Baseerat Online News Portal

ٹرمپ کی بغاوت،ٹرمپ کافساد

عبدالرافع رسول
رب کی کھلی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جوامریکہ پوری دنیاپراپنی چودہراہٹ قائم کئے بیٹھاہے اس کے اپنے ہی بپھرے عوام کی جانب سے رسوائی اورخجالت کاسامناہے۔انسانیت کے لہوسے امریکہ کے ماتھے پرایسے سیاہ اور بدنما دھبے لگ چکے ہیں جو کبھی دھل نہیں سکیں گے ۔ جس امریکی ایوان میں مسلمانوں کی بستیاں تاراج کرنے، اجاڑنے اورمسلمانوں کوگاجر،مولی کی طرح کاٹ پھینکنے کے فیصلے ہوتے ہیں۔اس وقت جب یہ سطورقرطاس پرمنتقل کررہاہوں تو واشنگٹن میں اسی ایوان کے اندراورباہر ہنگامے ،فساداوربغاوت کے خوفناک مناظرجاری ہیں اورواشنگٹن میں کرفیونافذ ہے۔ ٹرمپ کے برپاکردہ فساد اوراسکے اشارے پرشروع ہونے والی بغاوت پرٹرمپ کاٹویٹر اکایونٹ بلاک کردیاگیا ہے اورکمپنی کی جانب سے اس اقدام کی وجہ ٹرمپ کی جانب سے ادارے کی پالیسی کی خلاف ورزی بتایا گیا ہے۔ ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے ہنگامے اوربلوے عین اس وقت ہوئے کہ جب اراکین کانگریس ریاستوں سے آنے والے ایلیکٹورل کالج ووٹوں کی توثیق کر رہے تھے۔نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپٹل ہل پر دھاوابولنے پرکہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ یہ بغاوت ہے۔
ہرصاحب بصیرت اس امرکودیکھ رہا ہے کہ دراصل امریکہ خارجی اورداخلی سطح پر جرائم کامرکزہے۔خارجی سطح پراسکے جرائم کی داستانیں روئے زمین پرجابجابکھری پڑی ہیںجبکہ داخلی سطح پروہ کھوکھلاہے ۔سیاہ فام اورسفیدفام کے درمیان خط امتیازنہ صرف صدیاں گذرجانے کے باوجودنہ صرف اپنی جگہ قائم ہے بلکہ امریکی عوام کے درمیان یہ ایسی خلیج ہے جوروزبروزگہری ہوتی چلی جارہی ہے ۔ اس پرمستزاد یہ کہ اب سیاسی افتراق کاجن بھی بوتل سے باہر آچکاہے اورانتشار،پھوٹ،پرتشدداختلاف اوربکھرائونے پورے امریکہ کواپنے لپیٹ میں لے رکھاہے۔
دوسروں کوجمہوریت ،تحمل اوربرداشت کاسبق پڑھانے والا امریکہ آج اس قدر ذہنی پستی اوراخلاقی اعتبارسے قعرمذلت میں گراہواہے ۔’’خودرافصیحت، دیگران رانصیحت‘‘کی مثال سوفیصداس پرصادق آتی ہے خارجی سطح پروہ انسانیت اورعالمی امن کا کھلادشمن ہے،جبکہ درون خانہ بھی وہ فساد اورماردھاڑکا شکارہے۔اس کے ماتھے پرانسانیت کے قتل عام کے دھبے ایسے واضح دکھائی دے رہے ہیں کہ اسکی اصلیت اوراسکی حقیقت کیاہے؟ صاحبان فکرونظراورفہمیدہ طبقوں کواسے پہچاننے میں کوئی دقعت محسوس نہیں ہوتی ۔اخلاقی طورپراس کااندرون کلی طورپرکھولا ،عالمی امن کوتہہ وبالاکرنے کے درپے ہے امن کا نقاب اوڑھے اس انٹرنیشنل دہشت گرد نے نہتے مسلمانوں کو خون میں نہلایا ،بارود اور آگ کے شعلوںسے مسلم ممالک کو کھنڈر بنادیا۔لیکن مسلمانوں کودہشت گردکہلوانے ،مسلمانوں کے خلاف دنیاکو اٹھ کھڑاہونے کا سبق پڑھانے والے امریکہ میں ایسے امریکی پل رہے ہیں کہ جوایک سے بڑھ کرایک حقیقی اوراصلی دہشت گردہیں ،وہ بلاوجہ اوربے مقصد بدترین دہشت گردی کے مرتکب ہورہے ہیں، وہ اپنے ہی ملک کے شہریوںکوجب چاہیں اورجس وقت چاہیں فناکے گھاٹ اتارتے ہیں۔امریکہ کا اصلی اور حقیقی چہرہ،دیکھناہوگاتو حکیم الامت شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے اس فرمودکوحرزجان بنالیں:
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر!
خون خرابے پریقین رکھنے والے امریکہ میں پلے ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے بدھ کو کیپیٹل ہل کی عمارت پر اس وقت دھاوا بول دیا جب کانگریس میں ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کی صدارتی انتخابات میں فتح کی توثیق کے لیے اجلاس جاری تھا۔جو بائیڈن کی جیت کو چیلنچ کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو کئی بار بدھ6جنوری 2021 کو واشنگٹن پر مارچ کرنے پر اکسایا جہاں پہلے ہی امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں الیکٹورل کالج کے نتائج کی توثیق کے لیے اجلاس طے تھے۔ ٹرمپ نے 20 دسمبر کو اپنی ٹویٹ میں لکھا تھاکہ ہمارا 2020 کے انتخابات کو اعدادوشمار سے ہارنا ناممکن ہے۔ اس لئے 6 جنوری 2021کوواشنگٹن ڈی سی میں بڑا احتجاج ہو گا۔ سب وہاں پہنچیں، یہ وائلڈ بے لگام ہو گا۔ٹرمپ کی کال پرٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے کانگریس کی عمارت کا رخ کیا جیسا کہ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ انتخابی عمل کے خلاف اپنے غصے کے اظہار اور منتخب نمائندوں پر نتائج کو مسترد کرنے کے لیے دبا ئوڈالنے کی خاطر کیپٹل ہل کی عمارت پر مارچ کریں۔
مظاہرین عمارت کے اندر داخل ہونے کے بعد سینیٹ کے چیمبر اور دیگر اہم مقامات پر گھومتے رہے اورتوڑ پھوڑ کرتے رہے۔ ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ٹرمپ نے وائٹ ہائوس کے سامنے کھڑے مجمعے سے خطاب میں کہاتھا:ہم کیپٹل جا رہے ہیں اور ہم اپنے بہادر سینیٹرز اور کانگریس اراکین کی ہمت بڑھائیں گے۔بطور صدر اپنی آخری ممکنہ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو لڑنے کی تلقین کی۔انہوں نے کہا: ہم کبھی بھی ہمت نہیں ہاریں گے۔ ہم کبھی بھی ان بلشٹ نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔تقریر کے تقریبا 50 منٹ بعد ٹرمپ کے کچھ حامی ان کے جھنڈے لہراتے ہوئے کیپیٹل ہل کی طرف مارچ کرنے لگے جہاں ایسی افراتفری ہوئی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ مظاہرین نے پولیس کی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے عمارت پر حملہ کیا اور قانون سازوں کے چیمبرز میں داخل ہو گئے۔ کانگریس میں سرٹیفیکیشن کا عمل روک دیا گیا اور نائب صدر مائیک پینس اور کانگریس کے ارکان کو عمارت سے نکال لیا گیا تھا۔اگرچہ رات گئے کیپٹل ہل کی عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے لیکن اس کے باہر تھوڑی ہی دور کئی مظاہرین موجود تھے جن ملیشیا اور انتہائی دائیں بازو کے گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔مشتعل مظاہرین کیپٹل ہل کے باہر موجود میڈیا کے نمائندوں کے آلات کو بھی نقصان پہنچایا۔
یو ایس کیپٹل ہسٹاریکل سوسائٹی کے تاریخ دانوں کے مطابق 1812کی جنگ کے بعد پہلا موقع ہے کہ امریکی پارلیمان کی عمارت پر دھاوا بولا گیا ہے۔ اگست 1814میں برطانوی فوجیوں نے واشنگٹن میں داخل ہونے کے بعد کیپٹل ہل کی زیرِ تعمیر عمارت کو آگ لگا دی تھی تاہم بارش کی وجہ سے یہ عمارت مکمل طور پر تباہ ہونے سے بچ گئی تھی۔ امریکیوں کی جانب سے اس واقعے سے ایک برس قبل کینیڈا میں ایسے ہی واقعے کے ردعمل میں برطانوی فوجیوں نے وائٹ ہائوس سمیت دارالحکومت کی کئی اور عمارتوں کو بھی آگ لگائی تھی۔ خیال رہے کہ اس وقت تک کینیڈا بطور ملک موجود نہیں تھا بلکہ وہ برطانوی نوآبادیات کا مجموعہ تھا۔
بدھ6جنوری 2021 کو پیش آنے والے واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دنیاکے کئی ممالک کے لیڈران کاکہناتھاکہ تشدد اور بلوے کی خبریں پریشان کن ہیں۔ ان کے مطابق انتقالِ اقتدار کا عمل پرامن طریقے سے جاری رہنا چاہیے اور اسے غیرقانونی مظاہروں سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ واشنگٹن کے ان مناظر نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔دنیاکے کئی ممالک کی طرف سے جوردعمل سامنے آرہاہے اس میں مجموعی طورپرایک ہی بات سامنے آرہی ہے اوروہ یہ کہ جمہوریت کے دشمن آج واشنگٹن ڈی سی کے مناظر دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں گے۔ نفرت آمیز الفاظ پرتشدد رویوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بڑے حامیوں میں شمار ہونے والے امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے بھی بدھ کو ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کیپیٹل ہل میں ہنگامہ آرائی کے بعد ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ کانگریس کے مشترکہ اجلاس کے دوبارہ آغاز کے بعد تقریر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا۔ اب مجھے ساتھ شامل نہ سمجھیں۔ بس بہت ہو گیا۔ انھوں نے کہا کہ جو بائیڈن اور کملا ہیرس قانونی طور پر منتخب شدہ رہنما ہیں اور 20 جنوری کو امریکہ کے صدر اور نائب صدر بنیں گے۔
ادھر وائٹ ہائوس کی نائب پریس سیکریٹری سارہ میتھیوز نے کیپیٹل ہل میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات کے بعد اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ مجھے ٹرمپ انتظامیہ میں خدمات انجام دینے کا اعزاز حاصل ہے اور ان پالیسیوں پر فخر ہے جنھیں ہم نے نافذ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا ایک ایسا انسان جس نے کانگریس کے ہالوں میں کام کیا ہو۔ میں بہت زیادہ پریشان ہوں اس سب سے جو میں نے آج دیکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری قوم کو پرامن طور پر انتقال اقتدار کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل صدر ٹرمپ کی اہلیہ کے سٹاف کی سربراہ اور ٹرمپ کی سابق پریس سیکریٹری سٹیفینی گریم مستعفی ہوئیں۔ ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر چک شومر کا کہنا ہے کہ اب ہم 6 جنوری کو امریکی تاریخ میں تاریخوں کی بہت چھوٹی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں جس کی بدنامی ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے مندر کی توہین کی گئی۔
اس وقت49 ممالک میں امریکہ کے 800بیس مستقل فوجی اڈے موجود ہیں جبکہ دنیا کے 150 ممالک میں امریکی فوجی کسی نہ کسی طرح موجود ہیں۔ امریکی بحری بیڑے دنیا بھر میں اس کے مفادات کے تحفظ کے ضامن ہیں جبکہ میزائل ڈیفنس سسٹم اور خلائی ٹیکنالوجی کے زریعے امریکی تسلط کے تحفظ کا کام لیا جاتا ہے۔ امریکہ کے خونین کارناموں کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ سترہ سو پجھتر سے سترہ سوتیراسی تک امریکیوں نے جنگ آزادی لڑی۔ برطانیہ سے آزاد ہونے کے بعد امریکہ نے اپنی فوجی طاقت کو مضبوط بنایا اور آس پاس موجود کئی جزیروں اور چھوٹے چھوٹے ممالک پر قبضے شروع کر دئیے۔1861 میں امریکہ کو سول وار کا سامنا کرنا پڑا جوکہ چار سال تک جاری رہی ۔ سول وار پر قابو پانے کے بعد امریکہ کے سامراجی عزائم کا آغاز ہوا۔ امریکہ نے پہلی سامراجی جنگ سپین کی کالونیاں حاصل کرنے کے لیے لڑی ۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ امریکہ نے براعظم سے باہر قدم رکھا اور فلپائن ،گوام سمیت کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد انیس سو تیرہ تک فلپائن میں ہزاروںافراد کو امریکی قبضہ مضبوط کرنے کی غرض سے قتل کر دیا گیا۔۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی شہروں پر ایٹم بم گرا کر امریکہ نے نہ صرف سامراجی عزائم کا اظہار کیا بلکہ ایک وحشی ریاست کے طور پر اپنی شناخت کرا لی۔چند سالوں کے بعد انیس سو پچاس میں امریکہ کورین جزیرے پر مفادات کی جنگ لڑنے کے لیے موجود تھا۔ اب کی بار کیمونسٹ شمالی کوریا کو سبق سکھانے کا اعلان کیا گیا اور اپنے ورلڈ آرڈر کی مضبوطی اور اس کے اظہار کی خاطر لاکھوں کورین باشندوں کا خون بہا دیا گیا۔
دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے دعویدار امریکہ کی ابتدائی تاریخ سیاہ فام افریقی باشندوں کے خون سے لکھی گئی ۔ڈیڑھ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی دنیا بھر میں بہنے والے زیادہ تر خون کا ذمہ دار امریکہ ہی ہے۔نہتے افریقیوں کے خون پر بنیادپانے والے امریکہ خونین مزاج کاحامل ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو کہ جہاں امریکی خونریزی کی مثالیں موجود نہ ہوں۔ امریکہ میں یورپ کے جرائم پیشہ افراد کو بسایا گیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ آنے والے دور میں زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کے باوجود امریکی مہم جووئوں کی فطرت نہ بدل سکی اور آج دنیا بھر میں اس مملکت کا تاثر محض ایک سامراجی ذہنیت کی قاتل ریاست کا ہے۔ امریکہ کی جانب سے امن، جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر دنیا بھر میں اس قدر خون بہایا گیاکہ اب ہر کوئی ان الفاظ سے ڈرتا پایا جاتا ہے۔ امریکہ کی جنگی مہموںاور قتل و غارت کے لیے بدترین طریقے استعمال کرنے کے باعث دنیا بھر میں نفرت پائی جاتی ہے اور خود امریکی ذرائع ابلاغ اپنی رپورٹوں سے اس کی تصدیق کر چکے ہیں۔امریکہ آج کے دور کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے ۔ اس کی فوج چودہ لاکھ پچاس ہزار سے زائد جوانوں پر مشتمل ہے جبکہ ریزرو فوجیوں کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب ہے۔
امریکہ میں شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے معروف ادارے سدرن پاورٹی لا کے مطابق وہ امریکہ میں ایسے امریکی شدت پسندوں پر نظر رکھے ہوئے ہے جونسل پرست ہیں اور امریکہ میں کافی متحرک ہیں اور یہ متعصب سفید فام قوم پرست ہیں۔’’دی آلٹرنٹیو رائٹ یا آلٹ رائٹ‘‘ کے نام سے مقبول اشتعال انگیزی پھیلانے والے یہ افراد ایک گروہ کی شکل میں سامنے آئے ہیں جنہیں سیاسی لحاظ سے درست زبان کے استعمال سے نفرت ہے اور صدر ٹرمپ انہیں محبوب ہیں۔

Comments are closed.