تبدیلی کے منتظر نہیں، نقیب بنیں

خورشید انور ندوی
ملکی حالات ایسے نہیں،کہ ہم ان کی تبدیلی کا انتظار کرتے بیٹھے رہیں اور آنے والی نسلوں کو حالات کی بے رحمی کا ایندھن بننے کے لئے چھوڑ دیں.. ملک کے حالات اتنے ابتر ہیں کہ خود اپنے آپ کے لئے ان کو بدلنا ضروری ہے.. ان سے لڑنا ضروری ہے. موجودہ صورت حال کے بیرونی اسباب ہزار ہوں گے،انکار نہیں لیکن جو چند ایک اندرونی ہیں وہ اپنی سنگینی میں زیادہ ہیں، اور کسی طور قابل نظر اندازی نہیں.. ہم نے کچھ نہیں کیا، یہ حقیقت ہے. ہم ماحول کی خودکاریت کے نظریہ کے قائل ہوگئے تھے،کہ جو ہورہا ہے وہی حقیقت ہے. اس کو قبول کیا جاسکتا ہے، بدلا نہیں جاسکتا..ہم نے کبھی تو بیٹھ کر ٹھنڈے دماغ سوچا ہوتا کہ عہد غلامی میں، ہم نے دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلماء ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے سرمایہ افتخار ادارے قائم کرلئے تھے ، آزادی کے بعد ہم نے ان جیسے کتنے ادارے بنائے؟ ملک تو تقریباً 935 یونیورسٹیاں 2018 تک بنا چکا تھا. جو کچھ ملی اثاثہ پایا تھا اس کو میراث میں بدلنے میں سارا وقت گنوایا اور کر بھی لیا. سیاست سے ایسے کنارہ کش ہوئے کہ نصف صدی سیاست کو گندگی ہی کہتے رہے. کچھ لوگوں نے کی بھی تو تابعداری کی انتہاء پر رہے.. ایک سیکولر ملک میں ہم نے کوئی سماجی ہم آہنگی کی راہ نہیں نکالی. ٪20 اور 80 کے کم و بیش تناسب کی مشترک سوسائٹی میں دوری بڑھتی رہی اور ہم جزیزوں میں قید ہوتے رہے. ہر مسلم ایشو ابنائے وطن کو ہم سے جوڑنے کے بجائے دور کرتا رہا. خیالی مثالیت پسندی نے ہر کام بگاڑا. کبھی صورت حال کی سنگینی بھانپ کر معاملات سنبھالنے کی کوشش نہیں ہوئی. بابری مسجد قضیہ میں حضرت مولانا علی میاں کی نہیں سنی گئی.. یہ آویزش پسندی اس لئے تھی کہ ہمارے پاس کوئی ایجنڈا ہی نہیں تھا جس کی تکمیل ہمارا ہدف ہوتا..
چلیں گزشت ہرچہ کہ بود..
اب ہم کو نئے سرے سے ایک نئی زندگی کا نصاب بنانا ہے. سماجی روابط کی ترتیب کرنی ہے. اشتراک عمل کرنا ہے. اپنے طور پر کامن مینیمم پروگرام طے کرنا ہے.. اور اپنی عزلت ختم کرنا ہے، جو بہت طویل المیعاد پروگرام ہے اور اتنا ہی کٹھن بھی، لیکن فرار کی گنجائش نہیں رہی. کرنا ہی کرنا ہے.. زیادہ وقت گنوادینے کی وجہ سے ہمارے آپشنز محدود ہوچکے ہیں .
کچھ تجاویز اہل فکر کی خدمت میں دعوت فکر کے ساتھ پیش ہیں :
*سماجی رابطہ مہم
ایسا نہیں ہے کہ اہل وطن سے ہمارا کسی سطح پر رابطہ نہیں. رابطے ہیں، لیکن بےحد کمزور اور شخصی ہیں. پرائیویسی کی حد تک سمٹے ہوئے ہیں. تجارتی لین دین کے ذریعہ ہیں یا سیاسی پارٹیوں کے توسط سےہیں. کچھ پڑوس اور محلہ داری کے ہیں. یہ کافی نہیں. انھیں تعلقات کو فروغ دے کر کمیونٹی سطح تک لیجانے کا ٹارگٹ ہونا چاہیے.
سماجی خدمات کا دائرہ، سبھی اہل وطن تک بڑھانا پڑے گا. مسجدوں کا کردار، وسیع کرنا وقت کی ضرورت ہے.سب سے پہلے تو ہم مسجدوں کے لئے اپنے تعاون کا دائرہ بڑھائیں. وہاں عام قسم کی چھوٹی چھوٹی خدمات کا سنٹر قائم کریں.. پبلک ہیلپ کاونٹرس کھولے جائیں. جہاں آدھار کارڈ، پین کارڈ، ووٹرز آئی ڈی، اور بےشمار اون لائن گورنمنٹ سروسز مفت فراہم کی جائیں. گورنمنٹ فیس لی جاسکتی ہے.. مختلف حکومتی وظائف، کی تفصیل فراہم کی جائے. فارم بھرنے بھرانے میں مدد کی جائے. مسجد کی خدماتی سہولت کا ڈاٹا منٹین کیاجائے. سروے اپ ڈیٹ کیاجائے. امدادی پیکیجز کی تقسیم کے وقت مقامی حکومتی عہدیدار، امداد باہمی کے مسلمہ اداروں اور سول سوسائٹی کے ذمہ داروں کو مدعو کیا جائے.. یہ کام بلالحاظ مذہب وملت کیا جائے.
ہر سوسائٹی میں اب ایک انٹلکچول طبقہ، تعلیم کے زیر اثر پیدا ہوچکا ہے. وہ اگر حریف ہو تو ایک عذاب ہے، معاون اور شریک کار ہو تو ایک اضافی قوت ہے.. اس سے رابطہ قائم کیا جائے اور رکھا جائے. ہر پیش آمدہ سماجی قانونی سیاسی مسئلہ کو فوری ڈائیلاگ کے ایجندہ پر ڈال دیا جائے. سوشل میڈیا نیٹ ورک فعال رکھا جائے، اور ڈائیلاگ اجتماع کی شکل میں بھی ہو، یہ ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھنے میں معاون ہوتا ہے.
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر بات کو مذہبی تناظر میں نہ دیکھا جائے ورنہ بین مذہبی اشتراک عمل کی راہ مسدود ہوجائے گی..
سماجی رابطہ مہم میں، آئین اور اس کی روح کو ہی فائنل دستاویز تسلیم کیا جائے. مذہبی حساسیت والے معاملات کو ہرگز نہ اٹھایا جائے. ایسے موضوعات کو ملتوی رکھا جائے.. عدالتوں کے ذریعہ فیصل شدہ معاملات کو چھوڑ دیا جائے. زیر تصفیہ معاملاتِ پر رائے زنی نہ کی جائے.. ان کو ان کے متعلقہ فورم تک محدود رکھا جائے.
*تعلیمی میدان میں اشتراک عمل
زمینی سطح پر ابنائے وطن سے سب سے دور اور بیگانے اہل مدرسہ ہیں. جب کہ ساری مذہبی کمان انھیں کے ہاتھ میں ہے. کوئی نقطہ اتصال نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا کوئی تبادلہ اہل وطن کے ساتھ نہیں ہوتا.. ان کا ہر ردعمل ہمارے پاس میڈیا کے توسط سے آتا ہے جو براہ راست نہیں ہوتا، بے کم وکاست نہیں ہوتا. آج کے میڈیا کے ذریعہ پہلے سے منصوبہ بند ہوتا ہے،اور مطلوبہ سیاسی حرارت کے عین مطابق ہوتا ہے. نسل درنسل ہم ابتدائی تعلیم کے مرحلہ سے ہی ایکدوسرے کے قریب نہیں آ پاتے اور پھر یہ دوری رہ جاتی ہے.. میری بہت عرصہ سے یہ رائے ہے کہ ہم سب ہائی اسکول تک کی تعلیم، مشترک رکھیں. تاکہ ایک نصاب پڑھ کر آئی جنریشن ایک دوسرے سے تبادلہ فکر اور انٹرایکشن میں فری رہے، اور ترسیل آسان رہے. مدارس کے سارے کورسز ہائی اسکول کے بعد ترتیب دئے جائیں تو ان کا دورانیہ بھی نوسال سے تین یا چار سال کیا جاسکتا ہے. مدارس کی عمومی تعلیم معیاری نہیں رہی.. اس پر غور کرنا چاہئے.. وسائل کا رساؤ نہیں ہونا چاہئے.. نظام اور نصاب دونوں انجماد کا شکار ہیں.. مدارس کی نظامت میں روٹیشن سسٹم نافذ کرنا چاہئے.. اس زمانے میں یہ تھری اور فور ٹائر سسٹم بے معنی ہے.
مدارس کا پرائمری سکشن، بنیادی طور پر مسلمان بچوں کے لئےہو، لیکن کچھ نشستیں مقامی آبادی کے تناسب اور ضرورت کے بقدر غیر مسلم طلبہ کے لئے مختص کرنا چاہئے، خواہ وہ تعداد کم ہی ہو. یہ ایک خیرسگالی کا پیغام بھی ہوگا اور سوسائٹی کے تئیں ہمارا مثبت اشتراک بھی ہوگا.
*سیاسی شرکت
ملک چلانے کے لیے سیاست کے علاوہ کوئی دوسرا فارمیٹ ہی نہیں ہے.. معاشی تعلیمی ثقافتی ساری پالیسیاں سیاست ہی طے کرتی ہے.. بنابریں ملک کی جہت اور اس کی شناخت، سیاست کے بغیر طے ہی نہیں کی جاسکتی.. یہ آپ کا اختیار ہی نہیں.. جمہوری ڈھانچے میں تو کمزور بھی طاقتور بن سکتا ہے اور بہت کچھ کرسکتا ہے.. مسلمان سیاسی شرکت کے بارے میں بہت متردد رہے ہیں.. اس سلسلے میں بڑی فلسفیانہ موشگافیوں کے بجائے عملی ہونا چاہیے.. سیاسی جماعت یا جماعتوں کا قیام کوئی انوکھی بات نہیں . سطح سیاست پر مختلف سیاسی جماعتوں کے آنے سے سیاسی سرگرمی میں اضافہ ہوگا. تجربوں کے بعد نفع نقصان کا حساب کتاب ہوگا. اور میدانی صورت حال ایک بہتر حل اور پائیدار اتحاد، خود بخود مسلط کردے گی. دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ اشتراک عمل بھی وقت کی ضرورت کے پیش نظر حاصل ہوجائے گا.. یہ روٹین کی سرگرمی ہے.. پہلے بکھراو پھر یکجائی پھر اشتراک اور تعاون، یہ سیاست کے مرحلے ہیں اور ان کو ایسے ہی گزارنا ہوتا ہے.. سیاست میں تعمیری پروجکٹ کی طرح روزاول، بلو پرنٹ نہیں نکالی جاسکتی.. یہ ہرروز چولیں بدلتی صورت حال کا کھیل ہے.. مسلمان اپنی سیاسی جماعت کے ساتھ یا سیاسی جماعت اور جماعتوں کے بغیر بھی سرگرم سیاست کرسکتے ہیں.. اپنی سیاسی جماعت یا جماعتوں کا فائدہ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ ایجنڈا زیادہ بہتر سیٹ کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ مسلم لیگ، کیرالا میں کرتی ہے.. کیرالا اور مغربی بنگال میں مسلم آبادی کا تناسب تقریباً یکساں ہے، لیکن سیاسی محصول میں زمین آسمان کا فرق ہے. کیرالا میں مسلمان پانچ کیبنٹ برتھ شیئر کرتے ہیں تو بنگال میں کچھ نہیں. کیرالا میں کیبنٹ برتھ لینے کے بعد اپنی جماعت کا منشور نافذ کرتے ہیں تو بنگال میں وہ حکمران پارٹی کے منشور کے پابند ہیں.
میں سمجھتا ہوں کہ اگر سماجی خدمت، تعلیمی منصوبہ بندی، قدرے ترمیم وتوسیع کے ساتھ، اور بہتر تال میل کے ساتھ سیاسی سرگرمی کے ذریعہ، ہم تبدیلی کا حصہ بننے کا طے کرلیں تو موجودہ وسائل میں بھی بہت کچھ بہت زیادہ حاصل کرسکتے ہیں۔
Comments are closed.