نوٹ بندی کی طرح دیش بندی بھی ایک غیر دانشمندانہ اور جلد بازی میں اٹھایاگیا قدم

رفیع اللہ قاسمی
ہمارے ملک پر ایک وقت ایسا بھی گزر چکا ہے جب اچانک پانچ سو اور ایک ہزار کے قیمتی نوٹوں کو بے قیمت بنا دیا گیا تھا۔ دنیا اسے نوٹ بندی کے نام سے جانتی ہے۔ نوٹ بندی کا مقصد کیا تھا؟ مقصد کس حد تک حاصل ہوا؟ نوٹ بندی کامیاب قدم تھا یا ناکام؟ ان سوالوں کے جوابات سے ملک کا ہر شہری بخوبی واقف ہو چکا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نوٹ بندی کا فیصلہ ہر اعتبار سے ناکام اور نقصان دہ ثابت ہوا، اس فیصلے نے ملک کی معیشت کی کمر توڑ دی، لاکھوں خاندانوں کو بلا وجہ پریشان کیا گیا اور حاصل کچھ نہیں ہوا ۔
کورونا کے قہر کی وجہ سے پہلے ایک دن 22 مارچ کے عوامی کرفیو کا اعلان کیا گیا. پورے ملک سے شام پانج بجے تھالی، تالی اور گھنٹی بجانے کی اپیل کی گئی، ابھی لوگ تالی اور تھالی بجا ہی رہے تھے کہ 22 کو ہی شام چار بجے اچانک پورے ملک میں ٹرانسپورٹ کی تمام سروسز بشمول ٹرین بند کر دی گئیں. پھر 24/ مارچ رات 8/ بجے مودی جی اچانک آے اور 21/ دن کی دیش بندی کا اعلان کر دیا۔
یہ دیش بندی اور لاک ڈاون ضروی تھا یا نہیں اور پھر یہ اپنے مقاصد میں کس حد تک کامیاب ہوا؟ اس پر ابھی گفتگو قبل از وقت ہوگی۔ لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ یہ ایک ایسا قدم تھا جس کی پہلے سےتیاری بالکل نہیں کی گئی تھی۔ اس کا اعلان بھی رات کے 8/ بجے ہوا جبکہ ملک کا دیہاتی طبقہ تقریبا سو چکا ہوتا ہے یا سونے کی تیاری کرتا ہے۔ شہری طبقے کو صرف چار گھنٹے کا موقع ملا کہ وہ ادھر سے ادھر ہو سکے۔
وہ ملک جس میں ایک سو تینتیس کروڑ سے زائد انسان بستے ہوں۔ جس ملک کی پانچ فیصد آبادی(تخمینہ) ہمیشہ سفر میں رہتی ہو۔ دس فیصد آبادی (تخمینہ) اپنا گھر بار چھوڑ کر روزی روٹی کے لیے آبائی وطن سے دور پردیش میں رہتی ہو۔ جہاں 800/ ملین غریب لوگ بستے ہوں۔ جہاں لاکھوں مزدور ایسے ہوں جو روزانہ کنواں کھودتے اور پانی پیتے ہوں۔ ہزاروں طلبہ و طالبات مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کررہے ہوں۔ ایسے حالات میں اپنے شب و روز گزارنے والے ملک بھارت کے کروڑوں باشندوں کواچانک لاک ڈاون کی وجہ سے کن مشکلات کا سامنا ہوگا بس اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے؟ سفر میں ابھی کون کہاں ہے؟ کام کے بند ہونے پر مزدوروں کی زندگی کیسے گزرے گی؟ یونیورسیٹیوں اور مدارس کے طلبہ اپنے گھر کیسے پہنچیں گے؟ شاید حکومت کی طرف سے ان سب پہلووں پر محنت اور گہرائی سے ہوم ورک نہیں کیا گیا تھااور عجلت میں پورے بھارت کے بند کا اعلان کر دیا گیا۔
یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہےکہ کورونا وائرس ہمارے ملک کی پیداوار نہیں ہے۔ بلکہ دوسرے ملکوں کے متاثرین کے آنے جانے کی وجہ سے یہاں اس وبائی بیماری کو پھولنے اور پھلنے کا موقع ملا۔ اگر لاک ڈاون کرنا ہی تھا تو سب سے پہلے انٹر نیشنل فلائٹ کی آمد ورفت کو روکنا چاہیئے تھا۔ بھارت میں کورونا کا پہلا کیس 29/ جنوری کو پایا گیا۔ 24/ مارچ جس دن لاک ڈاون کا اعلان ہوا پورے ملک میں کل 571 متاثرین موجود تھے۔ پہلی موت 13/ مارچ کو ہوئی۔ 24 / مارچ تک 10 موتیں ہو چکی تھیں۔ آج مورخہ 31/ مارچ کا حال یہ ہے کہ ملک کے چند صوبے ابھی بھی ایسے ہیں جہاں کورونا کے مریض صفر ہیں۔ ہماچل پردیش اور اڑیسہ میں صرف تین تین مریض ہیں جبکہ منی پور، میزرم اور پانڈیچری میں صرف ایک ایک مریض پائے جاتے ہیں۔ گویا کہ ملک کے الگ الگ صوبوں کی الگ الگ حالت ہے۔ ان حالات کے مطابق دیر سویر کہیں آج کہیں دودن بعد لاک ڈاون کے فیصلے کا نفاذ اور کہیں بالکل لاک ڈاون کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ لوکل اور مقامی لوگ جو اپنے اپنے مقام سے محض دو ڈھائی سو کلو میٹر کے فاصلے پر تھے اچانک لاک ڈاون کی وجہ بے یار و مددگار جہاں تھے وہیں ہو کے رہ گئے۔ ان مقامی لوگوں کو صرف ایک ہی دن کا موقع ملا ہوتا تو اپنے اپنے مکان پر پہونچ جاتے۔ ملک کے شہری کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، سونے جاگنے کے اعتبار سے مختلف معیار کے ہیں۔ جو روڈ پر کبھی ایک دن بھی پوری زندگی نہ سویا ہواسے سونا پڑے تو وہ تو یہی سوچے گا کہ اس سے بہتر موت تھی۔ میرے ایک رفیق ہیں جو شوگر کے مریض ہیں۔ وہ اپنے مقام سے محض ایک سو اسی کلو میٹر کے فاصلے پر کسی ضروری کام سے گئے تھے۔ لاک ڈاون کی وجہ سے وہیں پھنس گئے۔ گھر میں بیوی بچے الگ پریشان، اور یہ خود اتنے پریشان کہ بہت کوششیں کرنے کے باوجود اور دسیوں ہزار خرچ کی آمادگی کے باوجود ابھی تک گھر پہونچنے کا کوئی راستہ ان کے لیے نہیں نکل سکا ہے۔
کتنے غریب ہیں جو پیدل آبائی وطن منتقل ہوتے ہوئے تھک ہار کر، بھوک پیاس کی شدت کی وجہ سے ہمیشہ کی نیند سو گئے۔ کتنے بچے ایسے ہیں جو سفر کی مشکلات کو برداشت نہ کر سکے اور لقمہ اجل بن گئے۔ ابھی تک کی رپورٹ یہ کہ 20 / سے زائد بچے جوان اور بوڑھے نقل مکانی کرتے ہوئے راستے ہی میں دم توڑ دیئے۔ اگر منصوبہ بندی کے ساتھ لاک ڈاون کا نفاذ ملک کے الگ الگ حصے پر الگ الگ وقت میں ہواہوتا تو بہت سے لوگوں کی جان بچ سکتی تھی اور روز بروز ہونے والی پریشانیوں میں نمایاں کمی بھی ہو سکتی تھی۔
مگر مرکزی سرکار کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے، یہاں تمام فیصلے یا تو تنہا ایک آدمی کرتا ہے یا دو تین افراد مل کر کرتے ہیں جن کی نا تجربہ کاری، بے بصیرتی اور عاقبت نا اندیشی کا خمیازہ ملک تسلسل سے برداشت کر رہا ہے. لاک ڈاون کے سلسلے میں مرکزی حکومت نے صوبائی حکومتوں تک سے مشورہ لینے کی ضرورت محسوس نہ کی جس کی وجہ سے پورا ملک پریشان ہے۔
دعا ہے کہ اللہ اس وبا سے پورے ملک کو محفوظ رکھے اور ہماری مرکزی سرکار کو عقل دے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور ملک و قوم کے حق میں بہتر فیصلے لے۔

Comments are closed.