Baseerat Online News Portal

بس جرم ہے اتنا کہ مزدور ہیں وہ لوگ

نوراللہ نور
جب سے اس وبا نے پوری کائنات کو اپنے چپیٹ میں لیا ہے ہر طرف اضطراب و پریشانی کا سماں ہے بھکمری و بے روزگاری اپنے شباب پر ہے لیکن ان سب کا اثر جاگیر داروں اور صاحب ثروت پر نہیں ہے بلکہ اس کی زد میں صرف غریب مزدور طبقہ ہے کیونکہ یہ مزدور دوسروں کے آشیاں بناتے بناتے اپنی چھت کے بارے میں بھول جاتے ہیں
ان کی جفا کشی سے ہم آسائش میں ہیں، دو وقت کی روٹی ہمیں نصیب ہوتی ہے، افسوس ہے ہم شکم سیر ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے لیے انتظام کرنے والا اپنی شکم کی آگ بجھا نہیں پا رہا ہے،
ان کے یہاں شام و سحر فاقہ ہی فاقہ ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ ان ہی مزدوروں کی تگ و دوہ سے اس ملک کی زینت ہے اور ہم سہولت سے رہتے ہیں لیکن یہی مزدور طبقہ فاقہ کشی پر مجبور ہے دوسروں کے شکم کی آگ تو بجھا دیے لیکن خود کا انتظام نہ کرسکے ،
کچھ اہل خیر حضرات حسب استطاعت ان کی امداد کر رہے ہیں اور ان کی مزاج پرسی کر رہے ہیں لیکن حکومت ہند کی طرف سے انہیں ذرہ بھی راحت نہیں
شرم آنی چاہیے ان جاگیر داروں اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو جو مزدوروں کے بنے ہوئے بنگلہ اور محل میں رہتے ہیں لیکن اس کی ضرورتوں کے بارے میں نہیں سو چتے لوگ اپنی فلک بوس عمارتوں کے بالاخانوں سے ان کی کسمپرسی کا تماشہ دیکھ رہے لیکن ان کے زخموں کا مداوا نہیں کرتے
آج ہم‌سب‌ نے اپنے اپنے گھروں میں خورد و نوش کی چیزیں فراہم کرلی ہیں لیکن وہ آج بھی بھوکے ہیں، ہم چپل جوتے پہن کر چل رہے ہیں لیکن ایک چپل جوتے سیلنے والے کی کسی نے خبر گیری نہیں کی، لوگ گھروں میں بیٹھ کر یہ گیان دے رہے ہیں کہ( گھر بیٹھے گا انڈیا تبھی تو بچے گا انڈیا ) بھائی وہ انسان جس کے بچے اس کے سامنے بھوک سے رو رہے ہوں وہ کیسے گھر بیٹھے گا؟ اور انڈیا بچانے کی آپ بات کر رہے ہو اس شکم کی آگ نے ہزاروں انڈین کو بھی لقمہ اجل بنادیا بھائی !! ” ایسے نہیں بچے گا
انڈیا ”
ویسے تو ملک میں ہر طرف نا انصافی و خود مختاری کا دور دورہ ہے لیکن سب سے زیادہ حق تلفی اسی طبقہ کے ساتھ ہوئی ہے، ملک کو سائباں دینے والا خود دھوپ کی تمازت میں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے، ‌امیرزادوں کے لائی ہوئی بیماری کی سزا غریب مزدوروں کی مل رہی ہے، سرکار نے امیر زادوں کے لیے ہوائی جہاز کا انتظام کر دیا ہے لیکن وہ غریب کے لیے دو وقت کی روٹی فراہم نہ کرسکی. بہت ساری رقمیں پی ایم فنڈ میں جمع ہوئی مگر کسی غریب کو نہیں پہنچ سکا کیونکہ اس سے سرکار خریدنا ہے، لوگ دان کر رہے ہیں اچھی بات ہے لیکن سمجھداری بھی بہت اہم ہے کیونکہ آپ کا پیسہ درست استعمال ہو اس کی کوئی گارنٹی نہیں، ایسا لگتا ہے کہ انکی اس حالت کے وہ خود ذمہ دار ہیں ہمارا کوئی قصور نہیں ان کی غلطی ہے کہ وہ مزدور ہیں؛ ان کا جرم ہے کہ وہ جفا کشی اور محنت سے ہمارے لیے چھت کا انتظام کر تے ہیں؛

وہ مجرم ہیں کہ لوگوں‌ کے بارے میں سوچتے ہیں ان کا گناہ ہے وہ لوگوں کو شکم سیر کرتے ہیں آخر یہ سب کب تک چلے گا ؟؟
سرکار کو اس جانب توجہ دینی چاہیے ہمیں ان خیر خواہ مزدوروں کا خیال کرنا ہوگا، ورنہ ہمیں خود اپنے کام کرنے ہونگے کیونکہ مزدور طبقہ ہمارے اس رویے سے نا خوش ہیں
مگر افسوس کہ ہمیں ان سب سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ وہ مزدور ہیں ہیں کوی اڈانی یا امبانی نہیں ان کا کچھ خیال نہیں ؛ کیونکہ وہ وہ تو بوجھ برداری کرتے ہیں وہ ہمارے مساوی نہیں
افسوس ہے ایسی عقل پر ؛ ماتم ہے ایسی سوچ پر۔

Comments are closed.