آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں کے ساتھ سلوک

شاداب انظار ندوی
پاکٹولا سیتامڑھی
اسلام دنیا کا واحد ایسا مذہب ہے جس نے تمام مخلوق کو اسکا حق دیا ہے ۔کیونکہ آپؐ پورے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھجے گئے ہیں اللہ رب العزت نے قرآن میں فرمایا (وماارسلناک الا رحمةللعالمین )ہم نے محمدؐ کو پورے عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔ آپ کی شفقت ورحمت کو پوری دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔حدیث کی کتابوں میں ہزاروں ایسے وقعات موجود ہیں جس سے آپؐ کی رحمت وشفقت جھلکتی ہے
۔ ۔ یہی وجہ ہے کے آپؐ کی شفقت بچوں پر ایسی تھی کے اگر نماز میں ہو تے اور کسی بچے کے رونے کی آواز کانوں میں جاتی تو نماز ہلکی کر دیتے ۔یہ ہمارے لئے تعلیمی پیغام ہے کے ہم اپنے بچوں کا خیال کیسے رکھیں اسکے ساتھ محبت والفت کیسی ہونی۔ چاہئے
۔ آپؐ کا ارشادے گرامی ہی ( من لم یرحم صغیرنا ولم یوقر کبیرنا فلیس منا) جو چھوٹوں پہ رحم نہیں کرتا بڑوں کی قدر نہیں کر تا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔اس حدیث سے ثابت ہو تا ہے کے ہر کسی کا اپنا حق ومرتبہ ہو تا ہے ۔چھوٹوں پر شفقت اور رحم کی تعلیم دی کیونکہ وہ ننہی سی جان کو اچھی بری چیز کی تمیز نہیں ہے اسکو پتا نہیں ہے کونسا کام اچھا ہے کونسا برا اسلئے اسکو۔ جو اچھا لگتا ہے کر دیتا ہے ۔۔اب ہماری ذمداری یہ ہے کے ہم اس پر غصہ اور ظلم وزیادتی کے بجائے حسن اخلاقی سے اچھی اور بری چیزوں کا فرق بتائں تاکے وہ بچہ آپ سے ڈرنے کے بجائے آپ سے اچھی بری چیزوں کے بارے مین سوال کرے تاکہ اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو اور آپ آپ نے سکھایا ہے وہ لوگوں کے سامنے پُر اعتماد ہوکر رکھ سکے ۔اور اگر آپ کا غصہ یا ترش روی اس کے ذہن و دماغ پر بیٹھ گیا تو وہ بزدل اور ڈرپوک ہو جائے گا ۔اسلئے آپ نے بچوں کے ساتھ حسن سلوک اور محبت کا برتاؤ فرمایا ہے
اقرع بن حابس نے دیکھا کہ آپ ں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو چوم رہے ہیں، یہ دیکھ کر کہنے لگے کہ حضور میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی کسی کو نہیں چوما، آپ ں نے فرمایا (من لا یرحم لا یرحم) : جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا (بخاری: ۵۹۹۷، باب رحمة الولد وتقبیلہ ) ایک د فعہ آپ حضرت حسن کو چوم رہے تھے ایک دیہاتی نے حیرت کا اظہار کیا تو فرمایا کہ اگر اللہ نے تیرے دل سے رحمت کو نکال دیا تو میں کیا کرسکتا ہوں۔(بخاری: ۵۹۹۸ باب رحمة الولد وتقبیلہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ اپنی اولاد سے خود محبت فرمائی؛ بلکہ امت کو بھی اس کی تعلیم دی، اور رحیمانہ سلوک کے ترک پر دھمکی دی کہ وہ شخص عند اللہ بھی قابلِ رحم نہیں، لہٰذا بچوں کے ساتھ مشفقانہ برتاوٴ ہمارا وطیرہ ہونا چاہیے، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں: ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ کے گھر کے صحن میں بیٹھ کر حضرت حسن کے بارے میں دریافت کیا، تھوڑی ہی دیر میں وہ آگئے، آپ نے انھیں گلے سے لگایا، بوسہ دیااور فرمایا: اے اللہ! میں حسن سے محبت رکھتا ہوں تو بھی حسن سے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھ (بخاری: ۳۷۴۹، باب مناقب الحسن)جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کا انتقال ہوا تو ان کی صاحبزادی امامہ سے آپ بہت زیادہ محبت کا اظہار فرماتے، ان پر بہت زیادہ شفقت فرماتے، بعض دفعہ اپنے ساتھ مسجد بھی لے آتے، وہ آپ ں پر حالت ِ نماز میں سوار بھی ہوجاتیں، جب آپ سجدہ میں جاتے تو انھیں نیچے اتار دیتے، جب قیام فرماتے تو کاندھے پر سوار فرمالیتے(بخاری: ۵۱۶ باب إذا حمل جاریة صغیرة)
بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں کے پاس آتے، انھیں گود میں بٹھاتے، انھیں چومتے ان کے لیے دعا فرماتے، آپ ں نے اپنے نواسوں کے ذریعہ اپنی آل واولاد کے ساتھ رہنے کا طریقہ سکھلایا۔
ؤ
دیگر بچوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بچوں کے ساتھ صحابہ کے بچوں سے بھی بے حد شفقت فرماتے تھے
ابو موسی اشعری فرماتے ہیں کہ میرے گھر ایک لڑکا پیدا ہوا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے در پر حاضر ہوا، آپ ں نے اس کا نام ابراہیم رکھا، کھجورسے اس کی تحنیک (گھُٹّی) فرمائی، اور اس بچے کے لیے برکت کی دعافرمائی، (بخاری: ۵۴۶۷ باب تسمیة المولود) یہ ابو موسی اشعری کے بڑے صاحبزادے تھے، حضرات صحابہٴ کرام کی عادتِ طیبہ یہ تھی کہ کسی کے گھر بھی ولادت ہوتی تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آتے آپ بچے کو لیتے، اسے چومتے اس کے لیے برکت کی دعا کرتے، اسی طرح جب بعض دفعہ دورانِ نماز بچے کے رونے کی آواز آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تخفیف فرمادیتے، (بخاری: ۷۰۷ باب من أخف الصلاة عند بکاء الصبی)
اسی طرح ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام خالد کو بلایا، بذاتِ خود اس لڑکی کو خصوصی قمیص پہنائی، اور فرمایا: اس وقت تک پہنو کہ یہ پُرانی ہوجائے(بخاری: ۵۸۲۳ با ب الخمیصة السوداء) ایک دفعہ آپ نے ایک بچے کو گود میں اٹھالیا، بچے نے کپڑے پر پیشاب کردیا، آپ نے اس پر پانی بہا کر صاف کرلیا، (بخاری: ۶۰۰۲ با ب وضع الصبی فی الحجر) حضرت انس فرماتے ہیں کہ میرا ایک چھوٹا بھائی تھا، اس کانام ابو عمیر تھا، (اس کے پاس ایک چڑیا تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ابو عمیر سے فرمانے لگے: ”یَا أبَا عُمَیْر! مَا فَعَلَ الْنُغَیر؟“ یعنی اے ابو عمیر تمہاری چڑیا کیا ہوئی؟ (بخاری:۶۱۲ باب الانبساط إلی الناس) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشغولیت ومصروفیت کے باوجود صحابہٴ کرام کی اولاد کے ساتھ نرمی، محبت، انسیت اور الفت کا معاملہ فرماتے، انھیں خوش کرنے کی ترکیبیں اپناتے، ان کے پرندوں کے تئیں استفسار کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کردہ اس محبت بھرے جملے سے فقہاء عظام نے کئی مسائل نکالے ہیں۔
الغرض آپ علیہ السلام نے اپنے قول وعمل سے معاشرہ کے ایک کمزور طبقہ پر رحم وکرم کے عجیب وغریب نمونے پیش فرمائے، آنے والی امت کو تلقین کی کہ اس طبقہ کا لحاظ کرو، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی سے پرہیز کرو؛ کیونکہ یہی بچے مستقبل کے اثاثہ ہیں، ان بچوں کے ساتھ حسنِ سلوک ان کی صحیح انداز میں تربیت روشن وتابناک مستقبل کی ضامن ہوگی، ابتدائی مراحل میں بچوں کے ساتھ بے اعتنائی وبے احتیاطی بچوں کے لیے غلط راہیں فراہم کریں گی، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرہ میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا خاتمہ کر کے سیرتِ طیبہ کی روشنی میں بچوں کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے!
Comments are closed.