Baseerat Online News Portal

نماز  تراویح کی  فضیلت اوراس کے احکام

 

از :محمد فیاض عالم قاسمی

قاضی شریعت دارالقضاء آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ ممبئی

تراویح اس نماز  کو کہتے ہیں جو رمضان المبارک کی راتوں میں عشاء کے بعد پڑھی جائے۔تراویح، ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ کے معنی: ایک دفعہ آرام کرنا ہے، جیسے تسلیمہ کے معنی ایک دفعہ سلام پھیرنا۔ چوں کہ اس پوری نماز میں  ہر چار رکعت کے بعد تھوڑی دیر آرام بھی کرنا پڑتاہے اوریہ آرام کرنا پانچ مرتبہ ہوتاہے، اس لئے اس کو تراویح کی نماز کہتے ہیں۔

 احادیث میں اسی نماز کو قیام اللیل سےتعبیر کیاگیاہے، محدثین عظام نے کہیں تراویح، کہیں قیام اللیل، اورکہیں نفل کہاہے۔تاہم تراویح عام نوافل کے مقابلہ میں ایک  خاص نماز کانام ہے، جو صرف رمضان کی راتوں میں دس سلام، پانچ ترویحہ  کے ساتھ بیس رکعتیں پڑھی جاتی  ہیں۔

قیام اللیل کاحکم  اللہ تعالیٰ  نے قرآن کریم میں نبی ﷺ کو دیاہے: يَاأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ (1) قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا (2) نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا (3) أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا (4)(سورۃ مزمل)

اے چادر اوڑھنے والے! کچھ حصہ  کو چھوڑکررات میں نماز پڑھاکیجئے، یعنی  آدھی رات یااس سے کچھ کم،  یاآدھی  رات سے کچھ زیادہ ، اورٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھئے۔

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی علامتوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا (سورۃ فرقان:64)

اہل  ایمان وہ ہیں جو اپنے رب کے سامنے سجدہ اور قیام کی حالت میں رات گزارتے ہیں۔

حضرت ابوسلمیٰ بن عبدالرحمٰن  سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم ﷺ کی  رات کی نمازوں کے بارے میں پوچھاتو آپ نے جواب میں فرمایا کہ آپ ﷺ رمضان اورغیررمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں  پڑھتے تھے،پہلے چاررکعت پڑھتے تھے، پھر چار رکعت پڑھتے تھے پھر تین رکعت وتر پڑھتے تھے، لیکن ان کے حسن وطویل قرات کے بارے میں مت پوچھویعنی  یہ  نمازیں نہایت ہی خشوع وخضوع ،طویل قرات والی ہوتی تھیں۔(صحیح بخاری:١١۴۷)

 حضرت ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا :جو شخص رمضان (کی راتوں) میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا ہو ، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (صحیح  بخاری:٢۰۰۸)

 ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شہرت اور دکھاوے کے لیے نہیں؛ بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عبادت کی جائے۔

ایک حدیث میں  نبی کریم ﷺ نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: «يا أيها الناس، أفشوا السلام، وأطعموا الطعام، وصلوا والناس نيام تدخلون الجنة بسلام»(سنن ترمذی:٢٤۸٥)

اے لوگو سلام کو پھیلاؤ، کھاناکھلاؤ، اورجب لوگ سورہے ہوتے ہیں اس وقت نماز پڑھو، سلامتی کے ساتھ جنت میں  داخل ہوجاؤگے۔

نمازِ تراویح نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں:

 حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی۔ لوگوں نےبھی  آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے، تیسری یا چوتھی رات آپ ﷺ نماز تراویح کے لیے مسجد میں تشریف نہیں  لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔ (صحیح بخاری:١١٢۹)

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزے فرض کئے ہیں،اور میں نے رات کے قیام یعنی تراویح کو سنت بنایاہے، تو جوشخص ایمان اورثواب کی امید کے ساتھ روزہ رکھے گا اورتراویح پڑھے گا، تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہوجائے گا، گویاکہ وہ آج ہی پیداہوا۔(سنن نسائی:٢٢١۰)

تراویح کی نمازاور جماعت کا حکم:

تراویح  کی نمازقیام اللیل میں شامل ہے،جو سنت  مؤکدہ ہے،ا ورجماعت کے ساتھ پڑھناسنت علی الکفایۃ ہے۔ (درمختار مع رد المحتار:٢/٤٥)

تراویح میں ختم قرآن کے احکام:

 تراویح میں کم از کم ایک بار قرآن کریم ختم کرنا سنت ہے، ایک سے زائد بار جتنی مرتبہ ختم قرآن کی توفیق ہوجائے تو بڑی فضیلت کی بات ہے۔علامہ ابن  عابدین شامی ؒ فرماتے ہیں:ایک ختم کرنا سنت ہے، دوختم کرنا بڑی فضیلت ہے، اورتین ختم کرنا افضل ہے۔(والختم) مرة سنة ومرتين فضيلة وثلاثا أفضل،(درمختار مع ردالمحتار:٢٤۶)

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی  کریمﷺ کی حیات میں ، حضرت ابوبکر صدیق کے دورِ خلافت اور حضرت عمر فاروق  کے ابتدائی دور خلافت میں نماز تراویح جماعت سے پڑھنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا، صرف ترغیب دی جاتی تھی؛ البتہ حضرت عمر فاروق  کے عہد خلافت میں آپ نےسارے صحابہ کو حضرت ابی بن کعب کی امامت میں جمع کیا، اور عشاء کے فرائض کے بعد وترسے پہلے۲۰ رکعتیں پڑھنے کاحکم دیا،اورنماز تراویح میں قرآن کریم مکمل کرنے کا باضابطہ سلسلہ شروع کیا۔ چنانچہ حضرت عبد الرحمن قاری  فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر فاروق کے ہمراہ رمضان میں مسجد میں گیا تو دیکھا کہ لوگ مختلف گروپوں میں علیحدہ علیحدہ نماز تراویح پڑھ رہے ہیں، کوئی اکیلا پڑھ رہا ہے اور کسی کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی شریک ہیں، اس پر حضرت عمر فاروق  نے فرمایا کہ واللہ! میرا خیال ہے کہ اگر ان سب کو ایک امام کی اقتداء میں جمع کردیا جائے تو بہت اچھا ہے اور سب کو حضرت ابی بن کعب  کی اقتداء میں جمع کردیا۔(مؤطاامام مالک:٢٣۸-٢٤۰)

حضرت عبدالرحمنؒ فرماتے ہیں کہ پھر جب ہم دوسری رات نکلے اور دیکھا کہ سب لوگ ایک ہی امام کی اقتداء میں نماز تراویح ادا کررہے ہیں تو حضرت عمر فاروق  نے فرمایا کہ یہ بڑا اچھا طریقہ ہے اور مزید فرمایا کہ ابھی تم رات کے جس آخری حصہ (تہجد) میں سوجاتے ہو ،وہ اس (تراویح) سے بھی بہتر ہے جس کو تم نماز میں کھڑے ہوکر گزارتے ہو۔ (موٴطا امام مالک ، باب ماجاء فی قیام رمضان: ٢٤١)

حضر ت یزید بن رومان ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی  اللہ عنہ کے زمانے میں وتر کو ملاکر کل  تئیس رکعتیں پڑھتے تھے۔ (مؤطاامام مالکؒ :٣۸۰،سنن  کبریٰ للبیہقی:٤۶۸۰)

امام ترمذی  فرماتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک وہی ہے جو حضرت علیو حضرت عمر  اور دیگر صحابہٴ کرام سے منقول ہے کہ تراویح میں بیس رکعتیں ہیں، حضرت سفیان ثوری، ابن مبارک  اور امام شافعی  کا بھی یہی مسلک ہے اور امام شافعی  فرماتے ہیں کہ میں نے اہل مکہ کو بیس رکعتیں پڑھتےدیکھا۔ (ترمذی، ما جاء فی قیام شہر رمضان:٣/١۰۶، حدیث نمبر:۸۰۶)

علامہ ابن تیمیہ  فرماتے ہیں کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے سارے صحابہ کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں جمع کیا تو وہ بیس رکعتیں تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔(مجموع الفتاویٰ:٢٣/١٢۰سئل  عن صلاۃ التراویح بعد المغرب، الفتاویٰ الکبریٰ:٢/٢٥٥)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  ان خلفاء راشدین میں سے ہیں، جن کی بابت نبی اکرمﷺنے فرمایا ہے کہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرو اور اس کو ڈاڑھوں سے مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ علامہ ابن تیمیہ  فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺنے ڈاڑھوں کا ذکر اس لیے کیا کہ ڈاڑھوں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے، لہٰذا حضرت عمر فاروق  کا یہ اقدام عینِ سنت ہے۔ ( الفتاویٰ الکبریٰ:٢/۹٢،فتاوی ابن تیمیہ ج ۲ ص ۴۰۱، ج ۲۲ ص ۴۳۴)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  نے اپنی سب سے مشہور ومعروف کتاب حجة اللہ البالغہ میں تحریر کیا ہے کہ صحابہٴ کرام اور تابعین کے زمانہ میں تراویح کی بیس رکعتیں مقرر ہوئی تھیں؛ چنانچہ فرماتے ہیں کہ صحابہٴ کرام اور تابعین نے قیام رمضان میں تین چیزیں زیادہ کی ہیں :

(۱) مسجدوں میں جمع ہونا؛ کیونکہ اس سے عوام وخواص پر آسانی ہوتی ہے۔(۲) اس کو شروع رات میں ادا کرنا۔(۳) تراویح کی تعداد بیس رکعت۔ (حجة اللہ البالغہ:٢/٢۹ش)

علامہ ابن عابدین ؒ فرماتے ہیں کہ تراویح کی بیس  رکعتیں ہیں، مشرق ومغرب ساری دنیامیں لوگوں کااسی پر عمل ہے۔(قوله وهي عشرون ركعة) هو قول الجمهور وعليه عمل الناس شرقا وغربا.(ردالمحتار:٢/٤٥)

مشہورعالم نواب صدیق حسن خان مرحوم بھوپالی نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت عمرفاروق کے دور میں جو طریقہ بیس رکعت پڑھانے کا ہوا ، اس کو علماء نے اجماع کے مثل شمار کیا ہے۔ (عون الباری:۸۶١کتاب  صلاۃ التراویح، مشروعیۃ التراویح)

تراویح میں چار رکعات کے بعد وقفہ کرنے کا حکم:

ہر چار رکعت تراویح کے بعد وقفہ کرنا مستحب ہے کہ اتنی مقدار وقفہ کیا جائے جتنی دیر میں یہ چار رکعات ادا کی ہیں، البتہ اگر مقتدی حضرات کی تنگدلی کی وجہ سے تھوڑی دیر وقفہ کرلیا جائے تب بھی جائز ہے، اور اگر کوئی بالکل وقفہ ہی نہ کرے تب بھی کوئی حرج نہیں۔

اس وقفے میں شریعت نے کوئی خاص عمل سنت یا لازم قرار نہیں دیا، بلکہ ہر ایک کو اختیار ہے چاہے تو ذکر کرے، دعا کرے، استغفار کرے، درود شریف پڑھے یا ویسے ہی خاموش رہے؛ یہ سب جائز ہے، اور بعض اہل علم نے اس موقعہ پر اس مخصوص دعاء کابھی ذکرکیا ہے جو عام طورپر پڑھی جاتی ہے، یعنی سبحان ذی الملک و الملکوت الخ، اس کے پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، البتہ اس دعاء کو تراویح کی دعاء کہنایا وقفہ پر اسی دعاء کو ضروری سمجھنا  غلط ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ رمضان المبارک کی راتیں بہت اہم ہیں، ان میں  عبادت کرنا اورخاص طورپرتراویح  کی نماز پڑھنامغفرت کاسبب ہے، اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کاذریعہ ہے،لیکن یہ اسی وقت ہے جب ترایح کی نماز کوخوشدلی پڑھاجائے، اس کے اصول وضوابط کے مطابق  اورتمام  سنن  ومستحبات کی رعایت کرتے ہوئے پڑھی جائے۔سستی کاہلی  اوربادل نخواستہ پڑھنےیا لوگوں سے شرم حیاء کی بناءپر یا  دکھاوے کی خاطر پڑھی جائے تو ایسی تراویح کے بارے میں رسو ل ﷺ نے ارشادفرمایاکہ بہت سارے ایسے روزے دارہوتے ہیں جن کو بھوک کے سواکچھ نہیں ملتاہے، اوربہت سے تراویح پڑھنے والے ایسے ہوتے ہیں جن کو جاگنے کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں۔(سنن ترمذی:١۶۹۰)اس لئے گلی کوچوں میں ، ہوٹلوں میں،دوست واحباب کے ساتھ  وقت ضائع کرنے کے بجائے اس نماز کاپابندی سے اہتمام کرناچاہئے۔کم سے کم  ایک  بار تو ضرورختم قرآن کرناچاہئے،امام  کی قرآت کو بغورسنناچاہئے ، امام  کے نماز شروع کرنے کے بعد یونہی بیٹھے رہنا، گفتگوکرنا، اورجب امام  رکوع میں جائے تو  جھٹ سے تحریمہ  باندھ کر نماز میں شامل ہوجانابڑی بے ادبی ، اوربدقسمتی کی بات  ہے۔نیزثواب سے محروم ہونے کاباعث ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز تراویح کو جماعت کے ساتھ اوراس کے سنن ومستحبات کی رعایت کرتے ہوئے پڑھنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین

Comments are closed.