ظریفانہ: بانٹیں گے اور کاٹیں گے

 

ڈاکٹر سلیم خان

للن یادو سے کلن تیواری نے کہا یار میں تو اپنے یوگی جی کو بہت بہادر سمجھتا تھا لیکن وہ بھی بزدل نکلے ؟

کلن بولا کیا بکتے ہو للن ! فی الحال دیش میں سب سے دلیر اپنے پردھان جی ہیں مگر ان سے دو چھٹانک زیادہ ویر بہاد ر یوگی جی ہیں ۔

اچھا اگر ایسا ہے تو چندر شیکھر راون کے دباو میں آکر بیچاری ابلہ ناری رینو تیواری پر ایف آئی آر کیوں درج کرلی ۔

کلن نے پوچھا کیا بکتے ہو ؟ اس بیچاری کے ساتھ مکٹ منی نے گستاخی کی اسے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانے کے لیے کہا اور چھوا بھی ۔ یہ تو بہت برا ہوا۔

جمن خان بیچ میں بول پڑایار مجھے تو اس عورت کے بیان پر شک ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنی کھال بچانے کی خاطر اس کو آلۂ کار بنایا گیا ہے۔

کلن بولا کیا مطلب؟ تم ایک پنڈتائن کو بدنام کررہے ہو؟ تمہیں شرم آنی چاہیے۔

میں رینو تیواری کی نہیں ان لوگوں کی مذمت کررہا ہوں جنھوں نے اپنے پاپ چھپانے کے لیے رینو تیواری سے جھوٹےالزامات لگوا کر پھنسا دیا۔

للن بولا بہت خوب جمن تفتیش سے پہلے ہی تمہیں معلوم ہوگیا کہ وہ الزامات جھوٹے ہیں ۔ یہ بہت غلط بات ہے۔

جمن بولا بھیا ان الزامات کا تضاد گواہی دے رہا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ پہلے تواپنے شوہر کے آنے سے پہلے وہ کھانا پروسنے لگی اور ۳ دن چپ رہی۔

للن بولا الزام چھوڑو یہ بتاو کہ مکٹ منی یادو نے اپنی ذات چھپا کر دھوکہ کیوں دیا؟براہمنوں کے آسن پر کتھا سنانے کیوں بیٹھ گیا؟پھر بھی ہمدردی؟

جمن خان یہ سن کر چونک پڑا۔ وہ بولا یار کچھ تو سوچو ؟ وہ تمہارے یادو سماج کا آدمی ہے پھر بھی تم اس کے خلاف بول رہے ہو ؟ کچھ تو شرم کرو؟

للن نے جواب دیا دیکھو بھائی جمن ہم سارے سناتنی متحد ہوکر ہندو راشٹر بنا رہے ہیں اور وہ مکٹ منی ہمیں بانٹ رہا ہے؟ اس لیے کیسی ہمدردی؟

کلن بولا صحیح بات ہے یوگی جی نے پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ ’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ اور مکٹ منی ہمیں کٹوانے کے لیے بانٹ رہا تھا۔

جمن نے کہا یار تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہے؟کیا بھاگوت کتھا کرنا ہندووں کو بانٹنا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ برہمن دن رات یہ کام کرتے ہیں ۔

کلن بولا چپ کرو جمن خان ۔ تم ہمارے دھرم کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اس لیے اپنی چونچ بند رکھو ۔

للن نے کہا یہ کیسے چپ رہے گا ۔ اسے تو خوشی ہے کہ ہم بنٹ رہے ہیں ۔ مجھے تو مکٹ منی مسلمانوں کا ایجنٹ لگتا ہے۔

جمن نے ہنس کر کہا یار للن تم ہندوتوا کے چکر میں پڑ کر پاگل ہوگئے ہو ۔ تمہیں نہ تو اپنے قبیلے کی فکر ہے اور نہ انسانیت کا خیال ہے ۔

للن نے پوچھا اس میں انسانیت کہاں سے آگئی؟ کچھ بھی بکواس نہ کرو۔

جمن بولا یار ایک آدمی کی چوٹی کاٹنا ، سرمنڈوانا ، پچیس ہزار جرمانہ وصول کرکے اسے عورت کے پیشاب سے پاک کرنا انسانیت ہے کیا؟

کلن نے کہا زیادہ گیان نہ بانٹو کیا سمجھے ؟یہ سب ہمارے دھرم شاستروں (مذہبی صحیفوں )کے مطابق ہے۔ اس میں دخل اندازی برداشت نہیں ۔

جمن بولا یار یہ کیسا دھرم ہے جو ایک انسان کو مذہبی کرم کانڈ کا انعام دینے کے بجائے سزا دیتا ہے ۔

کلن نے کہا دیکھو منو سمرتی کے مطابق کتھا سنانا برہمنوں کے کرنے کا کام ہے ۔ ایک یادو یہ نہیں کرسکتا ۔ کیا سمجھے ؟

جمن نے پوچھا اچھا یہ بتاو کیا یادو کتھا سن سکتا ہے یا اس کے لیے چندہ دے سکتا ہے؟

للن بولا کیوں نہیں ؟منو سمرتی کہتی ہے وہ تو پونیہ (ثواب) کا کام ہے مگر کوئی یادو اوپر آسن پر بیٹھ کر اپنے پیروں میں برہمن کو بیٹھائے یہ پاپ ہے۔

جمن بولا یار یہ بتاو کہ یادو اگر برہمن کے قدموں بیٹھ کر کتھا سنے تو پونیہ اور برہمن یہی کرے تو پاپ ؟ یہ کیسا انصاف ؟؟

کلن بولابھیا جو سر سے پیدا ہوا ہو وہ تو اوپر ہی ہوگا اور پیر سے پیدا ہونے والا نیچے۔ اس میں حیرت کی کیا بات ؟

جمن نے پوچھا یار تم یہ کون سی بے سر پیر کی منطق لے آئے ؟سارے انسان ایک سے پیدا ہوکر مرجاتے ہیں ۔ اس میں کہاں کوئی بھید بھاو ہے؟

للن نے تائید میں کہا ہاں یار اب تو مجھے جمن کی بات ٹھیک لگ رہی ہے۔ ایک ہی کام ایک کے لیےپونیہ دوسرے کے لیے پاپ کیسے ہوسکتا ہے؟

کلن یہ سن کر گھبرا گیا ۔ وہ بولا دیکھو للن یہ جمن ہمیں آپس میں لڑا رہاہے اور پردھان جی نے کہا تھا کہ ’ایک ہیں تو سیف (محفوظ) ہیں‘۔ کیا سمجھے؟

جمن نے پوچھا بھیا یوگی اور پردھان جی کے ہوتے ہندو کیسے غیر محفوظ ہوسکتا ہے اور اگر یہ سچ ہے تو ان کے اقتدار کا کیا فائدہ ؟

للن بولا ہاں یار کہیں یہ دونوں ہندووں کو بیوقوف تو نہیں بنارہے ہیں۔ ہمیں ڈرا کر مسیحائی کی دوکان تو نہیں چلا رہے ہیں؟

کلن نے کہا یار مجھے تو لگتا ہے یوگی خود ہی بیوقوف ہیں اس لیے وہ دوسروں کو کیا احمق بنائیں گے؟

للن نے پوچھا کیا بکتے ہو یار؟ یوگی تو ہمارے مستقبل کے پردھان ہیں۔ تم ان کے بارے میں ایسی بات کیسے کرسکتے ہو؟

جمن نے چٹکی لیتے ہوئے کہا بھائی للن برا نہ مانو ہمارے موجودہ پردھان نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وزیر اعظم کا عقلمندہونا ضروری نہیں ہے۔

کلن بولا مکٹ منی کانڈ کے بعد برہمن سماج کانگریس کے بجائے بی جے پی کی طرف آرہا تھا لیکن رینو پر ایف آئی آر نے سب گڑ گوبر ایک کردیا۔

جمن بولا لگتا ہے یادو سماج کی ناز برداری کے لیے یوگی نے یہ چال چلی ۔ وہ ان میں پھوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔

للن بولا بھائی میں یادو ہوں مجھے پتہ ہے اگر یوگی جی الٹے لٹک جائیں تب بھی یادوعوام جھانسے میں نہیں آئیں گے اور اب تو یہ ناممکن ہوگیا ہے۔

کلن نے پوچھا کیوں اب کون سا پہاڑ ٹوٹ گیا۔ ایک یادو کتھا واچک (صحیفہ خواں) کی حمایت کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ؟

للن بولا یار تم خود سوچو کہ پیشاب سے کوئی پوتر( پاک ) ہوتا ہے یا ناپاک ؟ یادو سماج اپنا یہ اپمان ( بے عزتی) کیسے بھول سکتا ہے؟

کلن نے مدافعت میں کہا ارے بھائی سمجھتے کیوں نہیں ؟ مکٹ منی کا قصور کتھا پڑھنا نہیں تھا بلکہ اپنی ذات چھپانا تھا ۔ یہ اس جرم کی سزا ہے۔

جمن نے کہا یار سزا دینے کا حق عدالت کو ہے یا لوگوں کو ؟ جس کا جی چاہےسر مونڈدیا اور جرمانہ وصول کرلیا ۔ یہ تو جنگل راج ہے۔

کلن بولا میں تو کہتا ہوں اس کی زبان کاٹ دیتے تاکہ زندگی بھر کبھی کتھا سنانے لائق نہیں رہتا ۔

للن نے کہا بھیا ہمیں کو تو یہی سکھایا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان گائے کے ساتھ ملے تو یہ جانے بغیر کہ وہ کیوں لے کرجارہا اس کی ماب لنچنگ کردو۔

جمن بولا لیکن مکٹ منی یادو ہے مسلمان تھوڑی نا ہے ؟

للن بولا بھیاہندوتوا کے جنون میں ہم بھول گئے تھے کہ ’اگلا نمبر ہمارا ہے‘۔ میں خود بھی ان کے جھانسے میں آگیا تھا ۔

کلن نے پریشان ہوکر کہا بھیا للن تم تو اپنے پرانے آدمی ہو ۔ سنگھ شاکھا میں پلے بڑھے ہو پھر بھی جمن کے بہکاوے میں آگئے ۔ کچھ تو سوچو؟

للن بولا میں جمن کے بہکاوے میں نہیں آیا ۔ یہ بتاو مکٹ منی کے معاملےمیں سنگھ کو کیوں سانپ سونگھ گیا ہے؟ موہن بھاگوت کیوں نہیں بولتے؟

جمن نے کہا بھائی دھرم کرم کا معاملہ ہے اس لیے اس پر شنکر اچاریہ اوی مکتیشور آنند کی کھری کھری سن لو ۔ یہ کہہ کر اس نےویڈیو چلا دی ۔

ویڈیو دیکھ کر للن نے کہا یار یہ منو سمرتی کو آئین سے بھی برتر بتا رہے ہیں؟

کلن بولا ان کی منطق تو سنو ۔ پچھلے سترّ سال میں یہ دستور ہندوستان میں بھی نافذ نہیں ہوسکا مگر منو سمرتی کے مطابق تو پوری کائنات چل رہی ہے؟

للن بولا لیکن کائنات میں تفریق و امتیاز کہاں ہےَ سورج روشنی دینے سے قبل کسی کا آدھار کارڈ نہیں دیکھتا اور نہ بارش کوئی بھید بھاو کرتی ہے ؟

کلن بولا بھائی آسمان سے برسنے والاپانی تو سب کے لیےہے مگر برہمن اور شودر کا ایک کنواں کیسے ہو سکتا ہے؟ خودہمارے گاوں میں بھی الگ ہے۔

للن بولا ہاں بھیا میں سمجھتا ہوں کہ اسی عقیدے نے یادو کتھا واچک کی رسوائی کروائی ۔ اس کی بیخ کنی ہونی چاہیے۔

جمن بولا شنکر اچاریہ کا کہنا ہے کوئی ملک سے باہر چلاجائے تو اس پر ہندوستانی آئین نافذ نہیں ہوتا مگرایک ہندو ہر جگہ منو سمرتی کی پابندی کرتا ہے۔

للن نے نے کہا یار یہی بات تو جمن اپنے قرآن کے لیے بھی کہہ سکتاہے ؟ تو اس پر شنکر اچاریہ کیا کہیں گے ؟

جمن بولا یہ سوال تو ان سے این ڈی ٹی وی پر اوستھی نے کیا تھا ۔ اس پر وہ بولے تو میں کیا کروں؟ یعنی اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔

للن بولا لیکن کیا ہمارا آئین کسی یادو کو بھاگوت کتھا سنانے سے روکتا ہے؟

کلن نے جواب دیا شنکر اچاریہ کا کہنا ہے آئین کی کتھا ہر کوئی سنا سکتا ہے لیکن ہندو دھر م شاستر کے مطابق بھاگوت کتھا تو برہمن ہی سنا سکتا ہے؟

جمن بولا یار کلن یہ بتاو کہ جس والمیکی نے رامائن تصنیف کی کیا وہ برہمن تھے؟ اور اگر ان کی رامائن کو شودر سنا دے تو اس میں کیا حرج ہے؟

للن بولا بھیا جمن کرشن کے مہابھارت کی جنگ میں کہے جانے والے پروچن بھگوت گیتا کہلاتے ہیں اور وہ خود یاد و یعنی یدو ونشی تھے ؟

جمن بولا یار یہ تو غضب تماشا ہےجس نے کتھا لکھی اسی کے ونشج ( اولاد) اپنے آباو اجداد کی کتھا نہیں پڑھ سکتے ۔

کلن نے کہا ادھورا گیان نقصان دہ ہوتا ہے ۔ پُرانوں کے مطابق والمیکی اپنے برہمن والدین کے سعادتمند بیٹے تھے ؟

للن بولا اچھا تو اس زمانے برہمن ڈکیتی بھی کرتے تھے اس لیے کہ ہم نے سنا ہے وہ پہلے ڈاکو تھے، پھر توبہ کرکے شاعر اعظم بن گئے ۔

ارے بھائی سمجھتے کیوں نہیں بھیل سماج کے لوگوں نے انہیں اغواء کرکے پرورش کی تو وہ اپنے والد کے نقشِ قدم پر ڈاکو بن گئے ۔

جمن بولا یار یہ بھی خوب ہے والمیکی اگر ڈکیتی کرے تو بھیل سماج کے سبب اور رامائن لکھے تو برہمن والدین کی بدولت ۔ کمال منطق ہے صاحب!

للن بولا بھیا یہ سب نہ ہوتا تو مکٹ منی کے ساتھ یہ ظلم نہ ہوتا اور یار دوست اسے جائز نہیں ٹھہراتے ۔ مگر اس واقعہ نے میری آنکھ کھول دی ۔

Comments are closed.