Baseerat Online News Portal

کون ہے جو اب میرے حق میں گواہی دے گا ؟  نوراللہ نور

کون ہے جو اب میرے حق میں گواہی دے گا ؟

نوراللہ نورNoorullah noor

 

ہمارا خیال ہے کہ صرف قتل؛ کسی کو ناحق زدو کوب کرنا ؛ کسی کے حقوق سلب کر لینا یہی ظلم ہے یقینا یہ تو ظلم ہے ہی مگر مرور زمانہ کے ساتھ زمانے نے کروٹ لی ہے اور اب کے دور میں مذکورہ چیزو‌ں پر ہی ظلم و تعدی کا اطلاق نہیں ہوتا ہے بلکہ حق گوئی ؛ انصاف پسندی ؛ حقیقت شناشی ؛ تعلیم یافتہ ہونا بھی کسی سنگین جرم سے کم نہیں بلکہ اس سے بھی بڑی خطا ہے . اگر کوئی منافرت کی تشہیر میں پیش پیش رہتا ہے تو سارے داغ دھل جائیں گے اور بطور انعام یا تو پردھان منتری بنتا ہے اور کبھی ایوان بالا تک رسائی بھی حاصل ہو جاتی ہے مگر آپ منصفانہ مزاج کے متحمل ہیں حق گوئی کے خوگر ہیں ظلم کے سامنے کوہ ہمالہ ہیں ؛ تعلیمی لیاقت سے اپنے آپ کو مزین کر رکھا ہے تو آپ یا تو بے روزگار ؛ قابل ترحم ؛ رہیں گے لب کشائی پر قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑے گا .

اگر یہ ظلم یہیں تک محدود ہوتا تو انصاف پسند ؛ حق گو ؛ بے باک ؛ مخلص ؛ ملنسار ؛ اور منصف مزاج لوگوں کے زخم قدرے ہلکے ہوتے وہ ظلم و استبداد ؛ حق کے شکار تو ہو ہی جاتے ہیں مگر مزید برآں کہ جن کے لیے یہ نیک طینت و طبعیت لوگ اپنی شبانہ روز جدو جہد صرف کرتے ہیں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر ان پر ہوتے جبر و تشد و انصافی کے لئے آواز بلند کرتے ہیں وہ ان کے مشکل وقتوں میں پیچھے ہٹ جاتے ہیں ان سے بے اعتنائی کا اظہار کرتے ہیں اگر ایسا نہیں ہے تو پھر سنجیو بھٹ ؛ شرجیل امام ؛ خالد سیفی سلا خوں میں نہ ہوتے ہم نے حقیقی مزاحمت اور کدو کاوش ہی نہیں کی ہم آسایش میں محو ہیں ان کا خیال نہیں آتا اس حساس پہلو پر کوئی منصوبہ بندی ہم نے کی ہی نہیں اگر اس کے لیے مثبت قدم اٹھایا ہوتا تو یکے بعد گرفتاری عمل میں نہیں آتی .

 

جو ہماری اور بے کسوں کی آواز ہیں جو سماج دشمن عناصر سے الجھنے کا ہنر و جزبہ رکھتے ہیں ہمیں ان کا دست و بازو ہونا چاہیے تھا ان کی قابلیت کی قدر کرنی چاہیے اور تمام تر تگ ودو کرنی چاہیے تھی مگر ہم‌ سرد مہری کے شکار ہیں ہم عادی ہوگئے ہیں اس بات کے کہ جب تک ہم پر برق باری نہ ہو ہم بیدار نہیں ہوں گے اگر ہم ذرا سا بھی متحرک ہوتے تو ہمارے قابل اور ہونہار جوان قید و بند میں نہ ہوتے بلکہ آج وہ ہمارے درمیاں ہوتے .

 

آپ جاکر خالد کی والدہ سے دریافت کریں کہ ان پر کیا گزر رہی ہے خالد سیفی کی اہلیہ شب و روز اپنے خاوند کی راہ تک رہی ہیں اگر ہم بر وقت قدم اٹھاتے تو ان کو انتظار کے کرب سے نہ گزرنا پڑتا ایسا نہیں ہے سب لوگ خاموش ہیں کچھ لوگ جد و جہد کر رہے ہیں مگر انفرادیت کے مقابلے میں اجتماعیت زیادہ موثر ہے اگر پورا معاشرہ اور سوسائٹی مل کر اس پر یک بارگی متحرک ہو تو کوئی نتیجہ برآمد ہوگا اور اس پر قدغن لگے گی نہیں تو آج خالد گیے ہیں کل دوسرے کو وہ بلی کا بکرا بنایں گے اور اس میں خسارہ سب کا ہے .

 

ہم‌ اپنے گھروں میں صرف نیوز چینلز پر تماشہ بین بنے ہوئے ہیں مگر وہ شخص جو ہماری خاطر محاذ آرائی پر ڈٹا ہوا تھا آج بھی یقض و بیداری کے منتظر ہیں اور وہ یوں گویا ہیں کہ ہم نے تو اپنا فرض نبھایا ہے اور اب آپ کی باری ہے کہ آپ اپنا فریضہ انجام دیں وہ کہ رہے ہیں کہ ہم نے تو سارے لوگوں کے لئے خود کو قربان کردیا اپنی خوشیوں اور آرزو کا خون کیا اب کوئی نہیں جو ہمارے لیے آواز بلند کرے ہمارے حقوق کے لیے تگ و دو کرے اگر سب خاموش رہے ؛ سب چپی لگاے رہے تو لب کون کھولے گا اور میرے حق میں گواہی کون دے گا کون میرے اہل خانہ کا خیال رکھے گا ؟

اگر ہم نے ان بے قصوروں کا حوصلہ نہ بنے اور مذموم حرکت پر خاطیوں پر نکیل نہ کسی تو بہت سے دل جو ہمارے لیے دھڑکتے ہیں ان کی دھڑکن مدھم ہو جائے گی بہت سی زبانیں جو ہمارے حقوق کے آواز بلند کرتی ہے اس پر مہریں لگ جائے گی جو حوصلہ ہمیں جواں رکھتا ہے وہ سرد پڑ جائے گا آخر کار نہ ہم بولنے کے لایق رہیں گے اور نہ ہی کوئی بولنے والا ہمارے لیے اپنی زبان کھولے گا اس لیے اس پر تمام تنظیموں کو متحدہ پر متحرک ہونا چاہیے اور عوام میں اثر و رسوخ رکھنے والے حضرات بھی اس مسلے کے حل کی راہ تلاش کریں اور ابھرتے جوانوں کا حوصلہ بنیں ..

Comments are closed.