سے حاصل کی۔اسکے بعد 1921ء میں آپ نے اسکاچ مشن اسکول سیالکوٹ میں ایڈمیشن لیا اور 1927ء میں میٹرک کا امتحان پہلے درجہ کے ساتھ پاس کیا ،ساتھ ہی آپ نے عربی اور فارسی کی تعلیم بھی حاصل کی اور ایف ۔اے کا امتحان بھی وہیں سے پاس کیا ۔یہاں قابل ذکر ہے کہ شمس الحق جنھوں نے کبھی علامہ اقبال کو پڑھایا تھا ،اسی قابل استاد کی ذات سے فیض احمد فیض بھی مستفیض ہوئے .۔بی ۔اے اور ایم ۔اے انگلش کا امتحان اس وقت کے نامی ادارہ گورمنٹ کالج لاہور سے پاس کیا ۔اسکے بعد فیض نے اورینٹل کالج لاہور سے 1932ء میںفارسی میں ایم ۔اے کی۔اسی بیچ آپ کی ملاقا ت ڈاکٹردین محمد تاثیر کی لندن نزاد بہن ایلسا سے ہوئی ،ایلساجو کہ کیمونسٹ پارٹی ایک فعال رکن تھیں ۔اسکے بعد آگے چل کر ایلسا سے ہی 1941میںآپ کی شادی ہوئی اور دو بیٹیاں سلیمہ اورمنیزہ پیدا ہوئیں۔فیض کی 1942ء میں بطور کیپٹن فوج میں تقرری ہوئی اور اس فیلڈ میں بھی آپ نے اپنی قابل قدر خدمات دیتے ہوئے لیفیٹینٹ کے عہدے تک ترقی پائی ۔چنانچہ 1947ء میں آپ فوج سے مستعفی ہو کر واپس لاہو ر تشر یف لے آئے ۔فیض نے ایک مدت تک جلاوطنی کی زندگی بھی گزاری، 9 مارچ 1951 ء کو آپ کو راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کے الزام میں حکومتِ پاکستان نے گرفتار کر لیا۔اِس دوران فیض نے اپنی زندگی کے چار سال سرگودھا ،ساہیوال،حیدرآباد اور کراچی کی جیل میں کاٹے۔’’ زنداں نامہ‘‘ کی بیشتر نظمیں فیض کی جیل کے دنوں کی ہی سر گزشت بیان کرتی ہیں اسکے بعد آخر کار انھیں 12اپریل 1955 ء کو جیل سے رہا کر دیا گیا ۔1959ء سے 1962تک فیض نے پاکستان آرٹس کونسل میں بطور سیکریٹری اپنی خدمات دیں ۔پھر لندن چلے گئے اور واپسی پر 1964میںعبداللہ ہارون کالج کراچی میںبطور پرنسپل اپنی خدمات بحسنِ خوبی انجام دیں۔ادبی حلقوں میں فیض کے تعلق سے یہ بات مشہور ہے کہ وہ آزادی کے شاعر تھے۔انھیں مزاحمت کا شاعر گردانا جاتا ہے۔فیض نے جہاں ویت نام میں امریکہ کے خلاف مزاحمت کی حمایت کی وہیں انھوں نے فلسطین کی تحریک ِ مزاحمت کی بھی بھرپور حمایت کی اور اسکے لیے گیت بھی لکھے،اسکی شاید بڑی وجہ یہ تھی کہ فلسطین کی تحریکِ آزادی کے قائد یاسر عرافات بھی ایک سوشلسٹ تھے اور انکی شہرت ایک روس نواز رہنما کی تھی۔بے شک فیض نے مظلوم کے حق میں اور ظالم کے خلاف اپنے قلم کا خوب استعمال کیا ۔لیکن اکثر ناقدین کی طرف سے فیض کے اس پہلو کولیکر نشانہ بھی بنایا جاتا رہاہے کہ جب سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کی تو فیض کی زبان و قلم خاموش رہے یعنی افغانستان کی جدو جہد آزادی کے لیے انھوں نے نہ کوئی نظم لکھی ،نہ مضمون تحریر کیا،نہ ہی کوئی بیان جاری کیا۔اس سے پہلے کہ ہم فیض کی شاعری کو مطالعہ میں لائیں۔ خود فیض شاعرو شاعری کی تعریف کرتے ہوئے کیا کہتے ہیں اس خیال کو دیکھتے ہیں کہ’’ شاعر کا کام محض مشاہدہ ہی نہیں،مجاہدہ بھی اس پر فرض ہے،گردو پیش کے مضطرب قطروں میںزندگی کے دجلہ کا مشاہدہ،اسکی بینائی پر ہے،اسے دوسروں کو دکھانا اس کی فنی دسترس پر،اس کے بہائو میں دخل انداز ہونا اس کے شوق کی صلاحیت اور لہوکی حرارت پر۔اور یہ تینوں کام مسلسل کاوش و جدو جہد چاہتے ہیں‘‘آئیے اب ہم فیض کے کلام کو دیکھتے ہیںجس کلام کی بدولت وہ اپنے ہم عصر شعراء کے بیچ موجود ہوتے ہوئے بھی اپنے فن میں ان سے بالکل منفرد و جدا نظر آتے ہیں۔خزاں وبہار کو کس خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
اب وہی حرف جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آتے آتے یوں ہی دم بھر کو رکی ہوگی
بہارجاتے جاتے یوں ہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے

ایک اور جگہ فیض کا دلکش ومنفرد رنگ دیکھیں کہ
کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم
گلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے
اگر شرر ہے تو بھڑکے،جو پھول ہے تو کھلے
طرح طرح کی طلب ، تیرے رنگ ِ لب سے ہے
کہاں گئے شب فرقت کے جاگنے والے
ستارہء سحری ہم کلام کب سے ہے

ایک جگہ کچھ اس انداز میں اپنے محبوب سے ہم کلام ہیں کہ
شرح ِ فراق،مدحِ لبِ مشکبو کریں
غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں
یار آشنا نہیں کوئی ٹکرائیں کس سے جام
کس دلربا کے نام پہ خالی سبو کریں
سینے پہ ہاتھ ہے ، نہ نظر کو تلاشِ جام
دل ساتھ دے تو آج غمِ آرزو کریں
کب تک سنے گی رات،کہاں تک سنائیں ہم
شکوے گلے سب آج ترے روبرو کریں
’’تر دامنی پہ شیخ ،ہماری نہ جائیو‘‘
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

ایک جگہ فیض کہتے ہیں کہ
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہء زنجیر میں زباں میں نے

مفلسی کی تشریح کرتے ہوئے فیض کہتے ہیں کہ
مفلسی میں وہ دن بھی آئے ہیں
ہم نے اپنا ملال بیچ دیا

ایک جگہ فیض کی زبانی محبوب کو یا د کرنے کا بہانہ دیکھیں کہتے ہیں کہ
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں

ایک اور جگہ یاد کے تعلق سے کہتے ہیں کہ
کر رہا تھا غم ِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے

ایک جگہ کچھ اس طرح سے رقم طراز ہیں کہ
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی بات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنے ہارے بھی تو بازی مات نہیں
بہار اور خزاں کے پل بھر کے ٹھہرنے کا کیا خوب سماں باندھا ہے آپ بھی دیکھیں کہ
اب وہی حرف جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آتے آتے یوں ہی دم بھر کو رکی ہوگی بہار
جاتے جاتے یوں ہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے

غمِ روزگا کا ایک جگہ حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب ِ غم گزار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی فریب ہیں غم روزگار کے

ہجر و فراق کے موضوع ایک جگہ کس خوبصورت انداز میں قلم بند کیا ہے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں
شام فراق اب نہ پوچھ آئی اور آکے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیاجاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
بزم خیال میں ترے حسن کی شمع جل گئی
درد کا چاند بجھ گیا ہجر کی رات ڈھل گئی

اردوادب کو اپنی منفر د قسم کی انقلابی شاعری کی سے روشناس کرنے والایہ شعر و ادب کی دنیا کامنور ستارہ یعنی فیض احمد فیض آخر کار 20نومبر1984کو لاہور میں اس دنیائے فانی سے ہمیشہ ہمیش کے لیے رخصت ہو گیا ۔بے شک فیض آج ہمارے بیچ میں نہیں ہیں لیکن فیض کی شاعری کی شعائیں و کرنیں آج بھی اپنے قارئین کے ذہن و فکر کو روشن کرتے ہوئے ایک ہدایت و سیدھ دے رہی ہیں۔

Comments are closed.