Baseerat Online News Portal

پاک ایران تعلقات

سمیع اللہ ملک
پاکستان نے ہمیشہ ایران کواپنادوست اوربھائی سمجھاہے۔دونوں ممالک نے ماضی میں ہرآزمائش اورمشکل گھڑی میں ایک دوسرے کابھرپورساتھ دیااورمددکی۔قیام پاکستان کا اعلان ہواتوسب سے پہلے ایران نے پاکستان کوتسلیم کیا۔اسی طرح جب ایرانی انقلاب آیاتوپاکستان نے فوری طورپرنئی حکومت کوتسلیم کیااوربھرپور تعاون کیا۔ اسی طرح بہت سے عالمی ایشوزپردونوں ممالک کامؤقف ایک ہے۔ پاکستان اورایران نے سیلاب اورزلزلے جیسی قدرتی آفات میں ایک دوسرے کی مدد کی۔دونوں ممالک کے صدوراوروزرائے اعظم نے تعلقات کے فروغ کیلئے کئی سرکاری دورے کیے۔پاکستان سے ہرسال لاکھوں کی تعدادمیں زائرین ایران جاتے ہیں۔اسی طرح ماضی میں بڑی تعدادمیں ایرانی طلبا و طالبات پاکستان میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں۔
پاکستان اورایران کی سرحد تقریبا 907کلومیٹر طویل ہے۔یہ ایک دشوارگزار سرحد ہے، جس کا فائدہ اسمگلر اور دہشت گرد دونوں اٹھا رہے ہیں۔ پاک ایران سرحد کومحفوظ بنانے کیلئے دونوں برادرممالک میں بات چیت کے بعداس منصوبے پرکام شروع ہوچکاہے۔پاکستان کی خواہش ہے کہ ایران بھی اس منصوبے کے کچھ اخراجات برداشت کرے۔ سرحدکے کچھ حصے پر پاکستان اورکچھ پرایران کام مکمل کرے۔اس سرحدی باڑکافائدہ دونوں ممالک کوہوگا۔ اندازہ ہے کہ باڑلگانے کاکام دوسال میں مکمل ہوجائے گا۔ایران سے ڈیزل،پٹرولیم،اسٹیل اورپلاسٹک مصنوعات سمیت بہت سی اشیاکی اسمگلنگ ہورہی ہے۔وزارت پٹرولیم کے ذرائع کے مطابق ایران سے یومیہ20ہزارلیٹر پٹرول وڈیزل اسمگل کیاجاتاہے،جس سے قومی خزانے کواربوں روپے کانقصان پہنچ رہاہے۔سنگلاخ پہاڑوں اوردشوارگزارراستوں کی وجہ سے متعلقہ اداروں کو اسمگلنگ روکنے میں مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے۔منصوبے کے تحت دونوں ممالک کے شہریوں اورتاجروں کی سہولت کیلئے مختلف مقامات پرگیٹ لگائے جائیں گے اورچیک پوسٹیں بھی قائم کی جائیں گی۔سرحدکوکنٹرول کرنے کیلئے جدید آلات اورٹیکنالوجی سے بھی مددلی جائے گی۔سرحدپرمشترکہ گشت بھی کی جائے گی۔
پاکستان اورایران کے درمیان تجارت کاحجم ایک اعشاریہ تین بلین امریکی ڈالرہے۔معاشی ماہرین کے مطابق اسے تین بلین ڈالرتک لے جایاجاسکتاہے۔تجارتی حجم پہلے سے بڑھا ہے تاہم اس میں مزیداضافے کی گنجائش موجودہے۔ایران پرعائدامریکی پابندیاں بھی تجارت میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔پاکستانی مصنوعات ایران میں اورایرانی مصنوعات پاکستان میں مل جاتی ہیں لیکن یہ زیادہ تراسمگل شدہ ہوتی ہیں جس سے دونوں ملکوں کومالی نقصان اٹھاناپڑتاہے۔اسمگلنگ پرقابوپاکرردرآمد برآمدکی مد میں اربوں روپے کی اضافی ڈیوٹی حاصل کی جاسکتی ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ باڑلگانے سے جہاں دہشتگردی پرقابوپایاجاسکے گاوہیں چندہی سال میں اربوں روپے کی ڈیوٹی سے باڑپرآنے والے اخراجات بھی پورے ہوجائیں گے۔یہ رپورٹ بھی ہے کہ بھارتی مصنوعات ایران اورافغانستان کے راستے پاکستان اسمگل کی جاتی ہیں۔
پاک ایران سرحدکے قریب رہنے والے بلوچوں اورمقامی آبادی نے بھی باڑلگانے کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔مقامی آبادی خوداسمگلروں اورجرائم پیشہ افراد کی وجہ سے پریشان ہے۔بلوچستان کی صوبائی حکومت نے بھی منصوبے کوقومی مفاداوربلوچوں کے مفاد میں قراردیاہے۔تاہم بعض غیرملکی طاقتیں جو بلوچستان کی سرزمین کواپنے مقاصدکیلئے استعمال کرناچاہتی ہیں اس منصوبے سے پریشان ہیں۔پاک ایران سرحدپرباڑلگ گئی توان کے سازشی منصوبے پورے نہیں ہوں گے۔ایک طرف توبھارت دونوں برادرممالک کے درمیان اختلافات پیداکرنے کی کوشش کررہاہے،دوسری طرف امریکااورایران کی باہمی چپقلش کوبھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔یہ بات خارج ازامکان نہیں کہ امریکابلوچستان کی سرزمین کوایران یاخودپاکستان کے خلاف استعمال کرے۔
پاکستان اورافغانستان کی سرحدتقریباڈھائی ہزارکلومیٹر طویل ہے۔اس کاشماردنیاکی دشوارگزارسرحدوں میں ہوتاہے،جہاں پٹرولنگ اورچوکیاں قائم کرناکسی چیلنج سے کم نہیں تھا ۔ پاکستان نے افغانستان سے دہشتگردوں کی آمدروکنے کیلئے باڑلگانے کافیصلہ کیا۔اس منصوبے پرفروری2017میں کام شروع کیاگیا،جوتیزی سے جاری ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ساڑھے6سوکلومیٹرسرحدپرباڑلگائی جاچکی ہے۔دوسوسے زائدنگران قلعے بھی تعمیرکیے جاچکے ہیں۔سرحدکی نگرانی کیلئے کلوزسرکٹ کیمرے،ڈرونزبھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔رات کوسولرانرجی کے ذریعے روشنی کابندوبست کیاگیاہے۔افغانستان سے غیرقانونی طورپرپاکستان میں داخل ہونے والوں اوردہشتگردوں کی آمدکوکافی حدتک کنٹرول کرلیاگیاہے۔ابتدامیں افغان حکومت نے باڑلگانے کی مخالفت کی تھی تاہم اب افغانستان کے غیر جانبدارحلقے پاکستان کے اس فیصلے کوسراہ رہے ہیں۔افغانستان میں موجود بھارتی لابی پروپیگنڈاکررہی تھی کہ اس باڑکونہیں بننے دیاجائے گالیکن دنیادیکھ رہی ہے کہ پاکستان پوری استقامت کے ساتھ اس منصوبے کومکمل کررہاہے۔غیرقانونی طورپر پاکستان اورافغانستان کاسفرکرنے والے اب باقاعدہ ویزہ لیکرہی آسکیں گے۔اسمگلنگ میں بھی کمی آئی ہے۔باڑلگانے کاکام مکمل ہونے کے بعدامیدہے کہ اسمگلنگ پرقابوپا لیا جائے گااوراس طرح دونوں ملکوں کافائدہ ہوگا۔قانونی طور پرتجارت کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں۔روزانہ تقریبادس سے بارہ ہزارافرادقانونی طریقے سے آتے جاتے ہیں جبکہ گیارہ سو سے بارہ سوکے قریب تجارتی ٹرکوں کے ذریعے امپورٹ ایکسپورٹ ہوتی ہے۔افغان تاجرٹرانزٹ ٹریڈسے بھرپورفائدہ اٹھارہے ہیں۔باڑلگنے سے سرحدکے قریب رہنے والوں نے بھی سکھ کاسانس لیاہے، جن کی زندگی دہشتگردوں اوراسمگلروں نے اجیرن کردی تھی۔امیدہے کہ اس سال خیبرپختونخواکی افغانستان سے ملنے والی سرحدپرباڑلگانے کاکام مکمل ہو جائے گا۔اسی طرح بلوچستان کی افغانستان سے ملنے والی سرحدپرباڑلگانے کاکام اگلے سال مکمل کرلیاجائے گا۔
اپنی سرحدوں کومحفوظ بنانے کیلئے سرحدوں پرباڑلگاناہرملک کاحق ہے،عالمی قوانین بھی اس کی اجازت دیتے ہیں۔پاک ایران سرحدکومحفوظ بنانے کیلئے باڑ کی تعمیردونوں ملکوں کے مفادمیں ہے۔باڑلگانے سے صورتِ حال کوکافی حدتک کنٹرول کیاجاسکے گا۔بھارت کی دشمنی اورسازشوں سے جتناہم واقف ہیں اس سے شاید ایران آگاہ نہیں۔بھارت ایرانی تیل کاایک بڑاخریدارہے دوسری طرف چابہارمیں بھارتی سرمایہ کاری اورامریکا کی جانب سے بھارت کوریلیف دینے کے معاملات سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔اس بات کا خدشہ موجودہے کہ بھارت دوست ممالک کی سرزمین کوپاکستان کے خلاف استعمال کرسکتاہے۔پاکستان اور ایران میں غلط فہمیاں پیداکرنے کیلئے کوئی سازش کرسکتاہے۔بھارت نے ہمارے دوہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں اضافہ بغیرکسی منصوبہ بندی کے نہیں کیا۔ اس کے پیچھے اس کی پاکستان دشمنی اورپاکستان کی سرحدوں کوغیرمحفوظ بنانے کی پالیسی ہے۔ایران اورافغانستان دونوں ممالک کی سرحدیں بھارت کے ساتھ نہیں ملتیں لیکن بھارت نے دونوں ممالک میں بڑے پیمانے پرسرمایہ کاری کی لیکن اب امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں حالات بدل رہے ہیں۔
چابہاربندرگاہ پربھارت کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پرپاکستان کوتشویش ہے۔بھارتی خفیہ ایجنسی را،افغانستان میں دہشتگردوں اورجرائم پیشہ افرادکو تربیت دے کر پاکستان میں داخل کررہی ہے۔اسی طرح ایران کومطلوب دہشتگردتنظیم جنداللہ کوافغانستان میں تربیت فراہم کی جارہی ہے۔مقصدپاکستان اورایران کے درمیان غلط فہمیاں پیداکرناہے۔ دوہمسایہ ممالک کے درمیان غیرقانونی آمدورفت روکنے کیلئے سرحدپرباڑلگانے کامعاملہ کوئی نیانہیں۔امریکااپنے ہمسایہ ملک میکسیکو کے بارڈرکوباڑلگاکر مکمل طورپربندکرنے کے منصوبے پرعمل کررہاہے۔مقصدمیکسیکو سے غیرقانونی آمدورفت اوراسمگلنگ کوروکناہے۔اسی طرح دنیاکے بہت سے ممالک نے اسمگلنگ اورجرائم پیشہ افرادکی روک تھام کیلئے باڑلگائی ہے۔سینٹرفارجیوپولیٹیکل اسٹڈیزکے مطابق دنیامیں70کے قریب سرحدی باڑیں موجود ہیں،ان میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہورہاہے۔ترقی کی جانب گامزن ممالک،غریب اورپسماندہ ممالک سے لوگوں کی غیرقانونی آمدورفت روکنے کیلئے سرحدپردیواریں یا رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں تاکہ اپنی معیشت اورعوام کوتحفظ فراہم کرسکیں۔چین نے شمالی کوریاکی سرحدپرباڑلگاکراپنی سرحدوں کومحفوظ کیاہے۔ملائیشیا اور تھائی لینڈکے درمیان باڑہے۔ہنگری اورسربیاکے درمیان باڑہے۔برازیل اورگوئٹے مالاکے درمیان باڑ موجود ہے ۔ بھارت اوربنگلادیش کے درمیان سرحدی باڑہے، بھارت نے پاکستان سے ملنے والی سرحدپربھی باڑلگائی،بھارت نے میانمارکے ساتھ بھی باڑلگائی۔ قازقستان اورازبکستان میں اسمگلنگ روکنے کیلئے سرحدی باڑ ہے۔جنوبی افریقااورزمبابوے کے درمیان سرحدی باڑہے۔کویت اورعراق کے درمیان سرحدی باڑقائم ہے۔سعودی عرب او ر عراق کے درمیان سرحدی باڑہے۔ترکی نے شام کے ساتھ سرحدی دیوارقائم کی ہے۔روس اوریوکرائن کے درمیان سرحدی باڑپرکام مکمل ہونے کے قریب ہے۔متحدہ عرب امارات اورعمان کے درمیان سرحدی باڑہے۔اس طرح اورکئی ممالک نے بھی اسمگلنگ اورجرائم پیشہ افرادکی روک تھام اوراپنی سرحدوں کومحفوظ بنانے کیلئے سرحدی باڑیں لگائی ہیں۔ کہنے کامقصد یہ ہے کہ باڑلگاناکوئی انوکھی بات نہیں نہ اس کامطلب یہ ہے کہ باڑلگانے سے دونوں ممالک میں کوئی کشیدگی پیداہوسکتی ہے۔دنیامیں جن ممالک نے اپنی سرحدوں کومحفوظ بنانے کیلئے باڑیں لگائیں اس سے انھیں فائدہ ہی ہواہے۔
ایران کاالزام ہے کہ جنداللہ گرو پ بلوچستان کے راستے ایران میں دہشتگردی کی کاروائیاں کرتاہے۔پاکستان جنداللہ گروپ سمیت تمام دہشتگردگروپوں کوختم کرنے کیلئے اقدامات کررہا ہے۔اب تک جنداللہ کے کئی دہشتگرد مارے جاچکے ہیں اورکئی گرفتارکرلیے گئے ہیں۔ماضی میں جنداللہ کے ایک بڑے دہشتگرد عبدالمالک ریگی کوگرفتارکرنے میں بھی پاکستان نے ایران کی مددکی تھی۔اس واقعہ کویاددلانے کامقصدیہ بتاناہے کہ پاکستان تمام دہشتگردگروپوں کے خلاف بلا امتیازکاروائی کررہاہے۔جب کسی دہشتگرد کو گرفتار کیا جاتاہے تواس کے ساتھی بے گناہ شہریوں اورفورسزکونشانہ بناتے ہیں جس کی قیمت فورسزکے جوانوں اور شہریوں کواداکرنی پڑتی ہے۔اس کے باوجودبعض عناصرپاکستان پر الزامات لگانے سے بازنہیں آتے۔ان کامقصدصرف پاکستان کوبدنام کرنااوردوست ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیداکرناہے۔
بدقسمتی سے بلوچستان میں کئی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں اپنااپناکھیل،کھیل رہی ہیں۔افغانستان اورایران سے سرحدیں ملنے اورسمندری راستے کے ذریعے بلوچستان میں غیرملکی مداخلت آسان ہے۔بلوچستان میں دہشتگردی کیلئے قائم ایک نیٹ ورک کاسربراہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیوتھاجسے پاکستانی خفیہ ایجنسی نے رنگے ہاتھوں پکڑا۔پاک ایران بارڈر پرباڑلگنے کے بعدکلبھوشن یادیوجیسے جاسوسوں کیلئے اپنانیٹ ورک چلانااوردوبرادرملکوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرناممکن نہیں رہے گا۔خطے میں امن قائم ہوگااورپاک
ایران تعلقات میں اضافہ ہوگا۔

Comments are closed.