بجلیاں کریں گی تو صرف ہم مسلمانوں پر

نوراللہ نور
یوں کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک کی بنیاد سیکولرزم پر ہے یہ لفظ ” سیکولر ” جس نے اپنے اٹوٹ بندھن میں سب کو پرویے ہوا ہے ارض وطن کا حسن وجمال اس سے وابستہ ہے
اپنے جامعیت کے باوجود معنی حقیقی سے خالی ہے
سیکولر کا مطلب مساوت ؛ رواداری ؛ باہمی مفاہمت انس و محبت جان و مال کا تحفظ
مذہبی آزادی مگر ان میں سے ہر ایک مفقود ہی نہیں معدوم ہے
کیوں کہ آج آزادی کے بعد ایک صدی ہونے کو ہے مساوات کا کہیں دور تک اتا پتا نہیں کیوں بجلیاں آج بھی ہمارے ہی خرمن پر گرتی ہے ؟؟
اخوت کا تو پو چھنا ہی نہیں نشان زد کر کے دکانیں جلایی جاتی ہے قتل کوئی بھی کرے دامن ہمارا ہی داغدار ہوتا ہے
ستم رسانی کی یہ داستان ہنوز جاری ہے پہلے گجرات ؛ مہاشٹرا ؛ بہار تحفے میں ملے اور بچی کچھی کسر دارلحکومت دہلی نے پوری کردی
لوگ سیکولر ازم کی دہائی دیتے ہیں اور جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں ان سے کہ دوں کہ بجلیاں تو صرف ہم پر گریں گی ؛ گھر تو صرف ہمارا نذر آتش ہوگا ؛؛ الزام تو صرف ہمارے سر آیے گا کیونکہ اس نام نہاد جمہوریت نے ہماری اذان پر پابندی لگا نے والوں کو کرسی پر بٹھایا ہے سیکولرزم اور سیکولرزم کا نعرہ لگانے والوں نے تو ایک مسجد نہ بچا سکے تو کیا توقعات کی جا سکتی ہے
عجب بات ہے لوگ مساوات کی رٹ لگا تے پھرتے ہیں تو میں کہتا ہوں کس منہ سے برابری کی بات کرتے ہو ” ذکیہ جعفری ” آج بھی انصاف کی منتظر ہے اور قاتل سنگھاسن پر :کیا اسی کو برابری کہتے ہیں ؟؟؟
خیر اس ارض وطن سے ہم نے جتنی وفا کی ہے اتنا ہی جفا کا نشتر ہمارے سینے میں پیوست کیا گیا ہے
ستم ظریفی کا یہ سلسلہ بہت دریدہ دہنی سے جاری ہے انہوں نے ہمارے تشخص کو مٹانے کے لیے نیی تجویز لای لوگ آگ بگولہ ہوگئے سب نے ملکر اس کی مخالفت کی لیکن بات پھر وہیں پہونچی کہ الزام ہمارے سر آیا
ابھی مخاصمت جاری ہی تھی کہ ایک بلا نے سب کو زیر و زبر کر دیا اور سب اس سے لڑنے کے لئے صف آرا ہوئے لیکن وقت کا حاکم اس نازک گھڑی میں بھی بدلے آگ میں جھلستا ہوا مسلم ایکٹوسٹ پر اپنی گرفت شروع کردی اور متعدد طلبہ و طالبات کو حراست میں لیا
شرجیل امام تو پہلے ہی سے نظر بند ہیں اور اب یہاں کی پولیس نے عمر خالد صفورا زرگر کو گرفتار کر لیا ان کی تشنگی اب بھی ختم نہ ہوئی اور انہوں نے ملک و ملت کے عظیم سرمایہ دانشور ڈاکٹر ظفرالاسلام پر نظر دوڑانی شروع کر دی ہے ،
ان سب کی ناحق گرفتاری یہی بتاتی ہے کہ تم کتنا بھی سیکولرزم کے گن گاؤ الزام تو تمہارے ہی سر آیے گا! آخر صفورا زرگر نے کون سا گناہ کیا تھا جس کی سزا انہیں قیدو بند ذریعے دی جارہی ہے؟ جمہوریت کی دہائی دینے والوں ذرا حق گوئی بھی جرم ہے کیا تمہارے یہاں ؟؟؟ بات یہ نہیں ہے؛ حقیقت تو یہ ہیکہ ہمارا وجود تمہیں برداشت نہیں، گرفتاری تک تو ٹھیک تھا لیکن ایک خاتون کے کردار پر انگشت نمائی کہاں تک درست ہے؟؟ اگر صفورا زرگر کی جگہ پرینکا ہوتی تو تم کہتے دیوی کا اپمان برداشت نہیں! ایسا کیوں ؟؟؟ ارے عورت مسلم ہو یا ہندو سب دیوی ہوتی ہے،
عمر خالد نے کون سا پاپ کیا تھا اس نے تو صرف لوگوں کی آنکھ سے پٹی ہٹائی تھی، اسے کیوں سلاخوں کے نذر کیا ؟؟
اگر یہ حضرات خاطی ہیں تو دہلی کو جہنم بنانے والے کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما کون سے دودھ کے دھلے ہیں؟
اگر آپ کا نام عبداللہ ہے تو آپ بنا کچھ کہے خطاوار ہیں اور اگر ماتھے پر تلک ہے تو سارے پاپ معاف ،
ہم کتنا بھی کچھ کر لیں بجلیاں ہم پر ہی گریں گی۔
Comments are closed.