انوار رمضان اور ہماری ذمہ داری

نثار احمد حصیر القاسمی
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ، حیدرآباد ۔
پوسٹ باکس601 حیدرآباد 500002
[email protected]
رمضان کا مبارک مہینہ ہمیشہ سے علماء ومفکرین اور اتقیاء وصالحین کیلئے دلچسپی کا سامان رہا ہے، ان کے شب وروز، مواعظ حسنہ اور اوصاف حمیدہ اور عبادت وریاضت میں کٹتے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کو اپنی مخلوق کے لئے ریس لگانے کا میدان بنایا ہے، بندہ اس میں طاعت وبندگی کے ذریعہ اپنے رب کی خوشنودی کیلئے دوڑ لگاتا اور آگے نکل جانے کی کوشش کرتا ہے، جس نے سبقت حاصل کی، اور دوڑ میں آگے نکل گیا، اس نے کامیابی حاصل کرلی، اور جو لوگ پیچھے رہ گئے وہ ناکام ونامراد رہے، اور ان کے حصہ میں سوائے افسوس ومایوسی کے اور کچھ نہیں آیا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما مرفوعاً روایت کرتے ہیں، کہ ’’ اگر تم روزہ رکھو تو چاہیے کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں بھی روزے رکھیں اور تمہاری زبان بھی کذب بیانی اور محرمات سے باز رہے، روزے کا تقاضہ ہے کہ آپ پڑوسیوں کو تکلیف پہنچانے سے رک جائیں، روزہ کی حالت میں آپ پر وقار وسکون اور اطمینان ہونا چاہیے، آپ اپنے روزے کے ایام کو دوسرے دنوں جیسا نہ بنائیں، حضرت حسن بصری ؒ سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے روزے کو اپنے بندوں کے لئے گھوڑ دوڑ کا میدان بنایا ہے، تاکہ بندے اللہ کی اطاعت وفرما نبرداری میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں، ایک قوم سبقت لے گئی تو وہ کامیاب ہوگئی، اور اللہ کی قسم اگر پردے اٹھا دیئے جائیں، تو ہر خیر وخوبی اور نیکی کرنے والا یا برائیوں میں ڈوبا ہوا شخص نئے کپڑے بنانے یا بال میں کنگھی کرنے سے بھی کنارہ وغافل ہوجائے، امام شافعیؒ کا قول مشہور ہے، وہ فرماتے تھے کہ میں روزہ داروں کیلئے رمضان کے مہینہ میں طاعت میں زیادتی کا خواہش مند ہوں، کہ اسی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء ہے، میں چاہتا ہوں کہ ان ایام میں لوگ اپنے مفادات ومصلحتوں سے بڑھ کر دوسروں کی ضرورتوں میں مشغول ہوں، اور اپنے مالی منفعت سے بڑھ کر دوسروں کو منفعت پہنچانے میں لگیں، امام غزالیؒ کا کہنا ہے کہ روزہ نفس کی زکوٰۃ ، جسمانی ورزش اور خوبی و نیکی کا داعی ہے، وہ انسان کیلئے ڈھال اور نفس کیلئے حفاظتی سامان ہے، جسم کے بھوکا رہنے میں قلب کی صفائی ، طبیعت کی آمادگی اور بصیرت کو جلا بخشنا ہے، کیونکہ پورے طور پر شکم سیری کندذہنی وسستی اور ذہنی وجسمانی پستی پیدا کرتی ، قلب کو اندھا بنا دیتی ،اور لڑائی جھگڑے اور نوک جھونک میں اضافہ کرتی ہے، اس کی وجہ سے ذہن میں بالیدگی پیدا ہوتی اور اس پر زنگ چڑھ جاتا ہے، بچہ جب زیادہ کھاتا ہے تو اس کا ذہن وحافظہ کمزور ہوجاتا ہے، اپنے دلوں کو کم ہنس کر زندہ رکھو، اور کم کھا کر روشن رکھو، اور اسے بھوکا رکھ کر پاک وصاف کرو، حافظ ابن قیم جوزیہؒ فرماتے ہیں کہ روزے کا مقصد نفس کو خواہشات وشہوات سے روکنا اور مالوف وپسندیدہ چیزوں کی غذا فراہم کرنا ہے، شہوانی خواہشات کو اس لئے روکنا ہے کہ نفس اس چیز کی طلب میں لگ جائے، جس میں دارین کی سعادت اور ابدی نعمت ہو، وہ ان چیزوں کو قبول کرسکے جس سے اس کے نفس کا تزکیہ ہو، پھر وہ ابدی زندگی سے لطف اندوز ہوسکے، روزہ میں بھوک اور پیاس کی شدت کو برداشت کرنا پڑتا ہے تاکہ روزہ دار کو بھوکوں اور مسکینوں کی حالت کا اندازہ ہو، اور کھانے پینے کے راستوں کی بندش وتنگی کے ذریعہ بندہ کے اندر شیاطین کے راستوں کو بند کیا جاتا اور اس کی دخل اندازیوں پر روک لگائی جاتی ہے، اس طرح جسم انسانی کے ہر عضو کو روزہ کے ذریعہ سرکشی سے روکا جاتا ، اور نفس امارہ کے تقاضوں پر لگام کسا جاتا ہے، اسی لئے اللہ کے نبی صلعم نے فرمایا ہے کہ رمضان کا مہینہ جب داخل ہوتا ہے تو شیاطین کو پابزنجیر کردیا جاتا اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، روزے کی انہیں فوائد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ کے نبی صلعم نے فرمایا ہے :
من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج فانہ اغض للبصر واحسن للفرج فان لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء (بخاری جلد ا صفحہ نمبر110)
کہ تم میں سے جس کے اندر نکاح کی استطاعت ہو وہ ضرورشادی کرے اور جو اس پر قادر نہ ہو تو اسے روزہ رکھنا چاہیے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات کو توڑنے کا ذریعہ اور جسمانی خواہشات کے ابھار کو ٹھنڈا کرتا ہے۔
روزے کے فوائد واسرا ر کا تذکرہ کرتے ہوئے ابن رجب حنبلی نے کہا ہے کہ رمضان میں اعمال کا ثواب جس طرح بڑھا دیا جاتا ہے، اسی طرح رمضان کا روزہ دیگر ایام کے روزں سے افضل اور اجر میں بڑھا ہوا ہے، کیونکہ اس کے ایام دیگر ایام سے افضل واشرف ہیں، اور یہی وہ روزہ ہے جسے اللہ نے بندوں پر فرض کیاہے، اور ان روزوں کو اسلام کے ان پانچ ارکان میں سے ایک قرار دیا ہے، جس سے اسلام کی عمارت کھڑی ہوتی ، اور وہ اسلام کی بنیاد واساس ہے، احنف بن قیس ؒ سے کہا گیا کہ آپ بوڑھے اور کمزور ہوچکے ہیں، اور روزہ آپ کو مزید کمزور ونڈھال بنا دے گا، تو انہوں نے جواب دیا ،میں اس کے ذریعہ اپنے طویل سفر کی تیاری کرتا ہوں ، یہ میرے لمبے سفر کا توشہ ہے، اور اللہ کی طاعت وبندگی پر صبر کرنا اور مشقتوں کو برداشت کرنا اس کے عذاب پر صبر کرنے سے آسان ہے،
مصر کے مشہور مفکر اسلام مصطفی صادق الرافعی نے تحریر کیا ہے کہ نفس کا قاعدہ ہے کہ رحمت درد والم سے پیدا ہوتی ہے، روزے کا یہی عظیم تر معاشرتی راز اور حکمت ہے کیونکہ بندہ مومن روزہ کی حالت میں غذا یا غذا کی مشابہ چیزوں سے رکنے وباز رہنے اور شکم کو ان اشیاء سے دور رکھنے میں مبالغہ سے کام لیتا اور آخری دم تک اس سے پرہیز کرتا رہتا ہے، نفس انسانی میں رحم وکرم کا مادہ پیدا کرنے کا یہ سب سے بہتر عملی طریقہ ہے، کہ اس سے انسان کو دوسروں کے دکھ درد کو سمجھنے اور صحیح طریقہ پر اس کا احساس کرنے کا موقع ملتا ہے، اس سے نفس میں اس قدر رأفت ورحمت کے جذبات پیدا ہوتے اور تعاون کا داعیہ ابھرتا ہے جتنا کہ کسی آفت سماوی یا حوادث وبحران کے وقت بھی نہیں ابھرتے ہیں، یہ اسلام کا معجزہ ہی ہے کہ اس نے روزہ کے ذریعہ جسم انسانی اورروح بشری کو صحت مند برقرار رہنے کی یہ تدبیر سجھائی اور بارہ مہینوں میں سے ایک ماہ کو صحت پر توجہ مرکوز رکھنے کا مہینہ قرار دیا ہے، تاکہ جسم انسانی کے سارے پرزے سال بھر کے مسلسل عمل سے راحت پائیں، اور اعصاب کو درست کرکے ڈھیلے پڑتے اعضاء کی ترمیم واصلاح کرسکے۔
انسان اس دنیا میں ہمیشہ یکساں حالت میں نہیں رہتا بلکہ سردی وگرمی اور بیماری وحوادث سے دوچار ہوتا رہتا ہے،مریض کی دنیا میں رمضان جب اپنی تابناکی اور خیرو برکت کیساتھ آتا ہے تو بیمار شخص صحت کے زمانہ میں اپنی کوتاہیوں پر نادم ہوتا ہے، اسے اپنی کوتاہیوں ، کمزوریوں اور حزن وملال اور درد والم کا احساس ستانے لگتا ہے، رمضان آتا ہے، مگر رمضان جیسے مقدس مہینہ سے بیمار شخص عذر کی وجہ سے استفادہ کرنے سے محروم رہ جاتا اور روزہ رکھنے والوں کے قافلہ میں شریک ہونے سے دور رہ جاتا ہے، مریض کو آج اس بات کی ضرورت ہے کہ اسے کوئی اور تسلی دے قائل ومطمئن کرتے ہوئے کتاب وسنت سے اس کی دلیل پیش کرے اور یہ آیت پڑھے جس میں اللہ تعالیٰ نے بیماروں یا بیمار جیسے افراد کیلئے رخصت رکھی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ِ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُواْ الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُواْ اللّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ (سورۃ بقرۃ آیت نمبر:185)
ترجمہ:تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہیے، ہاں جو بیمار یا مسافر ہو ،اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں، وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اوراللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائی بیان کرو۔ اور اس کا شکربجا لائے ۔
ہر مسلمان کو بالخصوص بیماروں کو سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو جس طرح عزیمت پر عمل اور اس کی ادائیگی پسند ہے، اسی طرح اسے رخصت پر عمل بھی پسند ہے، بہت سے بیماروں کی آنکھوں سے آنسو رواں اور مارے غم کے وہ اس بات پر نڈھال ہیں کہ رمضان کا روزہ رکھنے کی ان میں سکت ومقدرت نہیں ہے، اے کاش کہ وہ اس وقت توانا اور صحت مند ہوتے تو وہ روزہ داروں کیساتھ روزے میں شریک ہوتے، وہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی اس حدیث کو پڑھ کر رونے لگتا ہے، جس میں آپ صلعم نے پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جاننے کی تاکید کی ہے۔
اغتنم خسما قبل خمس (الح) (البیہقی :شعب الایمان حدیث نمبر10250 صفحہ:263)
ان پانچ میں سے ایک جسمانی صحت بھی ہے کہ آپ صلعم نے صحت کو بیماری کے آنے سے پہلے غنیمت جاننے کا حکم دیا ہے، ہوسکتا ہے کہ اس بیمار کی گریہ وزاری اللہ کے نزدیک روزہ سے بھی زیادہ وزنی ہوجائے، کیونکہ مریض کو محض روزے کی نیت پر ثواب مل جائے گا، اور اگر اس میں صدق واخلاص ہو تو اس اجر میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے، خود اللہ کے نبی صلعم کا ارشاد ہے:
عن انس ابن مالک ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رجع من غزوۃ تبوک فدنا من المدینۃفقال : ان بالمدینۃ اقواما ما سرتم میسراً ولا قطعتم وادیاً الا کانوا معکم ، قالوا: یا رسول اللہ! وھم بالمدینۃ ؟ قال : وھم بالمدینۃ ، حبسھم العذر(بخاری حدیث نمبر 2223)
ترجمہ: مدینہ میں ایسے افراد ہیں کہ تم جس راستے پر بھی چلے اور جس وادی سے بھی گذرے وہ تمہارے ساتھ تھے، عذر نے انہیں روک رکھا تھا، دوسری روایت میں عذر کے بجائے مرض کا لفظ ہے کہ مرض نے انہیں روک رکھا تھا، حدیث کا مطلب ہے کہ انسان اگر عمل صالح کی نیت کرلیتا ہے، مگر کوئی عذر رکاوٹ بن کر اس عمل کو انجام دینے سے بندے کو روک دیتا ہے، تو اس بندے کیلئے جس کی اس نے نیت کی ہے، اس کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے، البتہ انسان اگر قدرت واستطاعت کے زمانہ میں عمل کرتا ہو، اور جب تک وہ عمل پر قادر رہا عمل کرتا رہا، پھر بعد میں اس پر عمل کرنے سے قاصر ولاچار ہوگیا، تو اسے اس زمانہ کے عمل کا بھی ثواب ملے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
عن ابی بردۃ سمعت ابا موسیٰ مراراً یقول قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا مرض العبد أو سافر کتب لہ مثل ما کان یعمل مقیماً صحیحا (بخاری باب افراد مسلم جلد ۱ صفحۃ:189)
جب بندہ بیمار ہوتا یا سفر کرتا ہے، تو (اس حالت میں بھی ) اس کے لئے وہ اجر وثواب لکھا جاتا ہے، جو وہ حالت اقامت وصحت میں کیا کرتا تھا۔
آپ صلعم نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ جب انسان کے جسم میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت پر مامور فرشتوں کو حکم دیتا ہے، اور کہتا ہے کہ میرے اس بندے کیلئے ہر شب وروز وہ نیکی لکھ دو جو وہ اس وقت کرتا تھا، جب وہ میری گرفت میں تھا:
عن عبداللہ بن عمرو عن النبی ؐ قال ما احد من الناس یصاب ببلاء فی جسدہ الا امر اللہ عزوجل الملائکۃالذین یحفظونہ فقال اکتبوا لعبدی کل یوم ولیلۃ ما کان یعمل من خیر ما کان فی وثاقی(بحوالہ مسند احمد جلد 13 صفحہ:232)
بندئہ مومن کو سمجھنا چاہیے کہ انسانی زندگی ادلتی بدلتی رہتی ہے، کبھی توانائی ہوتی ہے، تو کبھی کمزوری ، کبھی صحت ہوتی ہے، تو کبھی بیماری ، کبھی تنگی ہوتی ہے تو کبھی خوشحالی، پھر جب مرض کی حالت میں رمضان اپنی تمام تر برکات وانوار کیساتھ آتا ہے، تو صحت وسلامتی کی حالت میں اپنی کوتاہیوں پر بندہ مریض نادم ہوتا اور کف افسوس ملتا ہے، اس کی یہ ندامت غفلت کے سالوں میں جو اس کے قلب پر زنگ چڑھا ہے، اس کیلئے صفائی وصیقل کا کام کرتی ہے، اسی لئے اللہ کے نبی صلعم نے فرمایا ہے:
عن ابن عمر یقول اذا امسیت فلا تنتظر الصباح واذا اصبحت فلاتنتظر المساء وخذ من صحتک لمرضک ومن حیاتک لموتک (صحیح بخاری :حدیث نمبر 5937)
اپنے مرض کے ایام کیلئے صحت مندی میں توشہ تیار کرو۔
سعادت مند وہ ہے جو بیماری کے امتحان میں کامیاب ہوجائے ، بیماری پر صبر کرکے اللہ کی خوشنودی حاصل کرے یا صحت وعافیت کو پا کر اس پر اللہ کا شکر بجا لائے اور نعمتوں میں اضافہ کرے، انسان دو عظیم اجر کے درمیان یعنی صبر کے مقام اور شکر کے مرتبہ کے درمیان پلٹتا رہتا ہے، اللہ کے نبی صلعم نے ارشاد فرمایا ہے۔
عن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ عن صھیب قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عجبا لامر المومن ان امرہ کلہ خیر ولیس ذاک لاحد الا المومن ان اصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ وان اصابتہ ضراء صبر فکان خیرا لہ ( صحیح بخاری حدیث نمبر:5318 صفحہ:282)
بندئہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کا ہر معاملہ خیر ہی خیر ہے، اور یہ صرف مومن کے حصہ میں آتا ہے۔ اگر اسے خوشحالی وکشائش ملتی ہے، تو وہ شکر بجا لاتا ہے، اور یہ اس کے حق میں خیر وبہتر ہوتا ہے، اور اگر اسے تکلیف ومصیبت پہنچتی ہے، تو وہ صبر کرتا ہے، اور یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ونبلوکم بالشر والخیر فتنۃ ( الانبیاء : آیت نمبر 35)
جس کا مفہوم ہے کہ ہم تمہیں کبھی مصائب وآلام دیکر آزمائیں گے اور کبھی نعمت دیکر ، کبھی تنگی دیکر آزمائیںگے اور کبھی کشائش وفراخی دے کر ، کبھی صحت دیکر، تو کبھی بیماری دیکر، کبھی مالداری دیکر، تو کبھی فقرو افلاس میں مبتلا کرکے، کبھی حلال کے ذریعہ تو کبھی حرام کے ذریعہ ، کبھی ہدایت کے ذریعہ تو کبھی گمراہی کے ذریعہ ، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ کون اللہ کا شکر بجا لاتا ہے، اور کون کفران نعمت کرتا ہے، کون صبر کرتا ہے، اور کون مایوس ہوکر واویلا مچاتا ہے، اس دنیا نے دو متضاد چیزوں اپنے اندر جمع کر رکھا ہے، یہ دنیا کسی ایک حالت پر برقرارنہیں رہتی ہے، اس میں سعادت مند وخوش بخت وہ ہے، جو اللہ کے فیصلوں اور اس کے قضاء وقدر پر راضی وخوش رہے، اور یقین جانے کہ اسے جو بیماری لاحق ہوئی ہے، وہ اس کے حق میں بہتر ہے، اگرچہ بظاہر اس کے برخلاف نظر آرہا اور درد وتکلیف کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے، مگر اس کی یہی تکلیف اسے اللہ رب العزت کی طرف پھیرتی اور اس کی طرف متوجہ ہونے پر آمادہ کرتی ہے، وہ اللہ کے سامنے گڑ گڑاتا اور عاجزی کیساتھ اور صدق دل سے دعائیں کرتا ہے، اسی وجہ سے تو بیماریوں اور تکلیفوں کی وجہ سے بندے کی برائیوں اور گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے، اللہ کے نبی صلعم کا ارشاد ہے:
عن ابی سعید وابی ھریرۃ انھما سمعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ما یصیب المومن من وصب ولا نصب ولا سقم ولا حزن حتی الھم یھمہ الا کفر بہ من سیأتہ (صحیح مسلم باب ثواب المومن فیما یصیب، حدیث نمبر:4670)
مومن کو جب بھی کوئی دکھ ،درد تکلیف، مشقت ، بیماری اور رنج والم لاحق ہوتا یہاں تک کہ فکر وتردد اور الجھن میں مبتلا ہوتا ہے، تو اللہ اس کے ذریعہ اس کے گناہوں کو ضرور دھودیتاہے۔
مسلم ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ اللہ اس کے ذریعہ اس کے گناہوں کو دھوتے ، اس کی غلطیوں کو معاف کرتے اور اس کے درجات بلند کرتے ہیں، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ رمضان میں اگر کسی کو کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے، تو یہ بیماری اپنے ساتھ رحمت ومغفرت اورر فعت وبلندی بھی ساتھ لاتی ہے، جس کا انسان روزہ کے ذریعہ اللہ سے متمنی ہوا کرتا ہے، مریض اگرچہ روزہ نہیں رکھتا مگر اس کے برکات وثمرات سے مستفید ہوتا ہے، کیونکہ وہ اللہ کی دی ہوئی بیماری ہی کی وجہ سے روزہ کے حکم پر عمل کرنے سے قاصر رہا ہے، خود اللہ تعالیٰ نے اعلان کردیا ہے:
وما جعل علیکم فی الدین من حرج (الحج:78)
اللہ نے تم پر دین کے معاملہ میں تنگی نہیں ڈالی ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ ہر مریض پر روزہ کو فرض کردیتا تو انسان کیا کرتا؟ یہ اس کے لئے اس کے بس سے باہر کی چیز ہوتی، اسی لئے اللہ نے اس میں رخصت رکھی ہے۔
حضرت عثمان غنیؓ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے ، خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت رقیہ ؓ کی تیماری داری کیلئے انہیں حکم دیا کہ وہ مدینہ ہی میں رہیں، مگر انہیں غزوہ میں شریک سمجھا گیا، اس کا مطلب ہے کہ مریض کا حق ہے کہ اس کی تیمار داری کی جائے، بڑے بد قسمت ہیں وہ بچے جو اپنے بوڑھے ماں باپ کی دیکھ بھال اور تیمار داری میں لاپرواہی وغفلت برتتے ہیں، اور ان کا صحیح علاج کرانے میں کوتاہی کرتے ہیں، اسی حق کی وجہ سے رسول صلعم نے مریض کی عیادت کرنے تاکید کی ہے۔ آپ صلعم کا ارشاد ہے:
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من عاد مریضا ناداہ مناد من السماء طبت وطاب ممشاک وتبوأت من الجنۃ مترلا ( صحیح الترغیب والترھیب جلد ۳ صفحہ:۶۹۱ حدیث نمبر ۴۷۴۳)
جس نے کسی مریض کی عیادت کی، آسمان سے آواز دینے والا ایک فرشتہ اسے پکارتا ہے، تو بھی بھلا ہوا، اور تیرا چلنا بھی بھلا رہا، تو نے جنت میں اپنا مقام بنالیا۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلعم نے فرمایا :
عن جابر بن عبداللہ قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول : من عاد مریضا خاض فی الرحمۃ حتی اذا قعد استقر فیھا (الادب المفرد ص:185 حدیث نمبر 522: صححہ الالبانی)
جس نے مریض کی عیادت کی وہ رحمت میں داخل ہوگیا، اور جب تک وہ عیادت میں رہتا ہے، جنت کے بالا خانہ میں رہتا ہے۔ (مسلم)
اس مبارک مہینہ میں ہمیں مریضوں کی عیادت ونگہداشت کے ذریعہ جنت میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کرنی چاہیے، اور رمضان کے ان لمحات سے خوب خوب استفادہ کی کوشش کرنی چاہیے۔
٭٭٭

Comments are closed.