Baseerat Online News Portal

کتابستان ، بیگو سرائے سے “الکتابستان “ دل٘ی تک —-اپنے وجود وخدمات کے آئینے میں! 

 

مفتی شکیل منصور القاسمی

 

دنیا کے تقریباً ہر مذہب کے پاس اپنی متبرک “کتاب “ موجود ہے، جن کے اصول وہدایات سے روشنی کشید کر وہ “رہ حیات “ طے کرتی ہے ۔

ہمارے مذہب اسلام کا آغاز ہی “ ’اِقْرَأْ “ “ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ‘‘ اور “ذَالِكَ الْكِتَابُ ،لاَرَيبَ فِيْهِ ” سے ہوا ہے

جو مسلمانوں کے مذہبی ورثے کی نشاندہی کرتے ہوئے “کتاب وقلم “ کے ساتھ اس کے لازوال رشتے کو واشگاف کررہا ہے

علم اور کتاب کے مابین چولی دامن کا رشتہ ہے ، دین ہو یا دنیا ، سب کا دارومدار “علم” پر ہے اور علم کے حصول کا اہم ذریعہ “کتاب “ ہے۔ قلم (وسیع تر معنی ومفہوم میں ) وکتاب نے انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا میں ہمیشہ تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے۔انسانی تہذیب کے ارتقاء کی پوری داستان کتاب و کتب خانوں سے بھری پڑی ہے ، ریت و پتھر کی چٹانوں پہ مافی الضمیر لکھنے کا زمانہ ہو ، یا درخت کی چھال وچھلکوں ، یا مٹی کی الواح پر لکھنے کا دور ، غرضیکہ ہر زمانے میں تحریری مواد کو محفوظ رکھنے اور اسے آگے بڑھانے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے ۔

ارسطو ہو ،افلاطون یا سقراط ! ہر ایک نے اپنے نظریات و خیالات سینے سے سفینے (کتابوں) میں محفوظ و منتقل کرنے کی عملی سعی کی ہے

اسی لئے تاریخی صفحات شاہد ہیں کہ یونانی عہد ہو ، عہد جاہلی یا عہد اسلامی ، ہر دور میں کتابوں اور “کتب خانوں “ کے وجود کو معاشرے کی ترقی کے لئے ضروری تصور کیا گیا ۔ سکندر یہ کا مشہور زمانہ کتب خانہ ہو یا بغداد میں خلیفہ ہارون رشید کا قائم کردہ کتب خانہ “ بیت الحکمت” ! ہر ایک نے انسانی معاشرے کی تہذیب وترقی میں تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے ، مسلمان بحیثیت قوم مجموعی طور پہ عظیم کتب خانوں کے مالک رہے ہیں ، اسی لئے جہاں مسلم دشمنوں نے ان کی سلطنتوں پہ حملے کئے وہیں علمی عظمت و فکری بصیرت کے آئینہ دار “ کتب خانے “ بھی ان کی یلغار کی زد میں آنے سے محفوظ نہ رہ سکے ۔کہیں تو لاکھوں کتابوں کو دریا بُرد کردیا گیا تو کہیں وہ ہماری کتابوں کو یورپ کی لائبریریوں میں لے گئے ۔جن سے سیکھ کر ہی آج وہ ہوائوں پر کمندیں ڈال رہے ہیں ۔

زمانہ کوئی ہو ، حالات ، تقاضے اور چیلنجس کیسے ہی ہوں ! کتابوں کی اہمیت اور ضرورت کسی بھی دور میں کم نہیں ہو سکتی ؛کیونکہ کتاب وکتاب بینی نے انسان، انسانیت، معاشرہ، مذہب اور سیاست کو جلا بخشی اور اخلاقی تربیت کی ہے۔کتابیں انسان کا بہترین سہارا اور دوست ہوتی ہیں۔کتاب کا پیغام آفاقی ہوتا ہے۔ کتابیں فرقہ واریت، علاقائیت اور قومیت جیسے محدود جذبوں سے ہٹ کر معاشرے کو انسان دوستی، بھائی چارہ اور روحانی قدروں کو جلا بخشتی ہیں جس سے قاری اور اس کے ارد گرد رہنے والے افراد پوری طرح مستفید ہوتے ہیں۔

قدرت کا انتظام ہے : ہر جگہ ہر زمانے میں کچھ ایسی نابغہ روزگار شخصیات کا وجود مغتنم رہا ہے، جنہوں نے اپنی اَنتھک اور بے لوث خدمات کی بنیاد پر اسلام کے علمی ،کتابی وقلمی رنگ کو کبھی بھی ماند اور پھیکا نہیں پڑنے دیا، جنہوں نے خدمت ِدین کے مخلصانہ جذبے کو سینوں میں بسا کر اپنی بے لوث صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہر عہد میں خدمت دین کے اَنمٹ نقوش چھوڑے ہیں اور اپنی مخلصانہ کاوشوں اور شب و روز کی عرق ریزی کے طفیل علمی و کتابی دنیا “کتابستان “ کے دبستان میں ،خون جگر سے یادوں کے چراغ جلا گئے ہیں ۔  انہی میں سے ایک نام حضرت مولانا محمد اسحاق صاحب قاسمی پٹنوی مرحوم کا بھی ہے، جوکہ علاقہ کے علمی حلقوں میں محتاجِ تعارف نہیں ہیں ۔ موصوف ایک دور اندیش ، محنتی ، تحریکی ، جفاکش ، خود ساز وتاریخ ساز شخصیت ہونے کے ساتھ گوناگوں خصوصیات ومحاسن کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھے ، شہر بیگوسرائے اپنی تمام تر خوبیوں اور تاریخی خصوصیات کے علی الرغم اُس وقت دینی کتب خانہ سے خالی تھا ، موصوف نے علاقہ میں ایک معیاری دینی تجارتی مکتبہ کے قیام کا ارادہ فرمایا اور 1966 میں “کتابستان “ نامی ایک کتب خانہ قائم فرمایا ، کہنے کو تو یہ ایک اشاعتی و تجارتی مکتبہ تھا ؛ لیکن حقیقت میں یہ ایک تعلیمی تحریک تھی ، اسے جدید وقدیم کا حسین سنگم بناکر پورے ملک میں تعلیمی فروغ وترقی کا ایک ذریعہ بنانا چاہتے تھے ، عملاً وہ یہاں بچوں کو تعلیم بھی دیتے تھے ، کسے معلوم تھا کہ بے سر و سامانی کے عالم میں معمولی وسائل و ذرائع سے ایک متخلف وپسماندہ علاقہ میں “جھوپڑی” سے شروع ہونے والا مکتبہ ایک دن صوبائی بلکہ ملکی سطح پر ایک معتبر ومشہور عظیم اشاعتی ادارہ ودینی کتب خانہ بن جائے گا ؟ ترقی کے اس سفر میں بانی محترم کی فکری آفاقیت ، تازگیِ تخیل ، وسعت نظری اور سچے عزم وحزم ؛ بلکہ رزم و بزم کو بڑا دخل ہے ۔

بانی محترم نے یہاں بیش بہا دینی ومذہبی کتابی ذخیرہ جمع کیا ، باوقار اور معیاری طباعت واشاعت کے سبب بہت جلد مکتبہ نے ضلع بھر میں عوام وخواص کا اعتبار واستناد اور قبولیت عام وتمام حاصل کرلیا ، مختلف جسمانی امراض کے سبب بانی کتابستان کا انتقال پُر ملال 26/06/2002 کو ہوگیا ، حینِ حیات بانی موصوف نے کتابستان کی پوری ذمہ داری اپنے برادر زادہ محترم مولانا محمد عبیداللہ صاحب قاسمی کو سپرد کر دی تھی ، جنہوں نے اپنی حکمت، بصیرت ، تدبر وتحمل کے باعث ادارے کو کافی وسعت واستحکام بخشا ، بانی کے عزائم و منصوبوں کی تعمیل میں کتابستان کے دائرہ کار کو وسیع سے “وسیع تر” کرتے ہوئے قومی دارالحکومت میں اس کی جدید شاخ کے قیام کا فیصلہ کیا اور بحمد اللہ بیگوسراۓ کے علاوہ “الکتابستان “ پرائیویٹ لمیٹڈ ، کے نام سے بتاریخ 05/02/2015/ م دہلی میں اس کا رجسٹرڈ قیام عمل میں آیا ۔

“الکتابستان “ رجسٹرڈ ، دہلی ، انتہائی متحرک وفعال شخص، محترم انجنئیر محمد ثناء اللہ صاحب کی زیر ادارت جانب منزل رواں دواں ہے جہاں دینی ، مذہبی ، لسانی ، قومی اردو وعربی کتابوں کی معیاری طباعت واشاعت ارزاں نرخوں پہ ہوتی ہے، دینی کتابوں کی طباعت واشاعت کے حوالے سے آج یہ ایک معتبر نام کے بطور جانا جاتا ہے ، کم قیمت پر عمدہ خدمات کی فراہمی کے باعث بہت کم عرصے میں علمی حلقوں میں اس نے اپنی شناخت قائم کی ہے ۔

اگر علم وکتاب کی خدمت اور علمی سرمائے وورثے کی حفاظت کے پاکیزہ جذبوں کے ساتھ مناسب ورعایتی نرخوں پہ طباعت واشاعت کا کام انجام پاتا رہا تو امید ہے کہ آنے والے دنوں میں الکتابستان ، دہلی کی ایک منفرد شان ہوگی اور ملک کے فعال و کارکرد بافیض مکتبوں میں ایک نمایاں نام ہوگا ان شاء اللہ ۔

خدا اسے سدا شاداب وآباد رکھے ،آمین

شکیل منصور القاسمی

۲۵ ربیع الثانی ١٤٤٣هجري

Comments are closed.