نوائے حق صدائے دل

منظوم کلام: شیخ الحدیث مفتی عبدالرحیم الحسنی
ترجمہ: الطاف جمیل ندوی
جس شخصیت کا تعارف کرانے جارہا ہوں وہ میرے استاد ہیں، استاد محترم کی ایک طویل نظم جو کرؤنا وائرس کے سلسلے میں منصہ شہود پر آئی ہے کے سلسلے میں کچھ لب کشائی کرنے کی جسارت کررہا ہوں تاکہ امت مسلمہ بالخصوص اور وطن عزیز کے مکین بالعموم اس سے استفادہ کر سکیں، کرؤنا وائرس جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر اب تک ہزاروں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ہر صاحب دل پریشان ہے، ہر آنکھ اشک بار ہے، ہر چہار جانب سے موت جیسی خاموشی دنیا کے بڑے بڑے ممالک بے کسی کے حال میں پریشان و سرگرداں اسی طرح وطن عزیز کا حال بھی دن بہ دن پریشان کن ہے، آئے روز کہیں نہ کہیں سے اس موذی مرض کے شکار افراد کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے جس کا تدراک کرنے کے لئے صاحبِ اقتدار و ذی شعور لوگ مختلف بچاؤ کے طریقے بتا رہے ہیں، ایسے میں بارہمولہ ضلع کے توحید گنج محلہ کے مشہور ادراے دارلعلوم المصطفوی کے صدر مفتی و شیخ الحدیث السید مفتی عبد الرحیم الحسنی مدظلہ العالی بھی خاموش نہ رہ سکے، ویسے ان کا اپنا طریقہ تعلیم و تعلم ہے، اسی سے ۱۹۹۲ سے وابستہ ہیں اپنی سند فراغت کے بعد سے، پر کبھی کبھار کسی موضوع پر نظم نثر پر بھی لب کشائی کرتے ہیں، جب کہ اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے کہ میں کوئی شاعر نہیں ہوں پر جب بھی کوئی افتاد آتی ہے تو دل میں اک ہوک سی اٹھتی ہے اور میں کچھ لکھ لیتا ہوں اس غرض سے کہ امت کا فائدہ ہو، ہر صاحب ایمان کی کیفیت یہی ہے کہ امت کا غم اٹھائے دل آزردہ رہتا ہے، گرچہ زمانہ طالب علمی سے ہی کبھی کبھار اشعار کہتے تھے، البتہ پہلی بار مولانا اپنے استاد و مرشد کی وفات پر ایک طویل نظم لکھی تھی جو النور دارلعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ میں شائع بھی ہوئی تھی جس کے کچھ اشعار یوں تھے
برق بن کر یہ خبر ہم پے گری ہے ناخدا
کہ آج حضرت تھانوی کا خلف صادق چل بسا
حضرت مدنی کا اک تلمیذ راشد چل بسا
ضامن و قاسم گنگوہی کا نائب چل بسا
سارے ہند و پاک کا شیخ طریقت چل بسا
یورپ افریقہ کا تاج شریعت چل بسا
آپ نی ختم نبوت کے ایمانی عقیدہ پر ایک بڑی نظم بھی لکھی، جب قادیانی فتنہ اپنی تمام تر ریشہ دوانیوں کے ساتھ امت کے اجتماعی عقیدے پر ضرب لگانے کے لئے مشغول ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت و عقیدت رکھنے والے ہر صاحبِ ایمان کا دل تڑپ جانا اس مسئلہ پر کامل ایمان کی علامت ہے، ویسے ہی مفتی عبد الرحیم صاحب بھی تڑپ اٹھے اور زبان و دل سے ایک ہدیہ عقیدت منصہ شہود پر آیا جس کا ایک بندھ کچھ یوں ہے
ہم ختم نبوت کے پروانے باطل کو جھکا کر دم لیں
یا ختم نبوت کی خاطر سر اپنا کٹا کر دم لیں گئے
سانحہ بابری مسجد ہوا تو مفتی عبد الرحیم صاحب نے اس پر بھی ایک طویل نظم لکھی جس کے کچھ اشعار یوں تھے
بابری مسجد نہیں ہے یہ ہے بیت ذوالجلال
کیوں ہے تو ہندی مسلماں پابہ زنجیر ملال
کیا نہیں ہے یاد تجھ کو فیل بانوں کا وہ حال
جس کا ناطق سورہ الفیل میں قرآن ہے
استاد محترم مفتی عبد الرحیم صاحب کہتے ہیں کہ
وقت وقت پر یہ کیفیت رہتی ہے کہ دل اداس ہوجائے کسی بات پر تو دل زبان و قلم کا رفیق بن کر مجھ سے کہلواتا ہے، اس سے مجھے یک گونہ سکون ملتا ہے کہ امت پر آئی مصیبت پر میرے جذبات میری زبان پر آجاتے ہیں اور میں انہیں نوک قلم کے سپرد کردیتا ہوں، صرف اس غرض سے کہ شاید امت کے کام آجائیں اور میرا نام بھی ان پاک سیرت و پاکیزہ خصائل صالح مزاج لوگوں میں شامل ہوجائے جو امت کے لئے تڑپتے رہتے ہیں میری تمنا ہے کہ امت مسلمہ ہر حال میں ہر مصیبت سے محفوظ رہے اور میں اپنے جذبات و تاثرات امت تک پہنچانے کی سعی کرتا ہی رہتا ہوں،
میری اوقات ایک عام سے طالب علم کی سی ہے پر امت مسلمہ کے غم سے دل آباد ہے اور اسی کیفیت کا نتیجہ اب بھی سامنے آیا کہ اس مصیبت کے وقت جب پوری دنیا حیرت زدہ ہے کہ اب کیا کیا جائے تو حضرت استاد محترم نے رجوع الی اللہ کی ترغیب دے دی اپنی اس نظم میں، جو اس کرؤنا وائرس کی وبائی صورت حال میں ان کی زبان پے آئی ہے، جس میں تعلق باللہ کی دعوت دی گئی ہے، اس
نظم پر لب کشائی کا حکم ہے اس لئے اپنے مربی و محترم کے حکم کا احترام کرتے ہوئے اس پر لب کشائی کی جرآت کر رہا ہوں ورنہ میری اپنی اتنی اوقات ہی نہیں،
نظم عربی زبان میں ہے اس کا ترجمہ بھی شامل ہے اس کے علاوہ قوسین میں کہیں کہیں پر ہلکا پھلکا سا تبصرہ کرنے کی جسارت کررہا ہوں
نظم بحوالہ کورونا وائرس
از مولانا مفتی سیّد عبدالرحیم صاحب الحسنی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عِبادَاللہ اَماءَالله مُنادِاللہِ یَدعُونَا
لَئِنْ عُدنَا اِلَی الٳسلام لَانُھْلک بِکَورُونا
اَما آنَ لَکُم اَن تَقرَؤُوْا دَومًا کِتابَ اللہ؟
اَمَاحَانَ لَکُم اَنْ تَسمعُوْا قَولَ نَبِیِّ اللہﷺ؟
اَمَا آنَ لَکُم اَنْ تَسلُکُوْا دَرْبَ رَسُولِ اللہﷺ؟
اَمَاحَانَ لَکُم اَن تَنتَھُوا عَنْ مَّا نَھَاہُ اللہ؟
خدا نے ہم کو پھر لوگو پکارا اپنی رحمت سے
مسلمانو! ذرا اٹھ جاؤ اب تو خوابِ غفلت سے
لگاؤ دل ہمیشہ میرے قرآن کی تلاوت سے
رسول اللہ کی باتوں سے نبیّ اللہ ﷺ کی سنت سے
کبھی ہرگز بھٹکنا مت عبادت اور طاعت سے
کبھی نزدیک مت جانا گناہوں اور بغاوت کے
مسلمانو! چلو احکام پر، رب کے منادی کے
تمہیں پھر وہ بچائے گا کرونا کی تباہی سے
( نظم کے پہلے ہی بند میں استاد محترم لوگوں کو اس جانب توجہ دلا رہے ہیں کہ تعلق باللہ ہی اس مصیبت سے چھٹکارا دلا سکتا ہے، جس کا طریقہ اللہ کی کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ میں پوشیدہ ہے، کبھی کسی بھی صورت میں اس سے منہ نہ پھیرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے یہ ضامن ہے ہماری بقاء و کامیابی کے لئے )
اَلَمْ نَبکِ بِمَا نَسمَع بِتَھدِیدَاتِ کَورُونَا؟
اَلمْ نُخبَر بِاَمرِاللہِ قَد ھزَّا بِہِ الصِّینَا؟
اَلم نُنذَر بِمَاحَاقَ بِاُورُوبَا وَ اَمرِیکَا؟
اَلم نُؤمِن بِقُرآنٍ وَّصَدَّقنَاہُ تَصدِیقًا؟
کرونا کی تباہی نے نہیں تم کو رُلایا کیا؟
نہیں وُوہان و چائینا میں فساد اس نے مچایا کیا؟
یوروپ و امرِکا ایراں نہیں اس نے ہلایا کیا؟
نہیں عبرت پکڑنا ہم کو قرآں نے سکھایا کیا؟
( یہاں استاد محترم اس کی تباہ کاریاں بتا رہے ہیں جس سے کہ ہم پوری طرح واقف ہیں کہ اس نے دنیا کی بادشاہت اور چودھراہٹ کو کیسے بے بس و لاچار کردیا یہ یقینا عبرت کا مقام ہے )
مِنَ الکَعبَة مِنَ الرَّوضَة مِنَ الآثَارِ اُخرِجنَا
مِنَ الآیَاتِ وَالاَھوَالِ وَالاَزمَاتِ اُنذِرنَا
مِنَ الاَیَّامِ ذُکِّرنَا مِنَ العِصیَانِ زُجِّرنَا
وَلکِنْ! لَلاَسَفْ اِنَّا لَمَا زِلنَا کَمَا کُنَّا
نکالا ہم کو کعبہ سے نبیﷺ کے پاک روضے سے
ڈرایا خوف سے، بحراں سے، آثارِ قیامت سے
سنائے ہم کو عبرت کےلئے نبیوں کے سب قصے
نہیں سنبھلے جو پھر بھی ہم، تو ذلت کے پڑے ڈنڈے
خدائے پاک نے ہم کو جھنجھوڑا ہر طریقے سے
مگر افسوس ہم ویسے ہی ہیں، جیسے کہ پہلے تھے
( یہاں استاد محترم کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کی اللہ کے تئیں غفلت کا انجام یہ ہوا کہ ہم کعبہ و روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے بھی اب محروم ہوگئے ہیں جبکہ اللہ تعالی نے ہمیں بار بار اس سلسلے میں حکم سنایا تھا سابقہ اقوام کے قصص انبیاء کرام علیہ السلام سے دوری کے سبب آنے والے مصائب کا شکار ہونے والے لوگوں کے بارے میں بھی بتایا گیا تھا جس کا گواہ کلام الہی ہے رب نے ہمیں مختلف طریقوں سے باخبر کیا تھا پر ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے وائے حسرتا)
فَیَا أََسَفا عَلیٰ مَنْ لَّم یَذُقْ طُعْمَ العِبَادَاتِ
وَیَا وَیْحٰى! لِمَن لّم یَنتَبِهْ رَغْمَ العَذَابَاتِ
وَیٰحَسرَةْ عَلی مَن عَاشَ فِی بَحرِ الضَّلَالَاتِ
وَطُوبٰى لِلَّذِی اِزدَادَ اِیمَانًابِاٰیَاتِی
وہ کیا بندہ ہوا جس نے نہ طاعت کا مزہ چکّھا
مصائب جھیل کر بھی جو نہیں سنبھلا نہیں بدلا
بہت افسوس اس پر جو گناہوں سے رہا چمٹا
اصل بندہ تو وہ ہے جس کا ایماں خوب تر چمکا
( اللہ تعالی کا بندہ کیسا ہونا چاہئے یہ ہم نہ سمجھ سکے، کیا اسے بھی بندگی کہتے ہیں کہ معبود مژدہ حق و فلاح سنائے اور بندہ غفلت میں ہی پڑا رہے؟ اصل بندہ وہی ہے اپنے معبود کا جو جلد سمجھ جائے رب کے احکام و فرامین کو، غفلت میں پڑا نہ رہے اور ہر لمحہ باخبر رہے اپنے رب کے احکام و فرامین سے )
فَتُوبُوا یَا عِبَادَاللہ اِلی الرَّحْمٰنِ مَولٰکُمْ
وَعُضُّو بِاالنَّوَاجِذِ مَا رَسُولُ اللہِ اَوصٰکُمْ
یُثِبْکُمْ جَنَّتَ الْخُلدِ وَ رَبُّ العَرْشِ حَیَّاکُمْ
یُزَوِّجُکُمْ بِحُورِ العِینِ فَمَاذَا بَعْدُ اَعْیَاکُم؟
اسی رحمت کے مالک سے عفو کی بھیک تو مانگو
گرہ میں تم نبیﷺ کی ہر وصیت کو ذرا باندھو
رضائے حق کو پاکر خلد میں اس سے سلامیں لو
بیاھے گا تمہیں حوروں سے کیوں کیا اب بھی عاجز ہو؟
( اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے مالک تمہارا تمہیں اب بھی نوید فلاح سنا رہا ہے کہ پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف وہ عفو و درگزر کرنے والا ہے اپنے بندوں کی غلطیوں سے بس شرط ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو اپنانا ہوگا ان کی سنن سے خود کو آراستہ کرنا ہوگا بدلے میں خلد کی کامیابی ملے گی۔
بُعِثْتُمْ اُمَّةً وّ سَطًا اِلَى النَّاسِ بِفُرقَانِ
لِتَدْعُوھُم اِلی الخَیْرِ بِمَوعِظَةٍ وَّ سُلطَانِ
وَتُنجُوْھُم مِنَ النَّارِ وَ اِھلَاکٍ وَّ خُسرَانِ
فَقُومُوْا کَی تَنَالُوا حَظَّ مَغفِرَةٍ وَّ رِضوَانِ
تم ہی تو خیرِ امت ہو خلائق پر نگہباں ہو
بچاؤگے جہنم سے سبھی کو وہ مہرباں ہو
ہدایت کی طرف دو سب کو دعوت حق کے پروانو
خدا راضی رہے گا اور بخشے گا مسلمانو
( اے رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیو! تم تو اب آخری امت ہو، تمہارے ذمہ ہے کہ دعوت دین کا فریضہ انجام دو، جنت کی خوشخبری سناؤ اور جہنم کا ایندھن بننے سے لوگوں کو بچاؤ، رب کی رحمت کے سایہ میں انسانیت کو لے آو، اے حق کے شیدائیو! اِسی سے رب کی رضا نصیب ہوگی اور بخشش کی نوید بھی آئے گی )
اُمِرنَا بِالطَّھُورِ وَ البَقَاءِ فِی مَنَازِلِنَا
اَطَعْنَا اَلرَّسُوْلَ اِذ عَبَدْنَا فِی مَعَازِلِنَا
وَصِرنَا حِلسَ بَیتٍ مَا حُرِمْنَا مِنْ مَّسَاجِدِنَا
اَخَذْنَا بَیْتَنَا کَھفًا وَّ نَتلُوْا مِن مَّصَاحِفِنَا
ہوا ہے حکم گھر میں بیٹھنے کا اور عبادت کا
الگ محتاط رہ کر خوب بچنے کا نظافت کا
ملا کیا خوب موقع اس سے اذکار و تلاوت کا
کہف میں رہ کے رونے کا ،نبی کی پاک سنت کا
( محکمہ صحت کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ گھروں میں رہو تو اس تنہائی میں تم رب سے لو لگا لو اور الگ رہے اس وبا کے دوران آپسی اختلاط سے اور خوب پاکیزگی و طہارت کا خیال رکھا یہ تنہائی کورن ٹائن ایک موقعہ ہے کہ اس میں اللہ کو یاد کیا جائے اور قرآن کریم سے استفادہ کرنے کا ایک موقعہ ہے غنیمت جان لو، تنہائیوں میں آنسو بہا کر رب سے عفو مانگیں، گناہوں پر اظہار ندامت کریں، یہی طریقہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
فَعَ فوًا رَبَّنَا تُبنَا فَطَھِّرنَا وَ فَقِّھْنَا
وَاَرشِدنَا وَ ثَبِّتنَا عَلی الدِّینِ وَ وَفِّقنَا
وَبَارِک فِی مَعِیشَتِنَا عَلی الاَعدَاءِ فَانصُرْنَا
وَاَبعِدْنَا عَنِ الأَمرَاضِ وَ الآفَاتِ مَا دُمْنَا
بخشدے پاک کردے ہم کو یارب سب گناہوں سے
سمجھ دے دین کی توفیق دے کر استقامت دے
ہدایت دے بچا ہم کو سبھی مرضوں وباؤں سے
معیشت میں فراخی دے سبھی اعداء پہ نصرت دے
( آخر میں یہ دعائیہ اشعار اللہ تعالی اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ہمیں زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہم دعائیں کریں اپنے پیارے رب کے حضور کہ بخش دے مولا تیرے سوا ہمارا کون ہے جس کے در پے ہم فریاد کریں گے کون ہے سوائے تیرے جو ہماری دستگیری فرمائے)
شروع میں تصور بندگی آخر پر تصور معبود کے ساتھ اپنے معبود پر کامل بندگی کا اظہار کرنے کی ترغیب بس یہی ہے اسلام کا آفاقی پیغام کہ رب الکریم کی بندگی کی جائے، مصائب و مشکلات میں مومن کو چاہئے کہ خوب تعلق باللہ مضبوط کرے، اپنے مشکلات کا حال رب کے حضور بیان کرے وہی تو ہے جو بندوں کی ہر حال میں مدد و اعانت کرتا ہے اور اس درمیان جو بھی ہو اسے رب کا حکم جان کر رب سے تعلق مضبوط بنانے کی کوشش کی جائے نہ کہ مصائب و آلام کے زمانے میں رب الکریم کا در چھوڑ کر بیھٹا جائے، احتیاط تدبر تفکر اور توکل یہ سب باتیں جڑ جائیں تو اللہ تعالی عنقریب اس مصیبت سے نجات عطا فرمائے گا۔
آخر پر اپنے استاد محترم کی خدمت میں عریضہ ہے کہ میرے قلم کو رونق آپ کے ہی دم سے ملی ہے، التماس ہے کہ دعا کریں کہ اس قلم کی نوک سدا بہار رہے اور اس کا استعمال رب کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے، والسلام
Comments are closed.