Baseerat Online News Portal

ورنہ کیا ہمیں ہندو ہونا پڑے گا ؟

شہاب مرزا، 9595024421
رسول اللہ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا:
اےلوگوں ! تمہارا رب بھی ایک ہے اور تم ایک باپ (حضرت آدم علیہ السلام) کی اولاد ہو، لہذا کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، اسی طرح کسے گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، فضیلت کا معیار صرف اور صرف تقوی اور پرہیزگاری ہے۔
(مسند احمد بن حنبل: 23489)
راشٹر سیوک سنگھ کے صدر موہن بھاگوت نے کہا ھیکہ اگر آپ (مسلمان ) یہاں رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو ہندوؤں کی برتری قبول کرنی پڑے گی –
اب باقی کیا رہا ہے کہ ہم مسلمان رہے سر کے بال مونڈھ کر سنڈھی تو رکھی جا سکتی ہے لیکن بچپن میں مختون ہونے کے بعد پلاسٹک سرجری تو نہیں کر سکتے گذشتہ کئی سالوں سے مختون ہونے ہی پر زعفرانی الفاظ سے ملک کے مسلمانوں کو نوازا جاتا رہا ہے یہ کرشمہ کاری، یہ نوازش پیدائش کانگریس اور جن سنگھ کے شب عروسی کے بعد ہوئی جس میں ایک ایسا عنصر بھرا لاڈلا پیدا ہوا کہ جس کے خون میں مسلم منافرت دوڑتی رہی ہے پھر چاہیے امیتابھ بچن سے لے کر ورون دھون سفا چٹ حالت میں محسوس ہونے والا مسلمان ہو یا 90 سال قبل جاری و ساری ہونے والی مولانا الیاس کاندھلوی کی قائم کردہ تبلیغی جماعت کا داڑھی ٹوپی اور قمیض پاجامے میں ملبوس مسلمان نفرت ہر طرف کسی تمیز کے بغیر جاری رہی ہے ملک میں ہونے والے ہر حادثے کے ذمہ داری کا نقصان کا ٹھیکرا انہیں کے سروں پر پھوڑے جانے کے رسم قدیم نے اب کروٹ لی ہے اب بجائے حادثے کا ٹھیکرا پھوڑنے کے ہوا سے گرنے والے پتوں پر، سونامی کے آنے پر، حادثات و واقعات پر اس ملک میں ملک کے مسلمانوں کی موجودگی کا ٹھیکرا پھوڑے جانے کی ایک نئی رسم مودی اور شاہ کی بی جے پی نے رکھی ہے
حال ہی کا واقعہ جیسے دنیا کوویڈ 19 کی عالمی آفت سے منسوب کیا جاتا ہے اسکی پوری ذمہ داری صرف اور صرف کسی قوم کے مختون ہونے پر عائد کی جارہی ہے غنیمت یہ ہے کہ پنجرے کے طوطے اور شہنشاہ اکبر کے بھاٹ بھی اس وقت گرگٹ کی شکل میں پنر جنم لے رہے ہیں – قلم کی ابتداء 25 فروری 2020 کے ٹرمپ دورے سے کی جا رہی ہے ویسے اس کی جڑیں ایم پی کی کمل ناتھ حکومت گرانے سے بھی تعلق رکھتی ہے واضح رہے کہ کرونا وائرس اس ملک میں داخل ہونے کی تصدیق کی WHO نے 31 جنوری کو ہی کردی تھی اس کے بعد بھی مودی شاہی نے کرونا داخلے کا اعلان نہیں کیا اس کے بعد 25 فروری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے مریدوں کو لے کر آیا لیکن کرونا کی وبا نے مودی کے حکم کے مطابق اس ملک میں پوری طرح سے گوشہ نشینی اختیار کی اور اس دوران میں دلی کو گجرات بنانے کے چکر میں فرقہ وارانہ فساد کی آگ میں ڈھکیل دیا گیا
فساد متاثرین کا قصور یہ تھا کہ وہ ہندو راشٹر میں مختون بن کر رہنے پر بضد تھے ورنہ ان مختونوں کو ملک بدر کرنے کی کوششوں سے بھرا شہریت ترمیم بل پہلے ہی تائید کے ساتھ ایوان بالا میں منظور کیا گیا تھا – لیکن یونانی نفسیاتی اور طبی نظریات کے مطابق مختون کو اپنی کمسنی میں ہی مذہب کے خاطر اپنا خون بہتے دیکھ کر بڑی قربانی دینے کا احساس ہوتا ہے اور وہ نتیجے میں تاحیات مذہب پر قائم و دائم رہنے کا فرض بڑی ہمت و استقلال کے ساتھ نبھاتا ہے یہی سبب ہے کہ پورا ملک کے مسلمانوں کے دل میں شاہین باغ دھڑکن بن کر دھڑکتا ہے اور دہلی کا تخت و تاج اسی دھڑکن سے لرزہ بر اندام ہو گیا اس زلزلہ خیز طوفان نے مودی شاہ کو بھی چین کیا لیکن اپنے گناہوں پر توبہ کرنے کے بجائے مخالف کو کسی تکمیل تک پہنچانے کی غرض سے کوویڈ 19 کا اعلان سرکاری طور پر کیا گیا مزید یہ کہ شاہین باغ کی آواز کو دبانے اور کچلنے کی خاطر دہلی کو فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جھونک دیا گیا اور شاہین باغ کے انصاف پسند احتجاجیوں سے انتقام لینے کے لئے UAPA کے ظالمانہ ہتھیار کا استعمال کیا گیا
مزید یہ کہ پورے ملک کے ہندو بھائیوں کے دل میں مسلمانوں کی تئیں نفرت پھیلانے کی غرض سے مرکز اور دلی کے مولانا سعد کو نشانہ بناکر غیر انسانی کھیل کھیلا گیا تھا جمہوریت کے ستون ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا گیا انہیں بھیڑیوں کی طرح آزاد چھوڑ دیا گیا ان بھیڑیوں کے ذریعے میڈیا ٹرائل چلاکر جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی گئی اور زبان کانٹ دی گئی تاکہ جمہوریت کا ستون ذرائع ابلاغ نہ کھڑا رہ سکے اور نہ سچائی بیان کرکے گویا کہ مکمل طور پر مہر لگانے کے لیے ہی ہر ہاتھرس کا واقعہ روبہ کار لایا گیا غرض کل سپریم کورٹ تبلیغی جماعت کی بے گناہی پر کتنا بھی چلائے اور ذرائع ابلاغ کی بھاٹ گری پر کتنی بھی سرزش کیوں نہ کرے اور یہ بتلانے کی کوشش کریں کہ ملک کی عدلیہ غیر جانبدار ہونے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس بات پر یقین کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی قحبہ خانہ سے پاکدامنی کی صدا بلند ہو رہی ہوں عدالت نے وہ سب کچھ کہہ دیا جو گزشتہ صدیوں سے مسلمان خود کو ملزم کے کٹہرے میں کھڑے کر اپنی بےگناہی کا چیخ چیخ کر ثبوت دے رہے تھے
نا صرف تبلیغی جماعت بلکہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے تعلق سے اگر کل عدالت اس طرح بے گناہی کی بات کریں تو کوئی حیرت کی بات نہ ہوگی کیونکہ پورا کرونا کا کھیل سی اے اے سے لے کر اب تک ایک ہی مقصد کے لیے کھیلا گیا ہے اور وہ مقصد مسلمانوں کا ہاتھرس کیا جانا یہاں پر بھی عین تبلیغی جماعت ہی کی طرح ایک زنخے کی زبان سے پاپولر فرنٹ جیسی بے لوث تحریک پر بالجبر کا الزام عائد کیا گیا لیکن عدالت کے ذریعے PFI کو بے گناہی کی سند بحال کرنے تک کسی زنخے کے ذریعے کئی مادائیں حمل کا شکار ہو سکتی ہے لیکن جس صدا کو صدیاں نہیں سن سکی اسے لمحے کیا سنے اور تبلیغی جماعت کی بے گناہی اور ذرائع ابلاغ کی مکاری پر عدالت مہر ثبت کر بھی لیں تو ارباب اقتدار مودی شاہ کا کھیل اب مکمل ہو چکا ہے انہیں اپنی کامیابی حاصل ہو چکی ہے لیکن اب تک مسلمانوں پر جو الزامات عائد کر بد نام کیا ہے اسکی بھر پائی کون کرے؟ اور کیا مسلمانوں کے آزادی اظہار رائے کے کئے گئے ہاتھرس کی سزا مجرموں کو ملنا بھی ممکن ہے؟ شاید بے شمار حادثوں کے سبب یہ حادثہ بھی ملک کی عوام بھول گئے ہوں کہ 2014 کے بعد مرکزی حکومت کی ایما پر ملک کے سادھوں، سنتوں نے گھر واپسی کی تحریک چلائی تھی اس کے دفاع میں ملک کے بڑے بڑے ادیبوں اور صحافیوں نے ایوارڈ واپسی کی تحریک چلائی تھی اس وقت سنبت پاترا کو کہتے ہوئے سنا گیا تھا کہ ایسا کیا ہوا کہ مسلمانوں کو اس ملک میں سانس لینا بھی مشکل ہو رہا ہے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کے خون میں رام اور کرشنا کا ڈی این اے شامل ہے لیکن کیا کرے جو بچپن ہی میں مختون ہوئے اور اب دوبارہ غیر مختون ہونا ممکن نہ ہوا اور اب موہن بھاگوت کا مسلمانوں پر ہندوؤں کی برتری والا بیان یہ تمام واقعات کی کڑیاں باہم مربوط ہیں جس کی درمیانی کڑی پر لکھا ہوا ہے کہ اس ملک میں اگر رہنا ہے تو اپنے خون میں موجود ڈی این اے کو یاد کرے اور اپنے اسلامی عقیدے کو چھوڑ کر گھر واپسی کرے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب اس ملک میں رہنا ہے تو ہمیں ہندو پڑے گا؟

Comments are closed.