نور ایمان سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں!

اسجد عقابی
حالات و واقعات اور حوادث زمانہ نے مسلمانوں میں ایک عجیب سی بے چینی پیدا کردی ہے۔ واقعات کے تسلسل اور امیدوں کے مدھم ہوتے ہوئے چراغ نے بعض دلوں میں شکوک وشبہات کی لہروں کو جنم دینا شروع کردیا ہے۔ پے درپے رونما ہونے والے اثرات سے آرزوؤں کے تار ڈھیلے پڑتے اور امیدیں ختم ہوتی نظر آرہی ہیں ایسا محسوس کیا جانے لگا ہے کہ اب اس کرہ ارضی پر مسلمان دردرائے جارہے ہیں، دھتکارے جارہے ہیں، بھگائے جارہے ہیں، بے یارو مددگار چھوڑے جارہے ہیں، اور زمین اپنی وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ سے تنگ تر ہوتی جارہی ہے۔
یقیناً آج باد صبا، مسلمانوں کیلئے بادسموم بن گئی ہے، منظم طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اور غلط اتہامات و الزامات کی سمیت کے زیر اثر ایسے ماحول کو پنپنے کی جگہ اور موقع فراہم کیا جارہا ہے، جہاں صرف اور صرف نفرت، بغض، حسد، کینہ، عداوت، ترشی، دشمنی جیسی صفات رذیلہ کے حامل افراد کی بھیڑ ہے، ایک جتھہ ہے، یہ دراصل انسانی بھیڑ نہیں ہے بلکہ انسانی لباسوں میں ملبوس (اولئک کالانعام بل ھم اضل) کے صفت حقیقی سے متصف وہ مخلوق ہے، جس کا وجود نہ صرف کرہ ارضی کیلئے ناسور ہے، بلکہ دیگر مخلوقات خدا بھی ان کے ناپاک اور نجس وجود کی منحوسیت سے نالاں اور پریشاں ہے۔
یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے، یہ تو ہمیشہ سے ہوا ہے، ہمیشہ طاغوتی لشکروں اور انسانیت پر بدنما داغ کے چیلوں نے، حق کے متلاشی راہگیروں کے راستوں میں خار بچھائے ہیں۔ ان کے آرام و سکون میں خلل پیدا کیا ہے۔ انہیں معبود حقیقی کے حضور سر بسجود ہونے کی پاداش میں سزائیں دی ہیں، کبھی ان کو سر عام بظاہر، جو محض عقل کے پجاری ہے، جن کی نگاہیں فراست مؤمن کی لازوال نعمت سے محروم ہے، ایسی مادہ پرستی کے پرستاروں نے انہیں موت (شہادت) سے بھی نوازا ہے۔ ان عقل کے پرستار اور دنیاوی رنگینیوں کے دلدادہ افراد کیا جانے، کہ ایمان کی دولت کیا ہوتی ہے۔ حلاوت ایمانی کی شیرینی کیا ہے ایمانی تلذذ سے نا آشنا دل، شیطان کا وہ مسکن ہے، جہاں دنیاوی گندگی کا ڈھیر ہے، اور انہی گندگی کے انباروں میں ایسے دریدہ دہن اور دین حنیف سے ہٹے ہوئے لوگوں کی زندگی بسر ہوتی ہے۔
موجودہ دور میں نت نئے طریقے آزمائے جارہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے سہارے یلغار جاری ہے۔ جدت پسندی کے زعم میں خود کو خدا سمجھ بیٹھے ناہنجار افراد، بے کسوں اور بے بسوں پر ظلم و تعدی کو روا رکھے ہوئے ہیں۔ محض اس بنیاد پر کہ چند سر پھرے افراد اس دور میں بھی، اللہ کا نام لیتے ہیں، ان کے خلاف زور آزمائی کی جاتی ہے۔ اس بات کی انہیں سزا دی جاتی ہے۔ جدیدیت کے نشہ میں مدہوش انسانوں کا یہ ریوڑ دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہوئے، ان کو تختہ مشق بنایا جاتاہے۔ یہ اپنے طاغوتی منصوبوں کی تکمیل کی خاطر، نوع انسانی کو شرمسار کر دینے والے جرائم بلا کسی روک ٹوک کے انجام دئیے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان مادہ پرستوں اور عقلیات کے پیروکاروں کو دین حنیف کی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی ہے، اور وہ اس لطف بے بہا سے ناآشنا ہوتے ہیں، جن کی لذت و حلاوت کو محسوس کرنے کے بعد، دہکتے ہوئے انگاروں اور لپکتے شعلوں میں بھی بے خطر کود پڑا تھا۔
ایسی صورت حال میں جبکہ ایک عالم اور پوری دنیا مالک حقیقی کا نام لینے والوں کے در پر ہے، انہیں قسم قسم کی اذیتوں سے دوچار کرنے کیلئے نئے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔ رب ذوالجلال کے متوالوں کو چاہیے کہ مضبوطی سے اس رسی کو تھامے رکھے، جس کی بنیاد پر فلاح و بہبود اور اجر حسن انسانی مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔
اگر بنظر غائر ماضی کے صفحات کی ورق گردانی کی جائے تو، ایسے بےشمار مقامات آئے ہیں، جہاں راہ مستقیم پر چلنے والوں نے بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں ہیں۔ اصحابِ کہف کے وہ چند نوجوان جنہوں نے ظاہری تعیش پسندی کو خیرباد کہہ کر، ایسے سفر کیلئے روانہ ہوئے، جو بظاہر ہر چہار سمت سے مایوس کن اور ناکامی کا سفر تھا۔ جہاں اسباب نہیں تھے۔ جہاں متاعِ تعیش نہیں تھا۔ جہاں التذاذی احساسات کو تسکین و تشفی فراہم کرنے والے عارضی دنیا کے وسائل نہیں تھے۔ لیکن جن کے قلوب نور ایمانی سے معطر تھے، ان کے دلوں میں ایمانی قوت نے وہ یقین اور ایقان پیوست کردیا تھا، جسے دیکھنے کیلئے اور سمجھنے کیلئے نور ایمانی کی دولت سے مالا مال ہونا ضروری ہے۔ وہ بظاہر دامن کوہ میں پناہ تلاش کررہےتھے، مگر ان کی فکر و نظر نے اس اجر حسن کو بھانپ لیا تھا، جس کا وعدہ عزیز مقتدر نے اپنے نیک اور مخلصین کی جماعتوں سے کیا ہے۔
یہی تو وہ طاقت ہے، جس کا وعدہ ہے (ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا) دنیاوی منصوبوں کی حقیقت اس ذات باری کے نزدیک پھسپھسی تار عنکبوت سے بھی کم تر ہے۔ وہ خالق کائنات ہے، یہی تو وہ اپنے محبوب بندوں کو انعام دیتا ہے، کبھی تنگی میں آزما کر اور کبھی فراخی میں آزما کر۔ وہی تو اصل مسبب الاسباب ہے، اور یہی فرق ہے، ان لوگوں میں جو محض عقل کی پیروی کرتے ہیں، ان کے نزدیک سب کچھ سبب سے ہوتا ہے اور یہی ان کے نزدیک اصل ہے۔ جبکہ اہل ایمان جنہیں اجر حسن کا کامل یقین ہوتا ہے وہ سبب اختیار کرنے کے بعد نظر مسبب حقیقی پر رکھتے ہیں تاکہ اس کے کئے ہوئے وعدے کا مکمل انعام حاصل کریں۔
اسلام کے دور اول کے وہ بے بس و لاچار مسلمان جنہوں نے، آغاز ہی میں اپنے قلوب کو اصل روشنی سے منور کرلیا تھا۔ کیا کچھ ان کے ساتھ پیش نہیں آیا۔ چلچلاتی ہوئی ریت، جس میں لمحہ بھی گزارنا نوع انسانی کیلئے سکرات کی تکلیف سے کم نہیں، ان ریگستان کی ریت کو چند غلامان حق کے بدن سے رستے ہوئے خون اور پسینہ سے سرد کیا جاتا تھا۔ آگ کا الاؤ اور کوئلے کی دہک اپنی تپش اور حرارت ان غریبوں کے خون سے کھو دیا کرتی تھیں۔ سانپ اور دیگر حشرات الارض بھی اپنے ٹھکانے بنائے رکھتے ہیں، چرند و پرند کے اپنے گھونسلے ہوا کرتے ہیں، جن میں پناہ لیکر وہ مارنے والوں سے اور شکاری سے محفوظ رہتے ہیں، لیکن افسوس کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان غریب پیروکاروں کے پاس چھت تو پہلے ہی نہیں تھی، پھر مکہ کے سنگدل بت پرستوں نے ان کے پاؤں تلے سے زمین بھی کھسکا لیا تھا۔ لیکن گردش زمانہ نے چند سالوں کے وقفے کے بعد ان بے بسوں کو اس حال میں دیکھا ہے کہ، عرب کے نام نہاد لیڈران سر جھکائے، اپنے کئے پر نادم و شرمندہ، معافی کی درخواست لئے کھڑے ہیں۔ کل تک جن کی نظروں میں سبب ہی سب کچھ تھا، ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھا کہ یہ مٹھی بھر، لاچار، بے بس اور کمزوروں کو یہ قوت حاصل ہوجائے گی کہ، وہ ہمارے ہی شہر میں، جہاں ہمارا تخت و تاج ہے، اسی شہر اس شان سے داخل ہوں گے، اور ہم جن کے پاس تمام دنیاوی اسباب و عوامل ہیں، ان کے بالمقابل شکست خوردہ بن جائیں گے۔ یہی تو مطلب ہے (وینصرک اللہ نصرا عزیزا)۔ رب کائنات کا کتنا عجیب انعام ہے، لیکن یہ انعام تو ان ہی بندوں کیلئے ہے، جن کے قلوب کو ایمانی معرفت حاصل ہوچکی ہے۔ رب ذوالجلال اپنے نیک بندوں کو اس دنیا میں بھی صلہ عطا فرماتا ہے، اور بعد از مرگ جو ہے، وہ تو ہے ہی۔
اہل ایمان کے ساتھ خدا کی وہ عنایات ہوتی ہیں جن کا قلب بشر پر گزر تک نہیں ہوتا ہے۔ جہاں سے امید کی کرنیں معدوم ہوجاتی ہے، اسباب اپنی تنگدامانی پر شکوہ کناں ہوتے ہیں، اہل عقل جسے جنونی کیفیت اور ماوراء فطرت سمجھتے ہیں، ان مقامات پر اللہ اپنے بندوں کی دستگیری فرماتے ہیں یہی تو مطلب ہے (و یرزقہ من حیث لا یحتسب) کا۔ جس نے نوع انسانی کو عدم سے وجود بخشا ہے، وہ یقیناً سبب کا محتاج نہیں ہے، بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے منانے والے اس کی خوشنودی حاصل کرنے والے اور اس پر ایمان لانے والے اعمالِ صالحہ کئے جائیں۔ سابقہ معصیت پر دائمی توبہ کرکے انہیں منایا جائے-
یہ تو خدا کی جانب سے ادنی انعام ہے کہ، وہ اپنے بندوں کے دلوں میں وہ قوت عطا فرماتا ہے، جس کے بل بوتے ان کے قلوب ان امور کی انجام دہی میں مصروف ہوجاتے ہیں، جنہیں بادی النظر میں لامحال اور مشکل سمجھا جاتا ہے۔ اصل انعام کیا ہوگا، اس کے متعلق تو خود ذات باری نے ارشاد فرمادیا ہے (ولا خطر علی قلب بشر)۔ وادی عشق کے راستوں میں گر، کچھ خار بھی چبھ جائے تو، محبوب سے ملاقات کا شوق کانٹوں کی ٹیس سے دم نہیں توڑتا ہے، بلکہ یہ تو مہمیز کا کام کرتے ہیں، اور پھر انسان کو بلندی کے اس معیار پر پہونچا دیتے ہیں، جسے علامہ اقبال نے اپنے شعر میں یوں پرویا ہے کہ (خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے). اسی مقام ارفع کی تو جستجو ہے۔ اسی کیلئے تو اس قدر تگ و دو ہے۔ اسی مقام بلند کی حصول یابی کیلئے ایک جماعت اس قدر مظالم بھی سہہ جاتی ہے، کیونکہ اسے بعد کے انعام کا یقین ہے۔ جبکہ دوسری جماعت جو بظاہر خود کو عقل و خرد آشنا کہتے ہیں۔ جو فکر و نظر کے دعویدار بنے پھرتے ہیں، مگر افسوس کہ مالک حقیقی سے اپنے تعلق کو استوار نہیں کرتے اور عقل کی پگڈنڈی پر دوڑتے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ انہیں سب کچھ معلوم ہونے کا زعم ہوتا ہے، لیکن یہ زعم ہی باطل ہوتا ہے۔ وہ رب حقیقی کے راستہ سے کوسوں دور مخالف سمت میں اپنی عقلی آراء کے بھروسے رواں دواں رہتے ہیں، ایک ایسے راستہ پر جس کا اختتام نہیں ہے۔
آج بھی ہمیں اپنے قلوب میں ان نورانی شمعوں کو جلائے رکھنا ہے، اسباب کو اختیار کرتے ہوئے، رب العالمین کی جانب لو لگائے رکھنا ہے۔ یہ حادثات و مصائب وقتی جھونکوں کی مانند گزر جائیں گے۔ یہ ریگستانی سراب کی مانند ایمان کی باد بہاری میں کھو جائیں گے۔ ایمانی حلاوت و شیرینی کے سامنے ان کی حیثیت کچھ نہیں ہے۔ اللہ ہمیں نور ایمان سے مالا مال فرمائے- اور اپنی عظمت رفتہ کی بحالی کیلیے اسباب پیدا کردے- (آمین)

Comments are closed.