بجرنگ دل پر پابندی کیا صرف ایک نعرہ ہے؟

 

مدثر احمد شیموگہ ۔8310980542

کرناٹک کی انتخابی فضا میں جب کانگریس پارٹی نے اپنے منشور میں یہ اعلان کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ بجرنگ دل پر پابندی عائد کرے گی،تو اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں نے اسے ایک جراتمند قدم سمجھاتھا۔ بجرنگ دل، جس کی سرگرمیاں اکثر فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دیتی رہی ہیں، اس پرپابندی کی بات کرنا کم از کم نچلی سطح پر ایک تسلی بخش بیان تھا۔ لیکن جب کانگریس اقتدار میں آئی، تو حقیقت اس اعلان سے بالکل مختلف نظر آئی۔اب کانگریس کےرہنما پرینکا کھرگے نے یہ بیان دیا ہے کہ اگر مرکز میں کانگریس برسرِ اقتدار آتی ہے تو آر ایس ایس پر پابندی عائد کرے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو پارٹی ریاست میں اپنی مکمل اکثریت ہونے کے باوجودبجرنگ دل جیسے ایک ذیلی تنظیم پر پابندی نہیں لگا سکی، وہ مرکز میں مختلف جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بناتے ہوئے کس بنیاد پر آر ایس ایس جیسی وسیع و عریض تنظیم پر پابندی عائد کرے گی؟کیا یہ بیان صرف ایک سیاسی جملہ ہے؟یا پھر ایک بار پھر اقلیتوں کو امید کا سبز باغ دکھا کر ووٹ حاصل کرنےکی کوشش؟یہ کوئی راز نہیں کہ آر ایس ایس ایک نظریاتی تنظیم ہے جو نہ صرف بی جے پی کو نظریاتی ایندھن فراہم کرتی ہے بلکہ ملک کے مختلف اداروں میں اس کا اثر و رسوخ بھی موجود ہے۔ آر ایس ایس پر پابندی محض سیاسی ہمت نہیں، بلکہ ایک ٹھوس قانونی اور ادارہ جاتی منصوبہ بندی کا مطالبہ کرتی ہے۔ اور جب ریاستی سطح پر ایک چھوٹے گروہ کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی ہے تو ایسے میں آریس یس جیسی طاقتور تنظیم پر پابندی کا دعویٰ کرنا محض جذباتی سیاست نہیں تو اور کیا ہے؟۔ ایسے بیانات سے دو نقصانات ہوتے ہیں:

اول تو اقلیتوں میں جھوٹی امید پیدا ہوتی ہےاور دوم فرقہ پرست جماعتوں کویہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ کانگریس اکثریتی طبقے کے خلاف ہے، جس سے مزیددھارے بدل جاتے ہیں۔کرناٹکا کانگریس نے اپنے انتخابی منشور یعنی مینیفیسٹو میں واضح طورپر لکھا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد لاء اینڈآرڈ ر کی بہتری کے لئے باقاعدہ پی یف آئی ، بجر نگ دل جیسی تنظیموں پرپابندی لگائے گی ، مرکزی حکومت نے تو پی یف آئی پر پابندی لگا دی ہےلیکن کانگریس پارٹی اب اپنے وعدے سےمکر رہی ہے ، کئی دفعہ وزیر اعلیٰ سدرامیا کو اس سلسلے میں سوال کئے جانے کے باوجود وہ اس وعدے پر تبصرہ کرنے سے گریز کررہے ہیں مانو کہ وہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ بجرنگ دل پرکارروائی ہو۔ گزشتہ دو سالوں میں کرناٹک میں بجرنگ دل نے جس لیول پر شرانگیزی برپا کی ہے وہ چھپی ہوئی بات نہیں ہے ، مگر حکومت بجرنگ دل پرقانونی کارروائی کرنے کے بجائے صرف اس کے چند ایک کارکنوں پر مقدمے عائدکرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ وہ لاء اینڈ آر ڈ رکے تعلق سے سخت ہے ۔ حالانکہ کانگریسی لیڈران اس بات کا بھی دعویٰ کرتےہیں کہ انہوںنے ایمرجنسی کے دور میں آریس یس پر پابند ی عائد کی تھی،لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ ایمرجنسی میں صرف آریس یس پر ہی پابندی نہیں لگائی گئی تھی بلکہ جماعت اسلامی ہند سمیت کئی تنظیموں پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی ۔ یہ وقت ہے کہ کانگریس کھوکھلے نعر ے اور وعدوں کےبجائے عملی اقدامات کی بنیاد پر سیاست کریں۔ اقلیتوں کو بہلانے ، ان کےجذبات سے کھیلنے، یا ووٹ بینک کے لیے وعدے کرنے کا وقت ختم ہونا چاہیے۔

اگر واقعی کسی جماعت کو فرقہ پرستی کی جڑیں کاٹنی ہیں تو سب سے پہلے اسےاپنے وعدوں پر عمل کرکے عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔ورنہ یہ سوال ہمیشہ گونجتا رہے گا کہ کیا یہ بیانات صرف جملے ہیں؟ یا اقلیتوں کو ایک بار پھر بے وقوف بنانے کا ہنر؟۔

 

Comments are closed.