مزدوروں کے ہندوستان میں بے بس مزدور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد سیف اللہ رکسول

مبائل : 9939920785

کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی اور اس کے حسین سپنوں کی تعبیر تلاش کرنے میں مزدور طبقہ کا بڑا اہم بلکہ کلیدی کردار ہوتا ہے،وہی مزدور طبقہ جو ہمیں کبھی کھیتوں کھلیانوں میں رواں دواں دکھائی دیتا ہے، کبھی ریل کی پٹریوں پر ،کبھی بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر میں مگن،کبھی ندی نالوں کی صفائی میں ،کبھی سڑکوں کی مرمت میں ،کبھی اینٹ بھٹوں میں جھلس کر اینٹیں اٹھاتے ہوئے نظر آتا ہے،کبھی شہروں کے کچڑے ڈھوتے،کبھی اسٹیشن پر قلی کے روپ میں،کبھی کارخانوں اور فیکٹریوں میں،کبھی بازاروں اور دکانوں میں،کبھی پہاڑوں پر پتھر توڑتا،کبھی چٹانوں کو کاٹ کر پل اور راستے بناتا،کبھی جنگلوں کے خوفناک منظر میں،کبھی ریل کے ڈبوں اور بسوں کی بھیڑ میں،غرض آپ زندگی کے کسی بھی شعبہ کا تصور کریں یہ مزدور ہر جگہ ہنسی خوشی اپنا فرض نبھاتے ہوئے دکھائی دے گا اور حیرت وتعجب کی بات یہ کہ نہ کبھی چہرے پر ملال لاتا ہے نہ مایوسی یا افسردگی ان کے ارد گرد بھٹکتی ہے،نہ ان کے دل میں داد ودہش کی کوئی آرزو اور نہ کوئی بڑا سپنا بلکہ ان سب سے بالکل بے نیاز چلچلاتی دھوپ ہو یا کڑاکے کی ٹھنڈک،تیز بارش ہو یا کپکپا دینے والی رات،دن کا اجالا ہو یا رات کا اندھیرا وہ مصروف عمل رہتا ہے،ان سب کے باوجود خود داری کا یہ عالم کہ کبھی اگر ان کی طے شدہ مزدوری علاوہ ان کے کانپتے ہاتھوں میں چند سکے ڈال دیں تو اس احسان کے بدلے وہ ہر پل اپنی پیشانی جھکا کر آپ کے حکموں کا منتظر رہتا ہے اور اپنی ان بے مثال قربانیوں کے صدقے بس وہ ہم سے اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے دو وقت کی باعزت روٹی کا مطالبہ کرتا ہے،بس یہی ان کی زندگی اور شاید ان کی زندگی کا مقصد جس کی تلاش میں وہ اپنے گھر سے کوسوں دور اپن بیوی بال بچوں کو چھوڑ کر اپنی تمام خواہشات کو دفن کرکے چل پڑتا ہے،اگر منزل مل گئی تو خوشی خوشی دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹ لانے کے لئے اپنی عمر کا ایک قابل ذکر حصہ اس طرح گزار دیتا ہے کہ خود اسے بھی ان گزرتے لمحوں کی قیمت کا اندازہ نہیں ہو پاتا،لیکن اگر منزل انہیں نہیں ملتی تو در بدر کی زندگی ان کا ایسا مقدر بن جاتی ہے کہ بسا اوقات اس کے احساس سے بھی دل کانپ جاتا ہے، مزدور کے اسی طبقہ میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو دن میں تو دوسروں کی خوشیوں کے لئے انسانوں کی بھیڑ میں رہتا ہے لیکن رات ہوتے ہی تھکے ہارے مسافر کی طرح سکون کی دو روٹی کھا کر کسی فٹ پاتھ پر آرام کی نیند سو جاتا ہے،شاید ایسے ہی مزدوروں کے بارے میں کبھی مشہور شاعر منور رانا نے کہا تھا ۔۔

سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

اب حق تو یہ تھا کہ ملک اس طبقہ کو سر آنکھوں بیٹھا کر ان کے جذبات واحساسات کی قدر کرتا،ان کے دکھ درد کو سمجھنے اور انہیں برابر کی حصہ داری کے ساتھ جینے کا حق فراہم کیا جاتا لیکن افسوس آزادی کی ستر دہائیاں گزرجانے کے باوجود اس طبقہ کو وہ نہیں مل سکا جس کا وہ حقدار تھا،ضرورت پڑنے پر ان کا استعمال کرتے ہوئے ان کے جلتے سلگتے احساسات پر اقتدار کی روٹیاں ضرور سینکی گئیں ان کے نام پر سیاسی گلیاریوں میں دولت کی بندر باٹ کا کھیل بھی خوب کھیلا گیا،ان کے نام پر بڑے بڑے فنڈ اکٹھا کئے گئےلیکن انہیں بے بسی کے ماحول سے باہر نکالنے پر نہ تو کسی نے توجہ دی اور نہ اسے ضروری سمجھا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ طبقہ دھیرے دھیرے ایسی پستی میں جا گرا کہ کوئی ہاتھ پکڑ کر سہارا دینے والا بھی کوئی نہ رہا۔اس بے بسی نے نہ جانے کتنوں کی جانیں لے لیں کتنوں کے سہاگ اجاڑدئیے اور کتنے ہی بچوں کے سروں پر یتیمی کی چادر ڈال دی لیکن کہیں کسی کی پیشانی پر شکن تک نہیں آیا اور آتا بھی کیونکر جبکہ سماج میں امیری اور غریبی کی ایسی دیوار کھڑی ہے کہ نہ جانے آئے دن کتنے ہی غریبوں کی غربت امیروں کی انا کے نیچے سسکیاں لیتی سنائی دیتی ہے ۔
یہ سچ ہے کہ انہوں نے حکومتوں سے اپنی بے بسی کا حساب مانگنے کے لئے کبھی کبھی زبانیں بھی کھولیں،اپنے ماضی اور مستقبل سے متعلق سوال بھی کئے،اپنے اوپر ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف آواز بھی اٹھائی،چھوٹے بڑے مظاہروں سے تحریک تک کا سہارا لیا، مگر ہمیشہ حکومت کی جانب سے طاقت کے غرور میں ان کی زبانوں پر تالے لگوا دیئے گئے، اگر کبھی ضرورت پڑی تو ان پر طاقت کا استعمال کرکے ان پر گولیاں تک چلائی گئیں اور اس دردندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں خیال تک نہیں آیا کہ یہی وہ مزدور ہیں جواپنی تکلیف بھلاکر ان کے لئے سہولت کا انتظام کرتا رہا ہے،جو خود جلتا اور پگھلتا ہے مگر ملک کے ایک بڑے طبقے کو ان کی جد وجہد سکون میسر کرتی ہے، ایک پل کے لئے انہیں خیال نہیں آتا کہ جو مزدور ان کے ظلم وتشدد کی زد میں آتے ہیں وہ بھی اسی ملک کا ایک حصہ ہے اور وہ اسی مٹی سے پیدا ہوکر اسی کی آب وہوا میں بس دو وقت کی روٹی کے سہارے جیتے ہیں۔
آج جب کہ پورا ملک کرونا کی جنگ لڑرہا ہے اور لاک ڈاون کے سبب ہر طرف فاقہ کشی پاوں پھیلائے ہوئی ہے،سارے کاروبار بند ہو چکے،فیکٹریوں اور کارخانوں پر تالے لٹک گئے، یومیہ مزدوروں کے سامنے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کا مسئلہ کھڑا ہوگیا اور ہر چہار جانب آہ وبکا کی کیفیت پھیل گئی ایسی صورت حال میں لاکھوں ایسے مزدوروں کی تصویریں ہمارے سامنے ہیں جنہوں نے بھوک کی شدت سے تڑپ تڑپ کر راتیں کاٹی ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد ان مزدوروں کی بھی ہے جنہوں نے اسی ملک کی سڑکوں پر دم توڑ دیا ہے جہاں ہر سال یکم مئی کو یوم مزدور مناکر ان کی قربانیوں کو سلام کرتے رہنے کا عہد کیا جاتا ہے اور ایسے منظر نامے اس لئے ہماری آنکھوں کے سامنے آئے کہ کرونا کی وجہ سے اچانک بغیر کوئی تیاری کئے لاک ڈاون کر دیا اور پھر بے سہارا مزدوروں کی گھر واپسی کا ایسا دور شروع ہوا کہ آج بھی دل دہل جاتا ہے،مگر افسوس ملک بھر میں کوئی نہیں جو ان بے بس مزدوروں کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو کو پوچھنے کے لئے تیار ہو حکومت بھلے ہی ان مزدوروں کی سہولیات کے لئے بڑے بڑے دعوے کرکے واہ واہی لوٹنے میں مصروف ہو مگر ابھی تک کی تمام زمینی سچائیاں ان کے دعوں کے خلاف ہیں اور اس کا ثبوت بے بسی میں ڈوبی وہ تمام تصویریں ہیں جو لاک ڈاون کے دوران اس ملک کی عوام نے بار بار دیکھی ہیں کبھی سڑکوں پر دم توڑتے ہوئے مزدور حکومت کے سامنے سوال بنے تو کبھی سینکڑوں میل پیدل چلتے اور ٹرین کے نیچے زندگی کی آخری سانس لیتے ہوئے دنیا نے ان بے سہارا مزدوروں کو دیکھا مگر کون ہے ان کے بارے میں سوچنے والا کسے موقع ہے کہ وہ ان کی سسکتی اور بلکتی آوازوں کو سن کر اس کا حل تلاش کرے،کیا ہے کوئی مسیحا وہمدرد جو ہاتھ پکڑ کر ان مزدوروں کو معاشی بحران کی دلدل سے باہر نکال کر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہوئے کہ سکے کہ ملک آپ کی قربانیوں کا مقروض ہے،لیکن اتنا کہنا بھی ان کے مسئلے کا حل نہیں کیونکہ جب پیٹ میں بھوک کی آگ لگی ہو اور مزدوروں کے بچے بغیر کھائے پیئے دو وقت کی روٹی کے انتظار میں دم توڑ رہے ہوں تو انہیں الفاظوں کے سہارے سکون نہیں دلایا جا سکتا بلکہ روٹی کے سوکھے ٹکڑے بھی ان کی زندگی بحال کر سکتے ہیں۔
عام لوگوں کی اگر بات چھوڑ دیں تو حکومتی طبقہ میں سے دور تک آپ کو انسانوں کی اس بھیڑ میں کوئی ایسا نظر نہیں آئے گا جنہوں نے ان مزدوروں کی موجودہ صورت حال کے سلسلے میں بات کی ہو ورنہ کیا بات ہے کہ بڑے شہروں سے مزدوروں کی ہجرت کا سفر پوری شدت سے جاری ہے لمبے سفر جے لئے لوگ بغیر کسی سہارے کے پیدل نکل چکے ہیں،اپنے کاندھے پر زندگی کا بوجھ لے کر چلچلاتی دھوپ میں در در بھٹکنے پر مجبور ہیں مگر کہیں ان مزدوروں کی آہ وبکا کو سننے والا کوئی نہیں،ابھی حالیہ دنوں اورنگ آباد میں ایک درجن سے زائد مزدور ٹرین کی پٹری پر ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئے مگر کس کو فرق پڑا،کیا کسی نے آوقز اٹھائی ٹی وی اور سوشل نیٹورک پر ضرور بحث وتبصرے کا دور چلا مگر نہ تو کوئی ان کہ زندگی واپس لا سکا اور نہ ہی کسی نے اس کے بعد مزدوروں کی بدحالی کا کوئی حال تلاشا،یہی سب دیکھ کر ملک بار بار پوچھتا ہے کہ کیا مزدور ہونا کوئی جرم ہے اس ملک،آخر وہی مزدوروں جو اپنا پسینہ بہاکر ملک میں خوشحالی کے دیپ جلاتا ہے وہ اچانک سے اتنے بے سہارا کیوں ہو گئے
اس میں کوئی شک نہیں کہ مزدوروں کا عالمی دن کار خانوں، کھتیوں کھلیانوں، کانوں اور دیگر کار گاہوں میں سرمائے کی بھٹی میں جلنے والے لاتعداد محنت کشوں کا دن ہے اور یہ محنت کش انسانی ترقی اور تمدن کی تاریخی بنیاد ہیں،لیکن کاش ہماری حکومت مزدوروں کے مفادات کے تحفظ کے لئے آواز اٹھا کر کوئی ٹھوس حکمت عملی تیار کرتی اور انہیں یقین دلایا جاتا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں حکومت عام مزدوروں کے ساتھ ہے ۔

Comments are closed.