Baseerat Online News Portal

ہم نکل پڑے ہیں: اکیلے اکیلے کہاں جارہے ہو؟

 

ڈاکٹر سلیم خان

پوروانچل  ایکسپریس ہائی وے پرجو مودی جی نے یوگی جی کو پیچھے چھوڑ دیا تو  بات صرف اتنی سی تھی کہ وزیر اعظم نے پروٹوکول کے بہانے وزیر اعلیٰ کو اپنی گاڑی میں نہیں بیٹھایا اس لیے یوگی جی تھوڑا سا پیدل چلنا پڑ گیا۔ یوگی جی کے پیروں میں کون سی مہندی  لگی تھی کہ وہ بگڑ جاتی ۔ وہ سرجھکائے پیچھے  چلتے شہ نشین تک پہنچ  ہی گئے۔  وزیر اعظم تو دور ہر انسان کی مرضی کہ  وہ جس کو چاہے اپنی گاڑی میں بیٹھنے کا موقع دے اور جسے چاہے نہ دے اس میں کون سی بڑی بات  ہے؟ ویسے بھی مودی جی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اہانت آمیز سلوک کرتے رہتے ہیں اور ان کے ہمنوا اسے خوشی خوشی سہتے بھی رہتے ہیں ۔ یہ آپس کا معاملہ ہے،  جب سہنے والا اسے سعادت سمجھتا ہو تو کسی اور کو شکایت کی کیا ضرورت؟ عام دنوں میں تو یہ حرکت نظر انداز ہوجاتی  ہے لیکن جب انتخاب سر پر ہو تو ایسا نہیں ہوتا ۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ  یوگی جی کے ساتھ بدسلوکی کا نہ تو خودان  پر اور نہ ان کے کسی شیدائی پر کوئی اثر ہوا بلکہ اس کو سب سے بدترین حریف اکھلیش یادو نے محسوس کیا۔  انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے درد کا اظہار اس بھونڈی تک بندی کے ساتھ یوں   کیا کہ:

تم نے ہماری آو بھگت کا اچھا صلہ دیا                               جنتا سے پہلے تم نے ہی ہمیں ’پیدل ‘ کردیا

نارد منی کا کردار ادا کرنے والے اکھلیش  نے پہلے تو زخم لگایا اور پھر اس پر نمک پاشی کرتے ہوئے یہ بھی لکھ دیا کہ ’بڑے بے آبرو ہوکر ان سڑکوں سے ہم گزرے‘۔  اس کے ساتھ سابق وزیر اعلیٰ نےپیچھے چلنے والی  ویڈیو بھی منسلک کردی ۔ پھر توایک طوفان برپا ہوگیا۔ عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان سنجے سنگھ  نےچٹکی لی  ’’یہ تو بالکل  ہی بے عزتی ہے مودی جی خود تو آپ عالیشان گاڑی میں بیٹھ گئے اور ہمارے موکھیا منتری جی ( وزیر اعلیٰ) سڑک پر اکیلا چھوڑ دیا‘‘ ۔   سبکدوش آئی اے ایس افسر سوریہ پرتاپ سنگھ کو بھی اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع مل گیا تو انہوں نے لکھا’وہ لاچار سا پیچھے دوڑتا رہا ۔ آخر کیوں؟ بابا تو پیدل ہوگیو(گئے)‘۔ کانگریس کے رہنما شری نواس نے کہا ’ 2022 کی     ایک تصویر۰۰۰‘۔ انوراگ ورما نے اپنے انداز میں تبصرہ کیا ’ یہ سنسکار(اقدار)  جو آپ میں نہیں ہے‘۔  معروف صحافی روہنی سنگھ نے تو حدکردی ۔ انہوں نے یہ فلمی نغمہ لکھ دیا؎

اکیلے اکیلے کہاں جارہے ہو                            ہمیں ساتھ لے لو جہاں جارہے ہو؟

اتنا کچھ ہوجانے کے بعد مودی جی کو خیال آیا کہ  اس کٹیا سے پھیلنے والی آگ تو ساری بستی  خاکسترکر دے گی ۔   اس کے بعد نقصان بھرپائی (damage control) کی مشق کا آغاز ہوا۔  وزیر اعظم مودی نے جب قلیل عرصے کے اندر  ساتویں مرتبہ  ڈائرکٹر جنرلس آف پولیس کے قومی  اجلاس میں شرکت کے لئے لکھنؤ کا قصد کیاتو  یوگی کے شانے پر ہاتھ رکھ کر چلتے ہوئے دکھائی دیئے۔  مودی  کی جو دو تصاویر ذرائع ابلاغ کی زینت بنائی گئیں ان میں سے ایک میں  مودی جی پیچھے سے مفلر اوردوسری میں  آگے سے شال اوڑھے  دکھائی دیئے۔ یعنی پھر وہی آگے اور پیچھے کا فرق واقع ہوگیا۔ یہ تصویر  انڈین ایکسپریس  کے صفحۂ اول  جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی جبکہ خبر کو دوسرے صفحے پر ڈالنا پڑا۔اس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ  بے نامی اشتہاررہا ہو۔ان  دلچسپ تصاویرکے  ساتھ  یوگی جی نے اپنے  ٹوئٹر ہینڈل پریہ  بھونڈی تک بندی  بھی منسلک کردی کہ؎

ہم نکل پڑے ہیں پرن(عہد) کرکے، اپنا تن من ارپن(قربان) کرکے۔

ضد ہے ایک سوریہ(سورج) اگانا ہے۔ امبر(آسمان) سے اونچا جانا ہے۔ ایک بھارت نیا بنانا ہے

یوگی جی جہاں جانا چا ہیں اس کے لیے وہ  آزادہیں  لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اول  تو انسان آسمان  سے آگے نہیں  جا سکتا ہےا ورچلا بھی جائے تو واپس نہیں آسکتا ۔ یہ تو صرف فلموں میں ہوتا ہے ’چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو‘ اس کے جواب میں مودی  جی کبھی نہیں کہیں گے’ہم ہیں تیار چلو‘۔  ویسے نیا سورج اگانا بھی  ناممکن  ہے۔  اس حادثے نے یوگی جی کو سادھو سے شاعر بنادیا لیکن مخالفین نے پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑا ۔  سماج وادی پارٹی  کے سربراہ اکھلیش یادو نے یوگی۔مودی کی تصویر کا ذکر کئے بغیر ہی شاعرانہ انداز میں ٹوئٹ کر کے طنز کسا۔ ’دنیا کی خاطر سیاست میں کبھی یوں بھی کرنا پڑتا ہے۔ بے من سے کندھے پر رکھ ہاتھ کچھ قدم سنگ چلنا پڑتا ہے‘۔ اس کے جواب میں بی جے پی نے اکھلیش کا ایک پرانا ویڈیو شیئر کیا جس میں وہ  غصے میں اپنے والد ملائم سنگھ یادو سے مائیک چھنتے نظر آتے ہیں اور  کے ساتھ لکھ دیا ’گدی چھیننے کے لئے سیاست میں پارٹی کو یوں بھی ہتھیانا پڑتا ہے۔ والد، چچا جو بھی ہوں ان کو درکنار کرنا پڑتا ہے’۔ سماجوادی پارٹی کی  چپقلش نےتو اسے  اقتدار سے محرومکیا مگر   کیا اب بی جے پی کے وہی کہانی ساتھ دوہرائی جائے گی؟   

یہ سارے نتازعات وزیر اعظم کے بار بار دورے سے پیدا ہورہے ہیں۔ مغربی بنگال کی ہار کے بعد آر ایس ایس نے ان  کو صلاح دی تھی کہ ریاستی انتخابات سے خود کو دور رکھیں’لیکن دل ہے کہ مانتا نہیں‘۔ ویسے اب جن صوبوں میں  الیکشن ہونے جارہا ہے ان میں اترپردیش بھی  شامل ہےاس لیے  وزیر اعظم کے لیے خود کو قابو میں رکھنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے سنا ہے  مودی جی  50؍ انتخابی جلسوں میں شریک ہوں گے۔ اس جوش اور ولولہ کی پہلی وجہ  تو یہ ہے کہ وزیر اعظم کا حلقۂ انتخاب وارانسی اتر پردیش میں ہے۔ ان کا تعلق اب  گجرات سے کم اور اترپردیش سے زیادہ ہوگیا ہے یعنی جنم بھومی پر  کرم بھومی  نے فوقیت حاصل کرلی ہے۔  ویسے کون نہیں جانتا کہ  دہلی کے تخت کا راستہ اترپردیش سے ہوکر جاتا ہے ۔سب سے بڑا صوبہ ہونے کے سبب وہاں سب سے زیادہ حلقۂ انتخاب ہیں۔بی جے پی  کے اقتدار کا دارومدار اسی ریاست پر ہے کیونکہ   پچھلے 3؍ انتخابات  میں یوپی کی  زیادہ تر نشستوں پر بی جے پی کو کامیابی ملی  ہے۔اس لیے اپنی دیگر ذمہ داریوں کو فراموش کرکے وزیر اعظم  یو پی کی  انتخابی مہم میں تن من دھن کے ساتھ جٹ گئے ہیں۔ یہ ان کی اولین ضرورت کے ساتھ پسندیدہ مشغلہ بھی ہے۔

وزیر اعظم کے دست راست وزیر داخلہ کے ذریعہ ان کےبدترین حریف یوگی ادیتیہ ناتھ کو دوبارہ  کامیاب کرنے کا جواز  دراصل اس حقیقت کا مظہر ہے۔ انہوں نےجب  کہا کہ  2024 میں وزیر اعظم مودی کو کامیاب کرنے کے لیے   2022 میں پھر سے یوگی کو وزیر اعلیٰ بنانا ضروری ہےتواس کا صاف مطلب  یہ ہوا کہ  اگرآئندہ سال  یوگی انتخاب ہار جاتے ہیں تو پھر مودی کا دوبارہ وزیر اعظم بننا مشکوک ہوجائے گا ۔  یعنی  یوگی کو اس لیے کامیاب نہ کیا جائے کہ وہ بہت قابل رہنما ہیں یا انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے  سرکارچلائی ہے بلکہ مودی کی راہ ہموار کرنے کے لیے انہیں دوبارہ وزیر اعلیٰ بنادیا جائے۔  یہ بات امیت شاہ نے اپنے کارکنان کےسامنے کہی مگر اس کو پورے ملک کے عوام نے دیکھا اور سنا۔  2014 میں جب مودی نے انتخاب جیتا تواس وقت اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت نہیں تھی اس کے باوجود وہ کامیاب ہوگئے لیکن اب یہ مجبوری ہے کہ اگر 2022میں پھر سے اکھلیش یادو وزیر اعلیٰ بن گئے تو ان  کا اقتدار خطرے میں پڑ جائے گا۔ یہ کھلا اعتراف ہے کہ مودی جی کی مقبولیت میں خاطر خواہ کمی آئی  ہے ۔ایک زمانے میں  دوسرے  لوگ ان کے سہارے انتخاب جیتاکرتے تھے اب انہیں خود بیساکھی کی ضرورت پیش آرہی ہے۔

اتر پردیش کے اندر بی جے پی پر دباو  کا اندازہ انتخابی  حکمت عملی  طے کرنے کی خاطر دہلی میں بلائی جانے والی نشست کے فیصلوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس میٹنگ میں وزیر اعظم ، وزیر داخلہ اور قومی صدر جے پی نڈا    کے علاوہ راجناتھ سنگھ بھی موجود تھے ۔ اترپردیش سے ریاستی صدر سوتنتر دیو سنگھ کو تو بلایا گیا تھا مگر وزیر اعلیٰ کو زحمت نہیں دی گئی۔ یہ  بھی ایک  توہین ہے کہ جب ریاست کی انتخابی مہم کا منصوبہ بنایا جائےتو وزیر اعلیٰ کو  اس  سے دور رکھا جائے۔ یوگی جی کو چاہیے کہ ان اشاروں کو سمجھیں۔ قومی سطح پر نمودارہونے کے بعد مودی جی نے اتر پردیش میں دو قومی اورایک ریاستی انتخاب کی کمان سنبھالی ۔  ان تینوں  انتخابات میں واحد نگرانِ کار امیت شاہ تھے ۔  اس لیے  کہ مودی  کی موجودگی کو انتخابی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔  خود اعتمادی کا چونکہ خاتمہ ہوچکا ہے اس لیے  ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ہر ایک کا الگ  نگرانِ کار مقرر کیا گیا ہے۔  مشرقی یوپی جو یوگی ادیتیہ ناتھ کا علاقہ ہے جے پی نڈا کے زیر نگرانی ہوگا ۔وسطی یوپی کی نگرانی  راجناتھ سنگھ کو سونپی گئی اور مغربی یوپی میں جہاں کسان تحریک نے بی جے پی کا ناطقہ بند کردیا تھا امیت شاہ کے حوالے کیا گیا لیکن اس کے فوراً بعد وزیر اعظم نے کسانوں کے آگے جھک کر سیاہ زرعی قوانین واپس لے لیے ۔  بی جے پی کی حالت اگر پتلی نہ ہوتی تو وزیر اعظم کبھی بھی یہ ذلت برداشت نہ کرتے۔ 

مشرقی اترپردیش  میں سڑک کا افتتاح کرنے  کےتین دن بعد وزیر اعظم وسطی یوپی میں جھانسی کے دورے پر نکل  کھڑے ہوئے۔  وہاں پر مہوبہ میں وہ آبی پروجیکٹ کا افتتاح کریں گے۔  اس میں ارجن سہایک اسکیم،رتولی ویر پروجیکٹ ، بونی کا بند  اورماجھگاوں مرچ میں چھڑکاو اسکیم بھی شامل ہے۔ یعنی سڑک کے بعد اب پانی کی فراہمی پر توجہ دی جائے گی۔  اس کے علاوہ خودکفالت کو فروغ دینے کی خاطر وہ اسلحہ بنانے والے سرکاری کارخانہ ہندوستا ن ائیرونوٹیکس لمیٹیڈ  کے تیارکردہ لائٹ کمباٹ ہیلی کاپٹر فضائی  فوج کے سربراہ کو سونپیں گے۔  بری فوج کے سربراہ کو ہندوستان میں بنے ڈرون دئیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ بھارت الیکٹرونکس لمیٹیڈ نے جو ترقی یافتہ جنگی آلات بنائے ہیں انہیں بحری سربراہ کےحوالےکیا جائے گا۔  اس بہانے سے گویا تینوں فوج کے سربراہوں کی موجودگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ انتخابی مہم میں فوج کے بلاواسطہ استعمال کا یہ آغاز ہے۔ وزیر اعظم کو انتخاب سے قبل تو سودیشی کمپنیاں یاد آتی ہیں لیکن بعد میں جب رافیل کے ساتھ ملک کے اندر سازوسامان بنانے کا معاہدہ ہوتا ہے تو وہ ٹھیکہ انل امبانی کے حصے میں چلا جاتا ہے۔ ہندوستان کے بھولے بھالے رائے دہندگان کو جس دن یہ منافقت سمجھ میں آجائے گی سرکاروں کا دماغ ازخود ٹھکانے آجائے گا۔ 

Comments are closed.