جو ظلم کے خلاف نہ بو لوگے__!!!

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043
ظلم ایک متعدی عمل ہے، جن ہاتھوں سے ظلم ہو وہ بھی شل ہوتے ہیں، اور جنہوں نے اسے نہ روکا، تماشائی بنے دیکھتے رہے وہ بھی اس کی چپیٹ میں آتے ہیں، اسی ظلم کے خلاف ہر ایک کو بولنے، اٹھنے اور کچھ کر جانے کا حکم ہے، انسان اپنی طاقت و خون کا ایک ایک قطرہ صرف کرے؛ لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ انسانیت کو بحال کرے، ظالم کی کلائی مروڑ دے، ظلم کی بیخ کنی کردے. اسلام میں جہاد کا حکم بھی دراصل اسی پس منطر میں ہے، یہ اتنی عام، قابل فہم اور لاجیکل بات ہے کہ ہر زمانے میں اس پر عمل ہوتا رہا ہے، زمانہ جاہلیت کی گھٹاٹوپ اندھیری میں بھی حلف الفضول کا علم اٹھائے وہ جاہلی بربرتا کے جلاف سینہ سپر تھے؛ لیکن افسوس آج کا دور مصیبت زدہ کے ساتھ ویڈیوز نکالنے، فوٹو بنانے کا ہے، بالخصوص مسلمانوں نے ہندوستان میں اپنی یہی پہچان بنالی ہے، وہ ایک صوبہ میں فتنہ و فساد دیکھتے ہیں، ان کی نظروں کے سامنے مسلمان کا خون رستا رہے، غنڈے، بدمعاش اور سیاسی قاتلین سر کاٹتے رہیں، مگر وہ زبان کاٹ لیتے ہیں، کیا مجال کہ کوئی کچھ بولے __! یہاں تک کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح پوری حکومت، نظام اور آئین مسلمانوں کا استحصال کر رہی ہے اور انہیں جڑ سے اکھاڑنے کے درپے ہے؛ مگر وہ پیر توڑ کر بیٹھے بیٹھے دعا کرتے ہیں، ابابیل کے لشکر کا انتظار کرتے ہیں،اور اپنے منہ پر تالا ڈالے ہوئے نگاہیں بچھائیں رہتے ہیں کہ اس لگائی گئی آگ کی آنچ ان کے گھر تک آئے، تب سوچا جائے گا، ورنہ سب خیریت ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہندوستان کا چپہ چپہ مسلمانوں کی بدنصیبی پر گواہ ہے، ہر جگہ مسلمانوں کی جان کو خطرہ ہے، یہ سب ہمارے ہی ہاتھوں لگائے گئے پود کا ثمرہ ہے، ہم نے ہی ظلم کو سر اٹھانے کا موقع دیا، اسے پنپنے کی اجازت دی، اس کے خلاف ڈٹ جانے کے بجائے لاغری اور لاتعلقی کا اظہار کیا، حالانکہ قرآن نے قصاص کا حکم نقل کرتے ہوئے، اسی میں انسانی معاشرے کی زندگی و بقا کی ضمانت دی، یعنی اگر ظالم کو سزا نہ دی گئی تو معاشرے کی بنیاد ہل جائے گی، اور اس ایک ظالم کی وجہ سے پورا معاشرہ ظلم کا شکار ہوجائے گا، غرض یہ کہ آزادی ہند کے ساتھ مسلمانوں کو سب سے پہلے نشانہ بناتے ہوئے کشمیر کو جھلسانے کی کوشش کی گئی، ہند و پاک کے درمیان انسانی زندگی وہاں اس قدر سستی ہوگئی کہ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، کہتے ہیں ایک لاکھ سے زائد جانیں ہلاک ہوچکی ہیں، مگر اب بھی امن کا کوئی سراغ نہیں ہے۔
ایک رپورٹ ٤/مارچ ٢٠٢٠ کو نوائے وقت میں شائع ہوئی ہے، اسے پڑھ کر حیران رہ جائیں گے__ اس کے مطابق وادی کشمیرمیں بھارت کی طرف سےمسلط کردہ غیرانسانی لاک ڈاون اور مواصلاتی بندش کے باعث مسلسل 213 ویں روز بھی معمولات زندگی بدستور مفلوج ہیں۔ سڑکیں سنسان، وادی میں دکانیں، کاروبار، تعلیمی مراکز سب بند ہیں اور لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ __ بھارتی فوج نے کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اور ایک کروڑ سے زائد افراد دنیا کی سب سے بڑی جیل میں قید ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی فوج نے گزشتہ ماہ 10 کشمیریوں کو شہید کیا ۔ جبکہ بھارتی کابینہ نے کشمیر میں آبادکاری ایکٹ سمیت 37 قوانین کے نفاذکی منظوری بھی دے دی ہے، مودی سرکار نے علاقوں کے نام بھی تبدیل کرناشروع کردئیے ۔ وادی میں نام نہاد سرچ آپریشن اورپکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔وادی میں خوراک اور ادویات کی قلت بھی برقرار ہے۔ 8 لاکھ سے زائد کشمیریوں کوسخت پریشانیوں کا سامنا ہے۔ ___ کشمیر میں اب تک لگ بھگ 894 بچے شہید ہوچکے ہیں؛ جبکہ 177 ہزار سے زائد یتیم ہوچکے ہیں۔ بھارت نے مظلوم کشمیریوں پر ظلم وبربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے اور ہزاروں کشمیریوں سمیت ___ وادی کی سیاسی قیادت کو بھی جیلوں (گھروں) میں بند کر رکھا ہے۔ وادی میں موبائل فون، انٹرنیٹ سروس بند اور ٹی وی نشریات تاحال معطل ہیں۔ دوسری جانب مودی سرکار کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے میں ناکام ہے، کشمیری کرفیو توڑ کر سڑکوں پر نکل آئے اور بھارت کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کرتے رہے۔ واضح رہے کہ 5/اگست کو مودی سرکار نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اے کو ختم کر کے ___ وادی میں کرفیو نافذ کر دیا تھا اور بھارت نے کشمیریوں کی نقل وحرکت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ یکم نومبر سے بھارتی شہریوں کو ___ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور وہاں رہنے کا حق بھی حاصل ہو گیا ہے۔”
اس رپورٹ میں ممکن ہے کہ کمی و بیشی ہو لیکن بہر کیف حقیقت بہت ہی زیادہ کڑوی ہے، پاکستان کے معروف مفکر اوریا مقبول جان کا کہنا درست ہے؛ کہ مسلمانوں پر اس وقت مظالم کے جو پہاڑ توڑے جارہے ہیں، وہ ان کی کشمیر پر خموشی کا نتیجہ ہے، اسے صرف کشمیر نہ کہیں، اسے مسلمانوں کے خلاف کارروائی کا مقدمہ جانیں، اس کے بعد بھی مسلمانوں کی یہ کیفیت ہوگئی؛ کہ وہ مظالم کو مسافت میں ڈھونڈنے لگے، دربھنگا، بابری مسجد، گجرات، مظفر نگر اور پھر دہلی میں مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہا، خود حکومت کی ماتحتی انہیں حاصل رہی؛ لیکن متحدہ پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اسے روکنے اور ظلم کے خلاف سیسیہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہونے کی اب تک نوبت نہ آئی، کبھی مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ ایک کمزور مسلم پر ظلم ہونے کی صدا سنتے ہی سندھ کی حدیں پار کر دیتا تھا، معموریہ میں گھس جاتا تھا، اور پوری حکومت و سلطنت کو تہس نہس کر دیتا تھا، اب وہ حکمتیں تلاش کرتا ہے، کہتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ الگ ہے، گجرات کی بات الگ ہے، دہلی میں سیاست ہورہی ہے، وغیرہ__ مگر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ کل کو یہی چنگاری تمہارے گھر کے پاس بھی لگ سکتی ہے، تمہیں بھی کشمیر کی طرح قید وبند کیا جاسکتا ہے، بھول گئے محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور فاروق عبداللہ کو جنہیں اپنے تحفظات پر گھمنڈ تھا، جو کشمیر کو ہندوستان سے جوڑنے ہر فخر محسوس کرتے تھے، آج وہی عذاب میں شامل ہیں، آزاد سانس لینے کو ترس رہے ہیں، انہیں ملک کا غدار کہا جاتا ہے، سمجھ لیجیے اگر وقت رہتے ہوشیار نہ ہوئے؛ تو ممکن ہے کہ آپ بھی قید کر لئے جائیں، اور آزادی و جمہوریت پر اتراتے ہوئے خود ہی بے موت مارے جائیں۔
05/03/2020
Comments are closed.