ضبطِِ نفس کے لئے روزہ ایک ضرورت

حافظ معراج المو مینین
انجینئرپاور گرڈ گورنمنٹ آف انڈیا رانچی۔ جھارکھنڈ
انسان کی فطرت کچھ اس طرح واقع ہوئی ہے کہ اس کی فطری صلاحیتوں اور قوتوں کے ابھرنے اور نشو ونما پانے کے لئے تعلیم و تربیت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ روزہ جس اللہ جلّ شانہ‘ نے ہم پر فرض کیا ہے ایک مقدس ترین عبادت ہی نہیں بلکہ وہ ہماری تربیت کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے۔ روزے کا اصل مقصد طہارت، روح اور تقویٰ ہے(البقرہ)۔ پاکیزگی حاصل کرنے اور تقویٰ کے مقام مطلوب تک پہچنے کے لئے روزہ ایک اہم ذریعہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کی روزہ پچھلی امتوں پر بھی فرض رہا ہے۔ ضبط نفس کے بغیر انسان کے اندر تقویٰ کی کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی اورضبط نفس کے لئے تربیت ِنفس کی ضرورت ہے۔ روزہ ضبط نفس کا ایک مؤثر اور فطری ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعہ انسان کو اپنی خواہشات پر قابو حاصل ہوتا ہے۔جسے وہ تقویٰ کے مقام تک پہنچتا ہے۔
خواہشات کا بندہ خدا کی عظمت سے بے خبر ہوتا ہے اس کی خواہشات اسے زندگی کی اعلیٰ حقیقتوں اور ضرورتوں کی طرف سے غافل بنا دیتی ہے۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک بھرے پڑے پیٹ سیے زیادہ مبغوض شئے اور کوئی چیز نہیں ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ایسا آدمی غفلت کا شکار ہوتا ہے ۔ روزہ اس بات کا عملی مظاہرہ ہے کہ اکل و شرب اور جنسی خواہش کی تکمیل کے علاہ بھی کوئی چیز ہے جو ہماری پوری توجہ کی طالب ہے۔ روزہ بظا ہر اس کا نام ہے کہ آدمی سحر کے وقت سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جنسی خواہش پورا کرنے سے رکا رہے۔ لیکن اپنی روح کے اعتبار سے روزہ جس چیز کا نام ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کو اپنی خواہشات پر قابو ہو اور اسے تقویٰ کی زندگی حاصل ہو۔ اسی حقیقت کے پیش نظر بعض علماء نے کہا ہے کہ بہت سے روزہ دارمفکر کے حکم میں ہوتے اور بہت سے مفطر کے حکم میں آتے۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ کتنے آدمی بظاہر روزے سے ہوتے ہیں لیکن حقیقت نگاہ سے دیکھا جائے تو اس کا روزہ نہیں ہوتا۔ تقویٰ اور پاکیزگی کی زندگی انہیں حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے بر خلاف کتنے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صائم نہ ہونے کی حالت میں بھی حقیقت کے اعتبار سے صائم ہوتے ہیں۔ ان کا کان غیبت سے نا آشنا، ان کی نگاہیں عفیفت اور پاکباز اور ان کی زندگی پاکیزگی اور خدا ترسی کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ یہ بات ہم میں اگر پیدا نہ ہو سکی تو گویا ہم نے سرے سے روزہ نہیںرکھا۔ چنانچہ تاجدار کا ئنات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے’’ جس کسی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہیں چھوڑا تو خدا کو اس کی ضرورت نہیں کہ وہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑ دے‘‘۔ روزہ مقدس ترین عبادت ہے اس کی حقیقت محض تربیتی کورس کی نہیں یہی وجہ کہ روزہ اظہار تشکر کا ذریعہ بن سکا۔ بنی نوع انسانی پراللہ جلّ شانہ‘ کے احسانات کی کوئی انتہا نہیںہے۔ اس کا سب سے بڑا احسان ہے کہ ہمیں اشرف المخلوقات بنا کر دنیا میں بھیجا اور اس نے ہمیں قرآن جیسی نعمت سے نوزاہے ۔ قرآن بندوں کے لئے سب سے بڑی نعمت اور رحمت ہے۔قرآن سے انسان کو حیات ابدی اور دائمی فلاح کا راستہ دیکھایا، انسان کو اخلاق سے بلند مرتبے پر کھڑا کیا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ روزہ رکھ کربندہ اس نعمت کی خوشی اور شکر گذاری کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ انسان کے مجدو اشرف کی اصل چیز حقیقت میں وہ تعلق اور نسبت ہے جو اس کے اور خدائے برتر کے درمیان پایا جاتا ہے
انسان کے لئے خوشی اور مسرت کے اظہار کا بہترین اور کامل ذریعہ وہی ہے جس سے بندے اور خدا کے درمیان پائے جانے والے تعلق اور نسبت کا اظہار ہوتا ہو یہی وجہ ہے کہ عیدین کے موقع پر اپنی خوشی کا اظہار ہم خاص طور پر تکبیر اور نماز کے ذریعہ کرتے ہیں۔یہ نماز اور تکبیر مسرت کا اظہار بھی ہے اور خدا کے حضور بندے کی طرف سے ادائے شکر بھی اسی طرح روزے سے بھی شکر کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے۔ خدا نے قرآن کریم نازل فرماکر اپنی نعمت تمام کر دی بندے بھی اس کی خوشی اور شکر گذاری میں روزہ رکھتے ہیں اور کامل طہارت اور پاکیزگی کے ساتھ خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
روزہ کی کوئی ظاہری شکل و صورت نہیںہے۔نفس اور پیٹ کی گہرائی میں اٹھنے والی بھوک، پیاس اور جنسی خواہش کو کوئی دوسرا دیکھ نہیں سکتا نہ محسوس کر سکتا ہے، نہ کوئی کسی کے احساس میں شریک ہو سکتا ہے۔ ان خواہشات کو قربان کردینے کی بھی کوئی ظاہری شکل نہیں لہٰذا اس ترک خواہشات کو مادّی پیمانوں سے نہیں ناپا تولا جا سکتا۔ روزہ تو خالص حضوری رب العا لمین کے یقین ہی پر قائم ہوتا ہے ۔ اس کی یہی روح ہے۔ اللہ جلّ شانہ،ہر وقت ساتھ ہے۔وہ تو شہ رگ سے زیادہ قریب ہے ۔ اپنے رب کے سامنے ہونے پر ایمان ہی روزہ کا اصل ثمر ہے۔ اسی لئے حدیث قدسی میں فرمایا گیا ہے کہ ’’ روزہ صرف میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دے سکتا ہوں‘‘ (بخاری، مسلم)۔تقویٰ اسی ایمان کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔تقویٰ کے لفظی معنی بچنے کے ہیں۔ تقویٰ ، قلب و روح، شعور آگہی ، عزم و ارادہ ، ضبط و نظم اور عمل و کردار کی اس قوت کا نام ہے جس کے بل پر ہم اس چیز سے رک جا ئیں جس کو ہم غلط جانتے اور مانتے ہوں اور اپنے لئے نقصان دہ سمجھتے ہوں، اور اس پر جم جائیں جس کو صحیح جانتے اور مانتے ہوں ۔ تقویٰ کی وجہ سے اللہ رب العزت برائیاں جھاڑ دیتا ہے اور اجر عظیم سے نوازتا ہے۔
آج ہم روزہ رکھتے ہیں پھر بھی اس سے وہ نتائج حاصل نہیں ہوتے جو فطرتاََ اس سے حاصل ہونی چاہیے اس کی وجہ حقیقت میں یہ ہے کی ہم روزہ تو رکھتے ہیں مگر اس کے آداب و شرائط کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ روزے میں کھانے پینے سے تو ضرور رک جاتے ہیں لیکن ان باتوں سے نہیں رکتے جن سے ہمیں احتراز کا حکم دیا گیا ہے۔ بظاہر روزے سے ہوتے ہیں لیکن ہمارے تمام اعضاء و جوارح اور ظاہری و باطنی جذبات صائم نہیں ہوتے ۔ نہ تو اپنے ہاتھ پاؤں اپنی نگاہ اور دل کو منکرات سے روکتے ہیں اور نہ ہماری زبانیں بدگوئی غیبت اور کذب و اختراء سے محفوظ رہتی ہیں۔ ہماری کان معصیت کی طرف بلانے والی آوازوں کو سنتے ہیں اور ہمیں کھانے پینے اور لین دین اور دیگر معاملات میں حلال و حرام کا بہت کم خیال ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں اگر ہم روزے سے ثمرات و برکات کی توقع رکھتے ہیں تو یہ ہماری نادانی ہے۔ روزہ در حقیقت وہی ہے جس سے اس کے آداب کا پورا لحاظ رکھا جائے اسی سے وہ زندگی میسر آ سکتی ہے جسے تقویٰ اور احسان شناسی کی زندگی کہا جاسکے۔ اگر روزہ سے واقعتاََ فائدہ اٹھایا جائے تو وہ اس کو اس مقام پر کھڑا کر دیتا ہے کہ اسے ہمہ وقت ذمہ داری کا احساس رہتا ہے اس کے شب و روز کبھی بے خوفی اور بے پروائی میں نہیں بسر ہوتے۔ روزہ میں ہمہ وقت اس کا احساس ہونا ہی چاہیے کہ وہ روزے سے ہے۔ وہ اپنے روزے کی طرف سے غافل نہ ہو روزے کی حفاظت کو اپنا فرض سمجھے۔ کامیاب ہے وہ شخص جس پر یہ حقیقت کھل گئی کہ اس کی ذمہ داری صرف روزے کے ظاہری آداب و شرائط کی نگہداشت تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے آگے یہ بھی اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ روزے کے اصل مقصد سے غافل نہ ہو۔ آپ جانتے ہیں کہ روزے کی جز اصل غرض و غایت ہے وہ صرف روزے کے زمانے میں مطلوب نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق انسان کے پورے عرصۂ حیات سے ہے۔یہ روزہ انسانی زندگی میںتقویٰ ، ضبط نفس امر الٰہی کی اطاعت اور صبر کی صفات پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
ربّ کائنات ہم سب کورمضان المبارک میں وہ تقویٰ عطا فرمائے جوروزہ کا اصل مقصود ہے۔ ہمارے نفسوں کو مزکیّٰ ، قلبوں کو مصفیّٰ،اور ظاہر و با طن کو پاک کر دے۔ اس ماہ مبارک کی برکتوں سے اپنی اپنی جھولیاں بھرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Comments are closed.