آخر ایسا کب تک؟

نوراللہ نور

گزشتہ روز پالگھر میں کچھ غلیظ طبیعت اور اور بے ضمیر افراد نے ایک نہتے سادھو پر تشد کیا وہ انسانیت کے منافی تھا اور جمہوریت کے منھ پر زوردار طمانچہ تھا

حملہ آور جو بھی ہو وہ قابل مذمت ہیں اور سزا کے مستحق بھی ہیں یہاں پر ہندو مسلم کا امتیاز کرنا غیر موزوں اور نا مناسب ہے
بات صرف کل کے اس معاملے کی نہیں ہے بات ہندو مسلم کی نہیں ہے ؛؛ سادھو مرے یا پھر کوئی مولوی ؛ اس کے ساتھ انسانیت کا بھی خون ہوتاہے ؛؛ جمہوریت کے گلے پر چھری چلتی ہے ؛؛ تکلیف اس بات کی ہے کہ اس انسانیت کے قتل کے پیچھے کن حضرات کے دست کار فرما ہے ؟؟؟ انسانیت کے قتل میں کون کون شامل ہے ؟؟؟ اس پر غور کیوں نہیں کیا جارہا ہے ؛؛ اور اگر ساری کارستانیوں کا علم ہے تو پھر پردہ پوشی اور اور درندوں کی پشت پناہی کیوں کی جا رہی ہے
روز اخبار ایسے ہی سر خیوں سے سرخ ہوتا ہے روز انسانی قدریں پامال ہوتی ہیں اس کا سد باب کیوں نہیں ؟؟؟
یہاں پر ایک بات قابل غور ہے کہ عدلیہ کے قیام کا کیا مقصد رہ گیا ؟؟ ججوں کا تقرر کیوں ہوا ؟؟؟ جب لوگ خاموش تماشائی ہیں تو وکلاء کیوں اتنی محنت کر رہے ہیں ؟؟ جب بھیڑ ہی انصاف کے پیمانے لیے کھڑی ہے تو عدلیہ کا کیا کام ہے ؟؟ جب بات ملکیت و اراضی کی ہو تو عدلیہ پر اعتماد اور جب بات تشد کی ہو تو خود ہی منصف ؟؟؟
ہماری سو سایٹی اور ہمارے معاشرے میں لوگ بڑی قوت سے کہتے ہیں کہ ہم ظلم کے خلاف ہیں ناگوار چیزیں ہمیں برداشت نہیں آخر وہ اس درندگی پر زبان کب کھولیں گے ؟؟ یہاں اس کی فکر نہیں ہوتی کہ ایک انسان مر گیا فکر تو اس بات کی ہوتی ہے کہ مرنے والا مسلمان ہے یا غیر مسلمان تاکہ اپنی دکان چمکای جا سکے آخر ہم میں انسانیت باقی ہے یا نہیں ؟؟؟ ہم ہر مدے پر بڑے پیمانے پر احتجاج و مظاہرہ کرتے ہیں کیا کبھی ہم نے اس درندگی کے خلاف آواز بلند کی ؟؟؟
اپنے حقوق کے لیے تو کوٹ کچہری کے آمدورفت کرتے ہیں لیکن اس سفاکیت کے خاتمے کے لیے پہل کی ؟؟؟
دوسری بات ایسے ناگہانی حادثات میں وہ ایم ایل اے وہ نیتا کہاں اور کس بل میں روپوش ہو جاتے ہیں جو اپنے آپ کو عوام کا خادم اور محافظ بتا تے ہیں وزیر اعظم صاحب من کی بات میں اس پر کوئی چرچا کیوں نہیں کر تے
آخر اس غلاظت کا بار ہم کب تک اٹھاتے رہیں گے
ہمیں احساس نہیں ہوتا کیوں کہ ہمارے اپنے نہیں جاتے لیکن کیا ہمارے ساتھ نہیں ہو سکتا ؟؟؟ اس اوچھی حرکت سے انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے جمہوریت شرمشار ہوتی ہمیں اس کے خلاف آواز بلند کرنا ہو گا منظم تدبیر کرنی ہوگی اور اس کے خلاف ہم خیال و ہمدوش ہونا پڑے گا ہمیں اس انسانیت سوزی سے نجات کی کو ی سبیل نکا لنی ہوگی ورنہ روز بچے یتیم ہوں نگے اور خاتون بیوہ ہونگی ؛؛ کیوں کہ مرنے والا کوئی بھی ہو پہلے انسان ہوتا ہے ؛ ایک باپ ہوتا ہے ایک بیٹا ہو تا ہے ؛ جب وہ ایک شخص مرتا ہے تو ہزاروں امیدیں اس کے ساتھ دم توڑ دیتی ہے اس لیے اس جہالت پر کب تک خاموش رہیں گے تعصب کا عینک اتار کر انسان نیت کی نگاہ سے دیکھیں جو بھی ہو اس کو سر عام سپرد تختہ دار کریں ؛؛ورنہ یہ خاموشی اور ان کی یہ درندگی آنے والوں کے لیے سم قاتل ہو گی ان کے سد باب کے لیے ہمیں ہی پیش قدمی کرنی ہوگی کیونکہ کرسی دار تو ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں

Comments are closed.