نمونہ حیات

محمد اللہ قیصر
انسانوں کی اس بھیڑ میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ جو خود کو لاشعوری طور پر ” زندگی کا ماڈل” سمجھتے ہیں، ان کی کچھ مخصوص علامات ہیں، وہ عمومی گفتگو میں بار بار اپنی،اپنے کارناموں کی، اور کسی صورت حال سے نبٹنے کیلئے اپنے اختیار کردہ موقف کی مثال پیش کرتے ہیں، دوران گفتگو آپ انہیں یہ کہتے ہوئے بہت سنیں گے” جیسے میں نے یہ کیا، یہ کہا، میرا طریقہ یہ ہے، وہ ہے” وغیرہ، ایسے لوگ دراصل زندگی کے ہر میدان میں خود کو "نمونہ حیات” مانتے ہیں، دوسروں کو سراہنے کی قوت ان میں نہیں، یا بہت کم ہوتی ہے، خود کو "قدوہ” "اسوہ” سب کچھ سمجھتے ہیں، کسی بھی بھی پیش آمدہ واقعہ میں خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی اپنے موقف کو دوسروں کیلئے نمونہ بناکر پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ (اس کے گمان کے مطابق) دوسروں کی "اصلاح” ہو سکے، اور دوسرے ان سے سبق لیتے ہوئے، اپنی زندگی میں وہی موقف اپنانے کی کوشش کریں، نیز ایک بڑی بیماری یہ لگ جاتی ہے کہ ایسے لوگ دوسروں کی بہتر سے بہتر رائے یا عمل کو حقارت بھری نگاہ سے دیکھتے ہیں،انہیں قبول نہیں کرتے، جو غرور اور تکبر تک لے جاتا ہے، ایسے لوگ عموما "استدلالی اجبار” کے طریقہ پر کار بند نظر آتے ہیں، جس میں ادھر ادھر کے دلائل سے اپنی بات ثابت کرنے کرنے کی کوشش کرتے ہیں، دیکھا جاتا ہے کہ ایسے لوگوں میں اپنے اقوال و افعال کی "سراہنا” سننے کی بڑی للک ہوتی ہے، دوسرے لفظوں میں اس مرض کو "اعجاب بالنفس” یا "خود پسندی ” کہہ سکتے ہیں۔
دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی دوسرے کو خود سے بڑا مانتے ہوئے اسے "زندگی کا ماڈل” مانتے ہیں، ایسے لوگ معیاری اور کامیابیوں سے بھرپور زندگی کیلئے دوسروں کو "نمونہ حیات” مانتے ہوئے ان کی نقل کی کوشش کرتے ہیں، زندگی کے ہر گوشے میں کسی بڑے کو "چراغ راہ” سمجھتے ہوئے، اس کے اتباع کو ہی راہ نجات، اور اپنی منزل کیلئے اسے رہنما تصور کرتے ہیں، ان کا یہ اعتقاد صرف دین تک محدود نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے ہر گوشے اور شوشے پر حاوی ہوتا ہے، طالب علمی سے لیکر میدان عمل تک، تجارت، سیاست، درس و تدریس، عائلی اور سماجی زندگی، ہر جگہ اس کا کوئی ماڈل، کوئی نمونہ ہوتا ہے جس کی پیروی میں اسے کامیابی و کامرانی کی ضمانت نظر آتی ہے،
اور درحقیقت وہی کامیاب بھی ہوتا ہے،
اسلامی تعلیمات میں یہی اشارہ بھی ملتا ہے، چناں چہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو "اسوہ حسنہ” قرار دیا گیا ” لقد كان لكن في رسول الله اسوة حسنة” (تمہارے لئے، روسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک نمونہ ہے) پھر بار بار اللہ ،رسول اور صالحین کے اتباع کا حکم دیا گیا، جب کہ شیطان اور نفس کی پیروی سے روکا گیا ہے۔ اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ﴿٣ الأعراف﴾ (پیروی کرو اس کی جو نازل کیا گیا تمہارے رب کی طرف سے، اور مت پیروی کرو اس کے سوا دوسرے سرپرستوں کی)
اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ ﴿٢١ يس﴾( پیروی کرو ان کی جو تم سے اجرت کے طالب نہیں، اور جو ہدایت یافتہ ہیں)
وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمإِنَّكَ إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ ﴿١٤٥ البقرة﴾( اگر آپ نے ان کے خواہشات کی پیروی کی اس علم کے بعد جو آپ کے پاس آچکا ہے، تو بلا شبہہ آپ بھی ظلم کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے،
وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ﴿١٦٨ البقرة﴾( اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی مت کرو)
وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ﴿٥٩ النساء﴾(اطاعت کرو اللہ کی، اور اطاعت کرو رسول کی، اور اپنے اولوالامر کی)
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٤٣ النحل﴾(تم لوگ ایک ذکر سے پوچھ لو اگر تم خود نہیں جانتے ہو)
ان آیات میں بندوں کو جو ہدایت دی گئی ہے ان کا تعلق صرف ایمان و عقائد سے نہیں ہے کہ وہاں کس کی پیروی کرنی ہے کس کی نہیں، بلکہ عقائد، عبادات، معاملات، اخلاقیات و معاشرت سب سے ہے، کہ زندگی کے ان تمام گوشوں میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،اہل علم اور ہدایت یافتہ لوگوں کی پیروی مقبول و مطلوب ہے، جبکہ شیطان، خواہشات نفسانی اور گمراہ لوگوں کی پیروی جو معصیت کا سبب بنتی ہو، ممنوع ہے۔
سورۃ فاتحہ میں بندوں کو سکھایا گیا ہے کہ انعام یافتگان کے راستہ کی طرف رہنمائی، اور گمراہ و درماندہ لوگوں کے طریق سے بچنے کی دعا کرو، اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ(ہمیں ہدایت بخش سیدھی راہ کی، راہ ان لوگوں کی جن پر تیرا انعام ہوا، جو نہ تو مغضوب ہوئے نہ گمراہ)
پھر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے، ان کی پیروی کرنے والوں کیلئے انعام کا اعلان بھی ہے، کہ کہ ان کو انبیاء کرام علیہم السلام، صدیقین،و شہداء اور اللہ کے نیک بندوں کی معیت حاصل ہوگی،
وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيۡقِيۡنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيۡنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِيۡقًا ، ( اور جو کوئی اطاعت کرے گا، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی، تو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہیں، معیت حاصل ہوگی ان کی جن پر، اللہ کا انعام ہوا یعنی، انبیاء، صدیقین، شہداء و صالحین کی، اور کیا ہی اچھے ہیں یہ لوگ رفاقت کیلئے)
غور کیجئے، ان تمام آیات سے اشارۃً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ذاتی اصلاح کیلئے "نمونہ” اپنی ذات کے بجائے خود سے کسی برتر شخص کو بناکر اس کی پیروی کرنی چاہئے، جبکہ تک کہ وہ کھلی گمراہی کی طرف رہنمائی نہ کرے کیوں کہ” لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق) تبھی انسان صلاح و فلاح حاصل کر سکتا ہے، اگر آپ طالب علم ہیں تو تعلیمی میدان کے کسی شہسوار کو اپنا ماڈل بنائیے، اگر آپ سیاست دان ہیں تو اس میدان میں کامیابی کا جھنڈا گاڑنے والے کو "نمونہ” بنائیے، جبکہ شیطان کے نقش قدم پر چلنے سے روکا گیا ہے، لہذا علم کے میدان میں، علم کے نام پر گمراہی کا سبق دیکر، دین کا باغی بنانے والا استاذ ہو ، یا سیاست میں اللہ و رسول کی نافرمانی اور بندگان خدا کو عذاب میں مبتلا کرنے پر ابھارنے والا سیاست دان، یا تجارت میں ذاتی منفعت کیلئے لوگوں کو دھوکہ دینے پر اکسانے والا تاجر، یہ سب شیطان کی قبیل سے ہیں ان کی پیروی ممنوع ہے، اسی طرح خواہشات نفسانی کے پیچھے بھاگنے کی بھی ممانعت ہے
اور واضح رہے کہ خواہشات کے پیچھے بھاگنے کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے اسلئے جو دل میں آئے اسے کرنے میں نہ صرف یہ کہ کوئی خرابی نظر نہیں آتی بلکہ اسے بہتر سمجھتا ہے اور ظاہرا لطف محسوس کرتا ہے، جو شریعت کی نظر میں محمود نہیں،
خود کو "نمونہ حیات”سمجھنے والے افراد اپنی ذات کے ساتھ دوسروں کیلئے بھی نقصان دہ ہوتے ہیں، اور بد قسمتی سے اگر وہ گھر یا سماج کے ذمہ دار ہیں تو ان کا نقصان متعدی ہوجا تا ہے، گھر اور سماج دونوں کے انتشار و افتراق کا باعث بن جاتے ہیں، بچوں کی اچھی تربیت نہیں کرسکتے، خود پسندی” "ہٹ دھرمی” "ضد” اور ” اکڑ” بچوں تک متعدی ہو جاتی ہے، لہذا وہ ایک خاندان کو تباہ کر بیٹھتے ہیں، چونکہ اپنی رائے تھوپنے کا مزاج ہوتا ہے اسلئے شیرازہ بکھرنے میں وقت نہیں لگتا، آپسی اتحاد و اتفاق، بھائی چارہ کسی بھی صحت مند فیملی اور سماج کیلئے "جوہر” کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اس کیلئے”رائے کی قربانی” بنیادی عنصر” ہے، جس سے ایک خود پسند انسان محروم ہوتا ہے، اسلئے بہت جلد انتشار اس فیملی اور سماج کا نصیبہ بن جاتی ہے جس میں ایسا شخص ہو،
ایسے شخص کو فورا سے پیشتر اپنی اصلاح کیلئے کسی "اہل اللہ” کی طرف رجوع کرنا چاہئے تاکہ اپنے ساتھ دوسروں کو خود پسندی کے شر سے محفوظ رکھ سکے۔
البتہ دوسروں کو "نمونہ” بنانے کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ اپنی علمی و فکری، کاوشوں، بہترین رائے، اور صحیح موقف سے کسر نفسی کی بنا پر دست بردار ہو جائے، بالکل نہیں، اپنا موقف پیش کرنے اور اس پر اڑنے میں بڑا فرق ہے، صحیح رائے پیش کرنا ایک تعمیری عمل ہے جبکہ اس پر بغیر کسی جواز کے اڑنا تخریبی عمل۔ پہلی شکل میں مشکلات کی گرہیں کھلتی ہیں جبکہ دوسری صورت میں وہ مزید پیچیدگی اختیار کرلیتی ہیں۔
اس کے برعکس دوسروں میں”چراغ راہ” تلاشنے والا اپنے اور دوسروں کیلئے یکساں طور پر مفید ہوتا ہے، وہ "باہمی احترام” جیسی عظیم صفت سے مزین ہوتا ہے، وہ اپنی رائے تھوپتا نہیں، اگر اس کی رائے قبول نہیں کی جاتی تو ادنی شکایت کے بغیر اجتماعی رائے کو بسر و چشم قبول کرکے دانش مندی کا ثبوت دیتا ہے، اور ایسا کرکے اپنے لئے اور سماج کے لئے اپنی افادیت ثابت کرتا ہے۔ خود کو دوسروں کے لئے "نمونہ حیات” نہیں سمجھتا، "خود کو "زندگی کا ماڈل”ثابت کرنے کے فراق میں نہ رہ کر، دوسروں کے تعمیری عادات و اطوار اور ان کی خوبیاں اپنا کر ہردم اپنی ذات کی تحسین و تطویر میں جٹا رہتا ہے،
اور پھر ایسا انسان ایک دن خود دوسروں کیلئے "نمونہ” بن جاتا ہے۔
Comments are closed.