مزدور ہوں مجبور نہیں

ازقلم -: محمد امجد علی ، ڈائریکٹر آف امجد کلاسیز
انسانی زندگی میں عدم مزدوری کا تصور ناممکن ہے خواہ وہ جسمانی ہو یا دماغی۔ آج دنیا کا ہر انسان اپنی زندگی بسر کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ کام کر رہا ہے گویا کہ اگر ہم اطراف کا ایک جائزہ لیں تو لوگ سینکڑوں اقسام کے کاموں میں مصروف نظر آئیں گے۔ بعض لوگ اپنا خود کا کام کررہے ہیں تو بعض دوسرے کا لیکن ان سب میں اگر ہم غورکریں تو پاتے ہیں کہ اکثرو بیشتر افراد دوسرے کے ماتحت کام کرتے ہیں کیونکہ ایک کام کرانے والے کے نیچے ہزاروں کام کرنے والے ہوتے ہیں جسکی اصطلاح ہم محنت کش یا مزدور سے کرتے ہیں ۔جن کے متعلق کہا جاتا ہیکہ دیہاڑی مل گئی تو روزی اور نہیں ملی تو روزہ ۔ جو محنت کش اپنے مالکان کے یہاں خوش و احسن کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہر وقت مالک ، جی مالک ، جی چھوٹےمالک کرتے نہیں تھکتے ہیں گویا کہ یے الفاظ ان کی زندگی کا کوئی منتر ہوں اسکی حقیقت یہی ہیکہ اس طرح کے حرکات و سکنات ہمارے معاشرہ میں کھلے عام ہو رہےہیں مگر اس طرف کوئی توجہ مبذول نہیں کر پارہا ہے کیونکہ جو لوگ آواز اٹھانے کے بساط رکھتے تھے ان کے ہی ہاتھوں میں تو ان بے گنہگاروں کی آوازیں ہیں۔ اگر یہ ہلکی سی سرگوشی بھی کرتے ہے تو ان کی آواز کو تا حیات معدوم کر دیا جاتا ہے۔ اسکی حقیقی مثال ہمارے نظروں کے سامنے ہیں جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو پاتے ہیکہ یوروپ سمیت مغربی ممالک میں محنت کشوں کے ساتھ استحصال ہوتا تھا ان سے تقریبا19- 20 گھنٹوں تک کام لیا جارہاتھا ، جو مزدور اناج پیدا کرتے تھے اور جس کے ہاتھ اناج کاٹنے کی وجہ سے زخمی ہو چکے تھے ان کے بچے دانے دانے کو محتاج تھے ، جو دوسروں کیلئے کپڑا تیار کرتے تھے خود ان کے ہی بچے عمدہ لباس کیلئے ترستے تھے ، جو دوسروں کے رہنے کا آشیانہ تعمیر کرتے تھے وہ خود ہی بے گھر تھے اور جب یہ مزدور آواز بلند کرتے تھے ان کی طرف سے اٹھنے والی ہر آواز کو دفن کر دیا جا تا تھا۔ امریکہ کے صنعتی شہر شکاگو میں جب ان مزدوروں نے اوقات کار کو لیکر احتجاج کیا تو ان پر گولیاں برسائی گئیں ۔ اپنےمطالبات کو لیکر مزدوروں کو جان نثار ہونا پڑا لیکن اس وقت محنت کشوں کے سربراہوں کو معلوم تھا کہ ہماری یکجہتی و قربانی ایک دن رنگ لائے گی اور ہوا یوں کہ اس کے بعد سے ہی سرمایہ داروں کو اپنے مزدوروں کا حق دینا پڑا آخر میں ہلاک شدگان نے دم توڑتے ہوئے کہ دیا کہ تم ہیمں ہلاک تو کر سکتے ہوں لیکن ہماری آواز کو نہیں۔ اتنا ہی نہیں اس دن کے بعد سے ہی یکم مئی کو عالمی یوم مزدور کے طور پر منایا جانے لگا۔ آج بھی یکم مئی ان مالکان اور ٹھیکداروں کو ایک بات کا ضرور احساس کرا دیتا ہیکہ ہر ظلم و جبر کا ایک نہ ایک دن خاتمہ ہوتا ہے ۔ اور حقیقت بھی یہی ہیکہ اس دن سے ہی مزدوروں کو کار حقوق حاصل ہوا ۔ اگر ہم اس کے دوسرے طرف تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ مذہب اسلام کے رونما ہونے سے پہلے بھی مزدوروں ، غلاموں کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کیا جارہا تھا لیکن ہمارے نبی کی آمد کے بعد ان غلاموں کو اپنا حق ملا اسے غلامی کی زندگی سے آزاد کر کھلی فضا میں جینے کا حق حاصل ہوا ۔ ہمارے نبی نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو تو غلامی کی زندگی سے نکال کر اسلام میں ایک بہتر مقام عطا کیا تھا ۔ مزدوروں کو لیکر نبی کریم نے ارشاد فرمایا کہ ان مزدوروں کو ان کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو اس کے علاوہ اللہ تعالی نے خود فرمایا کہ بروز قیامت ہم تین لوگوں کے طرف سے خود مدعی بنونگا جس میں سے ایک وہ مزدور ہے جن کو کسی مالک نے کام کروا یا لیکن اسکی اجرت کی ادائیگی نہیں کی گئی ۔ایک جگہ کہا گیا ہیکہ مزدور تمہارے بھائی ہے جو تم کھاؤں اسے بھی کھلاؤ اور جو تم پہنو اسے بھی پہناؤ ۔ ان تمام باتوں سے واضح ہوتا ہیکہ اگر کہیں بھی غلاموں ، مزدوروں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے تو وہ ٹھیک نہیں ہے اور شریعت اسلام میں اسکی سخت وعیدیں ہیں۔ بالآخر یکم مئی ان مالکان کو متنبہ کرتا ہیکہ اگر اب بھی تم اسی ظالمانہ رویہ کو دہراتے رہے تو ہر عہد میں اسی طرح کی آوازیں بلند ہوتی رہیں گی.
Comments are closed.