Baseerat Online News Portal

ہندوستان کے مسلمانوں کے بنیادی مسائل اور انکا حقیقی حل  مفکراسلام حضرت مولانا ابوالحسن ندوی کی تحریروں کی روشنی میں

 

محمدانتخاب ندوی

*باب اول

*ہندوستان اور مسلمان

مسلمانوں نے ہمیشہ اس ملک کو اپنا وطن،اپنا گھر،اور اپنادائمی قیام گاہ سمجھا،انھون ہمیشہ اس ملک کو اپنی ثروت سمجھتے ہوۓ اپنی بہترین صلاحتیں اور خدا داد قابلیتیں صرف کردی؛

مسلمانوں کی آمد سے پہلے یہ ملک تہذیبی لحاظ سے متمدن دنیا سے عرصہ دراز سے بالکل الگ تھلگ تھا،جسکا انداز بابر کی مندرجہ ذیل تحریر سے کیا جاسکتا

ہندستان میں لطافت کم ہے لوگ نہ سی نہیں نہ میرا جوڑ کے اچھے نون کا ادراک اعلی درجے کا ہے نہ ان میں مروت مہربانی اور ادب ہے ہنر و اور کاموں کی ترتیب بھی اچھی نہیں گھوڑا یہاں اندھا نہیں ہوتا ہے گوشت اچھا نہیں ہوتا ہے خربوزے اور میوہ اچھے نہیں ہوتے ہیں عوام ننگے پاؤں پھرتے ہیں نعت سے دو مٹھی نیچے کپڑا بنتے ہیں اسکول لنگوٹھا کہتے ہیں یہ ایک اڑا کپڑا الٹا ہوا ہے اس کے نیچے کا اڑا کونا لٹکتا رہتا ہے اس کا دوسرا کونا اور ہے عورت ایک لونگی باندھتی ہے

*بحوالہ تزک بابری بابر نامہ* *ص٣٥٣*

لیکن مسلمانوں نے اسے ایک نیا، مبنی برعقل وحکمت اور عملی دین دیا،پختہ علوم، ترقی یافتہ تمدن،شائستہ تہذیب اور متعدد تہذیبوں کے قیمتی تجربات سے آراستہ کیا،مسلمانوں نے سب سے نئ اور قیمتی تحفہ توحید کے بعد اسلامی اخوت ومساوات کا اس ملک کو دیا جسکی گواہی پنڈت جواہر لال نہرونے ان الفاظ میں دی ہے

"شمال مغرب سے آنے والے حملہ آوروں اور اسلام کی آمد ہندوستان کی تاریخ میں کافی اہمیت رکھتی ہے، اس نے ان خرابیوں کو جو ہندو سماج میں پیدا ہو گئی تھی یعنی ذاتوں کی تفریق،چھوت چھات اور انتہا درجے کی خلوت پسندی کو بالکل آشکارا کر دیا،اسلام کے اخوت کے نظریے اور مسلمانوں کی عملی مساوات نے ہندوؤں کے ذہن پر بہت گہرا اثر ڈالا خصوصا وہ لوگ جو ہندو سماج میں برابری کے حقوق سے محروم تھے اس سے بہت متاثر ہوئے

*ملاحظہ تلاش ہند ص٥٢٥*

*باب دوم*

*مسلمانان ہند کی موجودہ صورت حال پر ایک اجمال نوٹ*

اس وقت ہمارا ملک ہندوستان جو صدیوں تک اسلامی اقتدار عزت و شرف اور اسلامی علوم و فنون کا مرکز رہا ہے،جسکا بنیادی اصول جمہوری (Democratic)اورنامذھبیت (Sccular) ہمیشہ سے رہا ہے یہاں بھائ چارہ بقاۓ اہم اور امن وامان کی حکمرانی رہی ہے مگر اب ان اصولوں کو پامال کیا جارہاہے،جنکے لیے ٧٥٨١؁ سے٧٤٩١؁ تک جنگ آزدای لڑی گئ اور اسکے لیے بڑی بڑی قربانیاں دی گئیں اسمیں مسلمانوں نے صرف حصہ لیا بلکہ اسک قیادت کی اور اسکے لیے سب زیاد قربانیاں پیش کیں،جیساکہ مفکراسلام حضرت مولانا علی میاںؒ نے اپنی مشہور کتاب *ہندوستانی مسلمان* (ایک تاریخ جائزہ)میں مفصل انداز میں روشنی ڈالی ہے،مگر افسوس آج وہ مسلمان آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں،شر پسند عناصر انکے خلاف زہر اگل کر نئ نسل کے اذھان کو مسموم کررہے ہیں،ہزاروں سال پرانی گنگا جمنی تہذیب کے مسلمانوں کو گاؤوں خالی کرنے دھمکیاں دی جارہی ہیں،ملک کو اسکے سکولرزم اور جمہوریت کی راہ اور ڈگر سے ہٹا ہندوراسٹریہ بنانے کا خواب تنگ نظرلوگ دیکھ رہے ہیں وہ اس ملک میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں بے دست وپا کرنے کی کوشش کررہےہیں، دیوبنداور علی گڑھ جیسے قدیم شہروں کے نام تبدیل کرنے کی ناپاک سازشیں کی جارہی ہیں،بلکہ کئ شہروں کے نام توبدلے بھی جاچکے ہیں اور اس بھی بڑا اور کیا ظلم ہوسکتا ہےکہ میرٹھ کی میونسپل کارپوریشن میں وندے ماترم نہ پڑھنے پر عوام کے ووٹوں سے منتخب شدہ مسلم نمائندوں کی ممبر شپ کو ختم ختم کرنے کا اعلان کیا جانے لگا، گاؤکشی کے نام پرمسلمانوں میں دہشت پھیلائ جارہی ہے، تعلیم گاہوں؛ اورثقافتی اداروں میں ہندی زبان،اور ہندی رسم الخط ہندو ثقافتCultures اور تعلیم گاہوں میں ہندو دیو مالاHindumithology کی تعلیم نافذ کرنے کی سازش کی جارہی ہے جس سے یہ ملک نہ جمہوری شکل میں قائم رہا اور نہ ہی مذہبی بلکہ ملک ایک واحد وہ منفرد مذہب، ثقافت، زبان،رسم الخط کا حامل اور مذہبی عصبیت اور منافرت کا شکار ہو چکا ہے،مسلمان شدید مذہبی منافرت اور تعصب تہذیبی و ثقافتی محاذ آرائیconfrontation کا شکار بنایا جا رہا ہے پھر نصاب تعلیم صحافتPress اور ابلاغ عامہPublic Madia کے ذریعے مسلمانوں کی آئندہ نسل کو اولا تہذیبی و ثقافتی ارتداد، ثانیا ایمانی و اعتقادی ارتداد کا شکا بنانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہےجسکا نتیجہ ہے آج مسلمانان ہند کو ملک ہندوستان میں اپنی زندگی کا تسلسل جسمانی وجود عزت و آبرو مساجدومدارس اور صدیوں کا دینی و علمی اثاثہ اور قیمتی سرمایہ بھی خطرات کے بادل منڈلاتے نظرآرہے ہیں اس صورتحال کی اگر کوئی مثال پچھلی تاریخ مل سکتی ہے تو وہ ساتویں صدی ہجری میں تاتاریوں کا ترکستان ایران اور عراق پر حملہ ہے الحاکم اسباب سے سو فیصد متفق ہے کہ مسلمان ہیں جن مصائب و مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں بعض خود ان کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہے اور بعض پچھلی تاریخ کا بقایا ہم یہاں مسلمان ہند کی چند مخصوص مسائل اور اہم مشکلات کا تذکرہ کریں گے جو دھیمی آنچ کی طرح مسلمانوں کی ملی بھگت کے لیے ُخطرہ بنے ہوئے ہیں اور ساتھ ساتھ ان کا بہترین حل مفکراسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی کی تحریر و تقریر اور مکتوبات کی روشنی میں پیش کریں گے“

Comments are closed.