Baseerat Online News Portal

چین کی ناپاک سازش آخر ہم کب تک برداشت کریں گے ؟

مکرمی!
آج سے تقریبا چند روز قبل بھارت اور چین کی سرحد پہ تعینات ہمارے ہندوستانی نوجوان فوجی جو اپنی جان ہتھیلی میں رکھ کرشب و روز کی قربانی کر کے ہمارے ملک کی حفاظت پر مامور رہتے ہیں، دو ملکوں کے مابین آپسی جھڑپ میں ان میں 20 نوجوان فوجیوں کی جان چلی گئی!آخر کیوں ؟کیا ہمارے پاس اسلحہ کی کمی ہے یا پھر ہمارے پاس غیر ملکوں سے سرحد پر مقابلہ کرنے کے لیے بہتر انتظامات کی کمی؟ جس کی وجہ سے آئے دن ہندوستان کی حفاظت میں ہمارے فوجی جوان شہید ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جس طرح پلوامہ حملے میں شہید فوجیوں کے ساتھ انھوں نے صرف نیوز چینلوں پہ اپنا گلا پھاڑ پھاڑ کر” ہم پاکستان سے بدلہ لے کے رہیں گے” جیسا جملہ کہا تھا ،کیا یہی طریقہ یہاں بھی اپنایا جائے گا؟۔
آج پھر جب ہند و چین کے مابین چھڑ پ میں20 نوجوان فوجی شہید ہوگئے تو آپ پھر وہی چال چل رہے ہیں’ کہ ہم بدلہ لے کے رہیں گےہم یہ کریں گے، ہم وہ کریں گے ، حالانکہ ابھی تک آپ نے کچھ کیوں نہیں کیا؟
کبھی چینی مصنوعات پر پابندی لگانے کی بات کر رہے ہیں اور کچھ چینی مصنوعات پر آپ نے پابندی لگا یا بھی جس کا اثر یہ دیکھنے کو ملا کہ کچھ جگہوں پر احتجاج تو کچھ جگہوں پر چینی مصنوعات کے خلاف نعرے بازی بھی ہو رہے ہیں ۔ان بھگوا دھاری بی جے پی کے کچھ ایجنڈوں اور لیڈروں سے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ پہلے آپ اپنےگھروں سےچینی مصنوعات کو سر راہ پھینکے تا کہ عوام الناس دیکھے اور اس کا اثر پورے ہندوستان پر پڑے "چھوٹے منہ بڑی بات” جیسا محاورہ ہر جگہ کارگر ثابت نہیں ہونے والا۔ اس طرح کے احتجاج آخر کب تک ہوتے رہیں گے؟ شاید چند دنوں تک ہی۔ چینی مصنوعات ہندوستان میں یوں ہی نہیں آتے بلکہ حکومت ہندکو سالانہ کروڑوں روپیے کا فائدہ ہو تا ہے۔
چند سیاسی رہنما قوم پرستی کے نام پر چینی مصنوعات کے بائیکاٹ اور چین کو سبق سکھانے پر زور دے رہے ہیں۔
لیکن ماہرین کے نزدیک یہ سب وقتی جوش و خروش سے زیادہ کچھ ہونے والا نہیں ہے کیونکہ ہندوستان کی مارکیٹ کاچین پر اتنا بڑا انحصار ہے کہ اس سے نجات حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔
ہندوستانی محکمہ کامرس کی رپورٹ کے مطابق چین امریکا کے بعد بھارت کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے رواں سال میں فروری 2020 تک کے چین بھارت سے 62.37 ملین ڈالر کی آمدنی کر چکا ہے جب کہ بھارت نے چین سے صرف15.54 ملین ڈالر کی آمدنی کی ہے اس طرح بھارت کو اب تک 46.83 ملین ڈالر کا کا تجارتی خسارہ ہو چکا ہے۔ سال گزشتہ ہندوستان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے چار ( SMART PHONE)اسمارٹ فون چین میں ہی تیار ہوئے تھے ہندوستانی حکام کے جانکاری کے مطابق 2019 میں ہندوستان میں 16 ملین ڈالر سے زیادہ چینی SMART PHONE فروخت ہوئے ہیں۔
اسی دوران کاروباری افراد کی تنظیم کنفیڈریشن آف انڈیاٹریڈر نے چین میں تیار ہونے والی 500سے زیادہ مصنوعات کی ایک فہرست جاری کی ہے اور لوگوں سے ان کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے ان میں کھلونے، کپڑے، ملبوسات ،روزمرہ کے استعمال کی چیزیں، باورچی خانہ میں استعمال کی چیزیں، فرنیچر، ہارڈ ویئر، جوتے، ہینڈ بیگ ،سفری اشیاء ، الیکٹرونکس ، کاسمیٹکس، گھڑیاں، زیورات، اسٹیشنری، کاغذ، ہیلتھ پروڈکٹس ،آٹوموبائل پارٹس وغیرہ شامل ہیں۔ چین کی کمپنیوں کی سستی مصنوعات نے ہندوستان میں اپنی جڑیں اتنی گہرائی سے پیوست کر لی ہے کہ انہیں اکھاڑنا بہت مشکل ہے۔ تجربہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کو چینی مصنوعات اور اشیاء کا بائیکاٹ کرنے سے قبل دوسرےمتبادل تلاش کرنے ہوں گے تاکہ لوگوں کو مستقبل میں کسی طرح کی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بہر حال ان ساری چیزوں کا علم رکھتے ہوئے بھی ہندوستان کے کچھ دانشور اور عقلمند آر پار کی بات کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں دوسری طرف وہیں پورا ملک ہندوستان ابھی بھی غم و غصہ میں ڈوبا ہوا ہے-کب تک؟ بس چند دنوں تک ہی اس کے بعد پلوامہ کے حملے کی طرح یہ حملہ بھی سرد خانے میں پڑ جائے گا، جب جب الیکشن کے ایام قریب آئیں گے اسی وقت ہمارے برسر اقتدار پارٹی بھی اپنی اپنی تقاریر میں بیان کرتے نظر آئیں گے کہ ہمارے وزیراعظم نے چین کو ایسا کیا،ویسا کیا،جس طرح پاکستان کے بارے میں الٹی سیدھی تقریر کرکے عوام الناس کو گمراہی میں رکھ کر دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے پھر جب کہ بہار میں الیکشن ہے تو اپنی بھاشن میں چین کے خلاف بیان بازی کر کے اپنی کامیابی کا سہرا مکمل طور پہ بہار میں بھی تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان سارے واقعات کے باوجود ہمارے وزیر اعظم یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ "ہم اتنے ہنرمند ہیں کہ کوئی بھی ہماری ایک انچ زمین کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ نہیں سکتا” جب کہ آئے دن ہندوستان کے فوجی کبھی پاکستان کی سرحد پہ تو کبھی چین کی سرحد پر مارے جارہے ہیں آخر اخبارات میں چھپے ہوئے اور نیوز چینلوں میں نشر کیے جانے کے باوجودان چیزوں کو آپ کب تک چھپا تے رہیں گے۔
محمد اشفاق عالم نوری فیضی
رکن مجلسِ علماء اسلام شمالی کولکاتا زونل کمیٹی

Comments are closed.