لاک ڈاؤن میں آخری عشرہ کا اعتکاف

مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذومفتی دار العلوم وقف دیوبند
رمضان المبارک کا ایک اہم عمل اعتکاف ہے ، آپ ﷺاس کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے ،رمضان کے اخیر عشرے میںآپﷺمعتکف ہو جاتے تھے(بخاری حدیث نمبر :۱۸۸۵) اور دنیوی معاملات اور تعلقات سے بالکل علحدہ ہوجاتے تھے، جس سال آپ ﷺ کا وصال ہوا اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ، رمضان کے اخیر عشرے میں اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے ،اگر کوئی بھی نہ کرے تو پوری بستی کے لوگ سنت مؤکدہ کے تارک اورگنہگارہوں گے ، اعتکاف کی حالت میں انسان اللہ تعالی کے دربارمیں ہر وقت حاضر رہتا ہے ، نمازیں پڑھتا ہے ، ذکرو اذکار میں مشغول رہتا ہے ، اللہ کے حضور دعاؤں میںگریہ و زاری کرتا ہے ، اپنے رب کو منانے کی کوشش کرتا ہے ، اپنی آخرت کی کامیابی کا خواستگار ہوتا ہے ؛یہ سب اعمال عبادت ہیں اس لیے اعتکا ف مجموعہ عبادات ہے ۔ معتکف تمام گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور جو نیک کام معتکف اعتکاف کی وجہ سے نہیں کرسکتا ہے اس کو اس نیک کام کا بھی ثواب ملتا ہے ،رمضان کے اخیر عشرہ میں اعتکاف کرنا رب کو منانے کا بہترین ذریعہ ہے؛ اس لیے آخری عشرے کے اعتکاف کا اہتمام ہونا چاہیے ،اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ شب قدر کا پاناہے ۔
موجودہ حالات میں جب کہ ملک میں لاک ڈاؤن ہے اور مسجد میں عمومی جماعت پر پابندی ہے اور اخیر عشرہ تک اس پابندی کے برقرار رہنے کا قوی امکان ہے ، اس لیے ایک سوال کثرت سے معلوم کیا جارہا ہے کہ کیا جس طرح گھر میں جمعہ و جماعت کا نظام قائم ہے اسی طرح گھر کے اس حصہ میں جس کو نماز کے لیے مخصوص کیا گیا ہے وہاں پر اعتکاف بھی کیا جاسکتا ہے ؟ کیا مسنون اعتکاف ادا ہوجائے گا ؟
اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ لفظ اعتکاف کا مادہ عکف ہے جس کے معنی خود کو روک لینا ہے یا کسی کی طرف اس قدر متوجہ ہونا کہ چہرہ بھی اس سے نہ پھرے ،اہل لغت نے اعتکاف کا شرعی مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا ہے: لمن لازم المسجد و اقام علی العبادۃ فیہ عاکف و معتکف (ابن اثیر النہانہ فی غریب الاثر ۳/۲۸۴)جو مسجد میں ڈیرا ڈال لے اور عبادت میں مصروف ہوجائے اسے عاکف یا معتکف کہا جاتا ہے ۔
مسنون اعتکاف کے لیے مسجد شرط ہے ، بلکہ ایسی مسجد جہاں پانچ وقتہ نماز جماعت سے ادا کی جاتی ہو اس مسجد میں اعتکاف ہوسکتا ہے اس کے علاوہ دوسری جگہوں پر مسنون اعتکاف نہیں ہوسکتا ہے ، علامہ ابن الہمام فرماتے ہیں:ثم الاعتکاف ثم لا یصح الا مسجد الجماعۃ لقول حذیفۃ لا اعتکاف الا فی مسجد جماعۃ: وعن ابی حنیفۃ انہ لا یجوزالا فی مسجد یصلی فی الصلوات الخمس قیل اراد بہ غیر الجامع اما الجامع فیجوز ان لم یصل فیہ الخمس(فتح القدیر ،باب الاعتکاف ، ۲/ ۵۹۳) حضرات ائمہ کے درمیان اختلاف ہے کہ کس مسجد میں اعتکاف درست ہے امام شافعیؒ کے یہاں ہر مسجد میں اعتکاف درست ہے جب امام صاحب ؒکے یہاں اس مسجد میں جس میں پنجوقتہ نماز ہوتی ہو درست ہے لیکن غیر مسجد میں اعتکاف کے صحیح نہ ہونے پر ا تفاق ہے ۔(ایضا)
جمعہ و جماعت پر اس کو قیاس کرنا صحیح نہیں ہے اس لیے کہ نماز کے لیے اللہ تعالی نے پورے روئے کو مسجد بنایا ہے ،حدیث میں ہے جعلت لی الارض مسجدا و طہورا لیکن پورے روئے زمین کو اعتکاف کی جگہ نہیں بنایا ہے ؛بلکہ اعتکاف کے لیے اللہ تعالی نے مسجد کو متعین فرمایا ہے قرآن میں :ولا تباشروھن و انتم عاکفون فی المساجد (او رنہ ملوعورتوں سے جب تم مسجد میں اعتکاف کرو ) مفتی شفیع صاحبؒ معارف القرآن میں فرماتے ہیں : اعتکاف کے لغوی معنی کسی جگہ ٹھہرنے کے ہیں اور اصطلاح قرآن و سنت میں خاص شرائط کے ساتھ مسجد میں ٹھہرنے اور قیام کرنے کا نام اعتکاف ہے، لفظ فی المسجد کے عموم سے ثابت ہوتا ہے کہ اعتکاف ہر مسجد میں ہوسکتا ہے جس میں جماعت ہوتی ہو ،غیر آباد مسجد جہاں جماعت نہ ہوتی ہو اس میں اعتکاف درست نہیں ہے یہ شرط در حقیقت مسجد کے مفہوم ہی سے مستفاد ہے کیوں کہ مساجد کے بنانے کا اصل مقصد جماعت کی نماز ہے ورنہ تنہا نماز تو ہر جگہ دوکان و مکان وغیرہ میں ہوسکتی ہے ۔(سورہ بقرۃ آیت ۱۸۷)
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ عام حالا ت میں تو یہی حکم ہے لیکن موجودہ حالات میں جب کہ مسجد میں نماز پڑھنے پر پابندی ہے ؛اس لیے مجبوری کی وجہ سے گھروں میں اعتکاف کی اجازت ہونی چاہیے ؛بلکہ اگر کوئی گھر میں اعتکاف کرلے تو زیادہ ثواب ملے گا اس لیے کہ وہ مجبوری میں گھر میں نماز پڑھ رہا ہے ۔ لیکن یہاں عرض یہ ہے کہ اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے ایک دو لوگ اگر اعتکاف کرلیں تو مسنون اعتکاف ادا ہوجائے گا اور سب لوگوں کا ذمہ بھی بری ہوجائے گا، ظاہر ہے کہ موجودہ حالات میں اس کی گنجائش موجود ہے ۔اور اگر یہ کہہ دیا جائے کہ گھر میں اعتکاف ہوسکتا ہے تو جو ایک دو لوگ مسجد میں اعتکاف کرتے ہیں وہ بھی مسجد میں اعتکاف نہیں کریں گے؛ بلکہ گھرمیں اعتکاف کا عذر کرلیں گے اس لیے موجودہ حالات میں بھی مسنون اعتکاف مسجد کے ذریعہ سے ادا ہو گا باقی لوگ اگر گھر میں اعتکاف کی جگہ مخصوص کرلیں تو ان کا یہ اعتکاف نفل ہوگا ،اور انشاء اللہ اس کے لیے اجر ثواب کا باعث ہوگااور اعتکاف کے دیگر فوائد کے ساتھ اہم فائدہ شب قدر پانے سے وہ محروم نہیں ہوگا ۔ اس لیے کچھ لوگ تو مسجد میں اعتکاف کریں باقی لوگ گھر میں نفل اعتکاف کی نیت کرلیں ۔علامہ ابن ہمام نے حضرت امام ابویوسف کا قول نقل کیا ہے کہ واجب اعتکاف بغیر مسجد کے نہیں ہوسکتا ہے ؛البتہ نفل اعتکاف مسجد کے علاوہ میں ہوسکتا ہے ۔(ایضا)
خواتین کے اعتکاف میں ائمہ کا اختلاف ہے امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک عورت بھی مسجد میں اعتکاف کرے گی ،مرد حضرات کی طرح اور احناف کے یہاں عورتوں کا مسنون اعتکاف گھر میں ادا ہوجاتا ہے؛ اس لیے کہ عورتوں کے لیے گھر کی مسجد بالکل اسی طرح ہے جس طرح مردحضرات کے مسجد کا حکم ہے یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے لیے گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اس لیے عورتو ں کا گھر میں اعتکاف کرنا افضل ہوگا۔ خواتین گھر میں کوئی جگہ مخصوص کرلیں اور اس میں اعتکاف کریں اور بلاشرعی و بشری ضرورت کے اس جگہ سے نہ نکلیں ۔س

Comments are closed.