Baseerat Online News Portal

کورونا۔۔۔۔۔بین الاقوامی تحقیقات کامطالبہ

سمیع اللہ ملک
دنیاابھی تک کوروناکی ہولناکیوں سے نجات نہیں پاسکی کہ چین کے خلاف امریکاکے شدیدترین احتجاج کے بعداب اس کے اتحادی بھی میدان میں اتررہے ہیں اوریوں محسوس ہورہاہے کہ کروناکے بعداقوام عالم کوایک اورخطرناک سردجنگ کاسامناکرنا پڑے گا۔آسٹریلوی حکومت نے کورونا کے حوالے سے غیرجانبداراورخودمختارنوعیت کی بین الاقوامی تحقیقات کی تجویز پیش کی ہے۔صورتِ حال کی مناسبت سے یہ بظاہرایک عمدہ اوربروقت تجویزہے لیکن ان سازشوں کی چنگاریاں ایک بڑی آگ کاپیش خیمہ بھی بن سکتی ہیں۔
کورونا دوسری جنگ عظیم کے بعدسب سے بڑی تباہی ہے جس کادنیاکوسامناکرناپڑاہے۔ایسے میں چین اورعالمی ادارہ صحت دونوں کی ذمہ داری ہے کہ معاملات کودرست اور شفاف بنائیں تاکہ دنیاکودوبارہ ایسی کسی بھی صورتِ حال کاسامنا نہ کرناپڑے ۔امریکاکے مطابق کورونا کے ہاتھوں پیداہونے والے بحران نے چینی قیادت کی خامیوں اورمطلق العنانیت پرمبنی طرزِحکمرانی کے دیوالیہ پن کوبھی بے نقاب کردیاہے۔چینی طرزِحکمرانی کے تحت حقیقت سے دوربیانیے جاری کیے جاتے ہیں اورہرایسے ویسے معاملے کوپروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ عمل عالمی آبادی کوصحت کے شدیدخطرات سے دوچارکرتاہے۔
کوروناکے حوالے سے چین کی طرف سے معاملات درست کرنے سے متعلق کوششیں حقائق کوچھپانے اورعالمی ادارہ صحت پر اثراندازہونے سے شروع ہوئیں۔چینی قیادت نے عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کوچین کے دورے کی اجازت دینے سے انکارکیا اورجنوری کے آخرمیں چینی صدرسے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کی ملاقات کے بعدمعاملات کو درست کرنے کی راہ کچھ ہموارہوئی۔تب تک کوروناکامعاملہ ہاتھ سے نکل چکاتھا۔اس کے بعدچین نے درست اوراعلی معیارکاثابت کرنے کے حوالے سے غیرمعمولی کوششوں کا آغازکیا۔سوفٹ پاور سے متعلق چین کی کوششیں مجموعی طورپراب تک ناکام رہی کیونکہ اس نے کورونا سے نمٹنے کیلئے جوماسک اورکٹس فروخت کیں وہ کمترمعیارکی تھیں۔چین کے بارے میں یہ تصورپوری دنیامیں عام ہے کہ اس کامال پست معیارکاہوتاہے،جس پرپورابھروسانہیں کیاجاسکتا۔چین نے اس تاثرکو محض ایک پروپیگنڈہ قراردیاہے۔
چند ایک ترقی یافتہ ممالک ہی چین کی سوفٹ پاورڈپلومیسی کے آگے جھکنے پرمجبورہوئے ہیں یااسے تسلیم کرلیاہے۔ٹرمپ کے مطابق اگرکورونا واقعی چین کاپھیلایاہواہے توپھراسے اِس کی سزابھی دی جانی چاہیے۔برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومینک راب نیکہاہے کہ چین کوبتاناپڑے گاکہ کورونا کیسے پھیلااورکیااس کاپھیلاوروکاجاسکتاتھا۔فرانس کے صدرنے فنانشل ٹائمزسے انٹرویومیں کہاکہ یہ تسلیم کرناسادہ لوحی پرمبنی ہوگاکہ چین نے کوروناکی وباپرقابو پانے میں کامیابی حاصل کی کیونکہ بہت سے ایسے معاملات بھی ہیں جوہوئے مگر ہمارے علم میں نہیں۔
چندایک پسماندہ ممالک کیلئے چین بہت کچھ کرتاہے۔انہیں چین کی طرف سے کسی نہ کسی شکل میں امدادملتی رہتی ہے۔کورونا کے ہاتھوں پیداہونے والی صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کیلئے چین نے منصوبہ بندی کی ہے اوروہ ایسے اقدامات کررہاہے،جن کے نتیجے میں اسے بھی فائدہ پہنچے اوراس سے کسی نہ کسی شکل میں امدادکی توقع رکھنے والے ممالک بھی محروم نہ رہیں۔
کوروناکے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی کارکردگی بھی کسی اعتبارسے قابلِ فخرنہیں رہی۔ ایبولااوردیگروباوں کے حوالے سے نیزخطہ بحرالکاہل میں اس نے جوکامیابیاں حاصل کی تھیں،وہ اس باردکھائی نہیں دی۔اس حقیقت سے انکارنہیں کہ دیگرتمام عالمی تنظیموں کی طرح عالمی ادارہ صحت کوبھی رکن ممالک کی طرف سے دباؤکاسامنارہتاہے مگرکسی بھی عالمی ادارے کو اپنی ساکھ برقراررکھنے کیلئے بحرانی کیفیت میں ڈٹ کرکسی بھی نوع کاغیرضروری دباؤ قبول کرنے سے صاف انکارکرناچاہیے۔ کورونا کے معاملے میں عالمی ادارہ صحت نے چین کی مرضی کے آگے غیرضروری طورپرجوسرجھکایاہے،اس کوکسی بھی طورقبول نہیں کیاجاسکتا۔عالمی ادارہ صحت نے پوراجنوری اورفروری کابڑاحصہ بھی ضائع کیااوروہی باتیں کرتا رہاجوچین اس سے کہلواناچاہتاتھا۔آسٹریلیاکی حکومت نے معاملات کوبھانپتے ہوئے یکم فروری کوعالمی ادارہ صحت کی ہدایات نظراندازکرتے ہوئے چین سے آنے والوں پر پابندی عائدکردی۔صرف دودن بعدعالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹرجنرل نے چین سے متعلق سفری پابندیاں عائدکیے جانے کے حوالے سے آسٹریلیاکوہدفِ تنقیدبنایا۔یہ اقدام عالمی صحت کے حوالے سے کسی بڑے ادارے کانہیں۔یہ توصاف صاف کسی ملک کاکاروباری ایجنڈالگتاہے۔اس کی واضح ذمہ داری ہے کہ صحتِ عامہ کاتحفظ یقینی بنانے کیلئے احتیاطی تدابیرکے اصول کی بنیادپربروقت اورجامع اقدامات کریں۔
عالمی ادارہ صحت نے ویسے تواوربہت سے ایسے اقدامات کیے ہیں جنہیں کسی طورقبول نہیں کیاجاسکتاتاہم سب سے بڑھ کریہ ہے کہ چین کے کہنے پرتائیوان کوتنظیم سے نکال دیا گیا ہے۔کوروناسے نمٹنے کے حوالے سے تائیوان کاشمارکامیاب ترین ممالک میں ہوتاہے اس لیے عالمی ادارہ صحت سے اس کانکالاجاناکسی بھی طوربرداشت یاقبول نہیں کیاجاسکتا۔
ٹرمپ حال ہی میں عالمی ادارہ صحت کی فنڈنگ60تا90دن معطل کرکے اچھی خاصی تنقیدکانشانہ بنے۔انہوں نے یہ اعلان کورونا سے متعلق انتباہ اورچین کی طرف عالمی ادارے کے جھکاؤکی بنیادپرکیا۔اس میں کوئی شک نہیں عالمی ادارہ صحت سے جواب طلبی کاٹرمپ کے پاس ٹھوس جوازہے مگراس کے باوجودان کے اس اقدام کواپنی نا اہلی پرپردہ ڈالنے کی کوشش سمجھا جارہا ہے۔
اختلافی اموراپنی جگہ،لیکن عالمی ادارہ صحت ایک اہم عالمی ادارہ ہے۔اس نے ماضی میں خاصی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔اب اس کاکردارمزیدمستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔اب
سوال یہ ہے کہ اگرامریکاعالمی ادارہ صحت سے نکل جائے تو؟اگرایساہواتوبہت براہوگا۔عالمی ادارہ صحت سے امریکا کے نکل جانے سے جوخلا پیداہوگااسے فوری چین پرکر کے اس صورتِ حال کابھرپورفائدہ اٹھائے گااورعالمی ادارہ صحت کواپنی مرضی کے مطابق چلانے کابھرپورموقع ملے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی ادارہ صحت نے اپنے فکرو عمل سے امریکاسمیت بہت سے ممالک کوپریشانی سے دوچارکیاہے مگرپھرٹرمپ کاامریکاکوعالمی ادارہ صحت سے نکالنے کا فیصلہ ان کے ذاتی مفادات کے تابع سمجھا جائے گا۔سرِ دست معاملات کوبہتربنانے کاسب سے اچھاطریقہ یہ ہے کہ آسٹریلیاکی جانب سے پیش کی جانے والی اس تجویزپرعمل کیا جائے کہ کورونا کے پھیلاواورروک تھام سے متعلق اقدامات کی تحقیقات کی جائیں اورمعلوم کیاجائے کہ یہ کس ملک میں پیداہوا یابنایاگیا،اس کاپھیلاوروکنے سے متعلق کیااقدامات کیے گئے۔

Comments are closed.