لاک ڈاؤن کے دوران گھروں اور مسجدوں میں عید کی نماز

?دارالافتاء شہر مہدپور?
بقلم:
مفتی محمد اشرف قاسمی
کیا فرماتے ہیں علماے کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں کہ: کیا موجودہ حالات میں عید الفطر کی نماز گھر میں ادا کرسکتے ہیں؟
اگر مقتدیوں کی تعداد کم ہو یا پھر امامت کرنے والا کوئی نہ ہو تو کیا حکم ہے؟
نیز موجودہ لاک ڈاؤن کے پیش نظر نماز عید الفطر کے تعلق سے کوئی مزید ہدایت ہو تو رہنمائی فرمائیں۔ اورنماز کاطریقہ بھی بتلادیں۔ اگر کوئی نماز نہ ادا کرسکے تو کیا کرے؟
فقط والسلام
1۔عبد الباری قریشی
بھیکھن گاؤں ضلع کھرگون (ایم پی)۔
2۔مولانا عبد الحلیم فرقانی
موضع کمدا،
ضلع بلرامپور ( یوپی)۔
3۔محمد اعظم ناگوری۔
مہد پور، ضلع اجین( ایم۔پی)۔
4۔محمد عمر۔ (تاملناڈو)۔
ودیگرحضرات
*الجواب حامدا ومصلیا ومسلما اما بعد*
سب سے پہلے مختصرا سمجھ لیں کہ :
*جن مقامات پر جمعہ کی شرائط پائی جاتی ہیں وہاں موجودہ حالات میں امام کے علاوہ کم از کم تین بالغ مرد ہوں تو گھروں میں بھی عید کی نماز ہوسکتی ہے۔*
*مناسب یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے اصول و ضابطوں کی پابندی کرتے ہوئے مسجدوں اور عید گاہوں میں بھی کچھ لوگ عید الفطر کی نماز ادا کریں۔*
*حالات کی نزاکت،اربابِ سیاست کی شرارت اور میڈیا کی بد نیتی کو محسوس کرتے ہوئے مسجدوں و عیدگاہوں یا کسی بھی مقام پر بڑی تعداد میں نمازِ عید کی ادائیگی کی کوشش نہ کی جائے اور نہ ہی اس سلسلےمیں حکومت سے کوئی مطالبہ کیا جائے؛ بلکہ جس طرح رمضان کے مقدس مہینے میں ہم نے صبر وتحمل کے ساتھ گھروں میں تراویح پڑھیں اور جمعہ کی نمازیں ادا کی ہیں، اسی طرح عید کی نماز بھی سادگی کے ساتھ بغیر بھیڑ بھاڑ کے ادا کی جائے۔*
لاک ڈاون کے موقع پر نمازِ عید کے تعلق سے مذکورہ بالا بنیادی باتوں کے بعد نفسِ مسئلہ ذیل میں ملاحظہ کریں۔
نمازِ عید الفطر کی ادائیگی کے لئے شہر سے باہر کھلے میدان میں جانا سنت ہے۔(1)
یہ حکم عام صحت مند اور غیر معذورین کے لئے ہے؛ لیکن جو لوگ اپنی پیرانہ سالی یا ضعف وبیماری کی وجہ سے باہر جا کر عید کی نماز ادا نہیں کرسکتے ہیں ان کے لئے گنجائش ہے کہ وہ شہر ہی میں دوسری جماعت کر کے عید کی نماز ادا کرلیں۔(2)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کمزوروں اور ضعیفوں کے لئے شہر کے اندر ہی الگ سے عیدین کی جماعت کا اہتمام فرماتے تھے۔(3)
جب عام حالات میں ضُعَفا کے لئے یہ رعایت ہے کہ وہ عیدگاہ جانے کے بجائے شہر کے مسلمانوں کی پنچایت یا کمیٹی کی ہدایت و انتظام کے مطابق شہر کے اندر مسجد ہی میں عید کی نماز ادا کرلیں تو آج کے مخصوص حالات میں جن مقامات پر شرائطِ جمعہ پائی جاتی ہیں۔ (4) اور وہاں جن لوگوں پرجمعہ واجب ہے ان پر عیدین کی نماز ادا کرنا بھی واجب ہے۔(5)
ایسے مقامات پر لاک ڈاون کے عذر کی وجہ سے متعدد مقامات پر عید کی نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں، اور ان مقامات میں مسجد کے علاوہ رہائشی مکان، ہال، کارخانہ، دالان، برآمدہ، بیٹھکا، رِسَیپشَن ہال وغیرہ جگہوں پر عیدین کی نماز ادا کی جاسکتی ہے۔(6)
موجودہ صورت میں جماعت میں تقلیل مقصود ہے؛ اس لیے اس طرح گھروں میں تعددِ جماعت اذنِ عام کی شرط کے منافی نہیں ہے؛ کیوں کہ ان صورتوں میں غلق ابواب ممنوع نہیں ہے۔ کتب فقہ میں اس کی تصریحات موجود ہیں۔(7)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہدایت پر تکلیف سے بچانے کے لئے شہر کے اندر صرف ضُعَفا و معذورین کی جماعت کی جاتی تھی، جس میں اذنِ عام کی کوئی تصریح نہیں ہے۔ پھر بھی کمزور و ضعیف صحابہ کرام کی نمازوں کی صحت پر کسی صحابی نے اعتراض اور نکیر نہیں کیا۔ اسی طرح موجودہ حالات میں تکلیف سے بچانے کے لئے تقلیل جماعت ہی مقصود ہے جو کہ اذنِ عام کے منافی نہیں ہے۔
*کچھ لوگوں کی طرف سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ حکومت کی طرف سے اجازت نہیں ہے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے؛ بلکہ حکومت نے مجمع اور بھیڑ جمع کرنے پر پابندی لگائی ہے۔ نہ کہ جمعہ وعیدین پر، جو عُلما شہر کے مختلف مکانات میں مختصر ٹکڑیوں میں جمعہ وعیدین کو ناجائز کہتے ہیں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر اور غلق ابواب کے سلسلے میں فُقَہا کی تصریحات پر سنجیدگی سے غور فرمالیں۔*
*خطبۂ عید پڑھنا سنت اور سنناواجب ہے۔*
شہروں میں شرائط کے پائے جانے پر عیدین میں چھے زائد تکبیروں کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کرنا واجب ہے۔ (8)
نمازِ جمعہ کے برخلاف عیدیں میں خطبہ واجب نہیں، بلکہ سنت ہے۔ اسی طرح عیدین میں خطبہ نمازِ دوگانہ کے بعد پڑھا جائے گا۔ اگر کسی وجہ سے خطبہ نہ پڑھا جاسکے،تو بھی عیدین کی نماز ادا ہو جائی گی۔البتہ سنت کی فضیلت سے محرومی رہے گی۔اور خطبہ چھوڑنا برا ہے۔(9)
نمازِ عید کا خطبہ پڑھنا سنت ہے، لیکن سننا واجب ہے۔ کوئی نمازی ایسا نہ کرے کہ صرف دو رکعت پڑھ کر بغیر خطبہ سُنے واپس آجائے، یا مقامِ نماز میں دوران خطبہ، خطبہ سننے کے بجائے کسی دوسرے کام میں مصروف ہو۔خطبہ سننے کے بجائے دوسرے کاموں میں مصروف ہونا گناہ ہے۔(10)
*عیدین کے لئے وقت وغیرہ*
نمازِ عید کا وقت اشراق سے لے کر زوال تک رہتا ہے؛ کچھ علماء نے کہا ہے کہ عیدین کا وقت سورج طلوع ہونے کے پندرہ منٹ کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔(11)
عید الفطر میں تھوڑی تاخیر اور عید الاضحی میں تھوڑی جلدی پسندیدہ ہے۔لیکن بہتر یہ ہے کہ طلوع شمس کے بعد اتنا موقع دیا جائے کہ مقتدی آسانی سے نماز میں شریک ہوسکیں۔(12)
عیدین کی نماز کے لئے اذان واقامت نہیں ہے بغیراذان و اقامت کے یہ دونوں نمازیں ادا کرنا سنت ہے۔(13)
*نماز عید کا طریقہ*
نماز عید کے لئے جمعہ کی طرح کم از کم تین بالغ مرد اور ایک امام یعنی چار لوگوں کا ہونا ضروری ہے۔ اگر چار سے کم ہوں گے تو نماز عید درست نہیں ہوگی۔(14)
امام اور مقتدی دونوں پہلے دل میں نمازِعید کی نیت کریں، زبان سے نیت کے کلمات بولنا ضروری نہیں ہے۔ نیت کے بعد امام بلند آواز سے اللہ اکبر کہہ کردونوں ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اٹھائے۔ اور ناف کے نیچے باندھ لے، مقتدی بھی آہستہ تکبیر بول کر دونوں ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لیں۔ پھر امام ومقتدی دونوں آہستہ ثنا پڑھیں، ثنا پڑھ کر امام تین بار بلند آواز سے اللہ اکبر بولے اور مقتدی بھی۔ہرتکبیر کے بعد تین بار سبحان اللہ کہنے کی مقدار وقفہ کرنا چاہئے۔ پہلے دو بار ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیں گے اور تیسری بار اٹھانے کے بعد ہاتھوں کو چھوڑنے کے بجائے باندھ لیں گے۔ پھر امام آہستہ آواز میں اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھے گا اور اس کے بعد بلند آواز سے سورۂ فاتحہ اور سورۃ کی قرآت کرے گا، اور مقتدی خاموش کھڑے رہیں گے۔ پھر امام کے ساتھ رکوع، سجدہ وغیرہ کر کے حسب دستور پہلی رکعت پوری کی جائے گی۔ دوسری رکعت میں کھڑے ہو کر پہلے امام قرآت کرے گا، مقتدی ہاتھ باندھ کر خاموش کھڑے رہیں گے۔ قرأت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے امام پہلی رکعت کی طرح تین مرتہ تکبیر کہے گا اور ہر مرتبہ ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے گا۔ امام کے ساتھ مقتدی بھی آہستہ تکبیر کہہ کر ایسا ہی کریں گے۔ پھر چوتھی مرتبہ تکبیر کہہ کر امام ومقتدی سب رکوع کریں گے اور آگے حسب معمول نماز مکمل کی جائے گی ۔(15)
*نماز عید میں سجدہ سہو*
عیدین میں اگر سجدہ سہو کی ضرورت پیش آجائے تو مجمع کثیر کی بناپر فتنہ اور انتشار سے بچنے کے لئے سجدہ سہو نہ کرنے کا حکم ہے؛ لیکن لاک ڈاؤن میں مجمع کم رہے گا؛ اس لئے اگر سجدہ سہو کی ضرورت پیش آجائے تو سجدہ واجب ہوگا؛ کیوں کہ اس موقع پر علت مجمع کثیر (جس کی وجہ سے سجدہ سہو کی ادائیگی ساقط ہوتی ہے) نہیں پائی گئی۔(16)
*جس کی نماز عید چھوٹ جائے۔*
اگر ایک مقام پر کسی کی نمازِ عید چھوٹ جائے تو کوشش کرنی چاہیے کہ دوسری جگہ جہاں عید کی جماعت ملنے کی امید ہو وہاں جاکر عید کی نماز ادا کر لے۔(17)
اگر کہیں نمازِ عید نہ ملے تو وہ تنہا دو یا چار رکعتیں چاشت کی نیت سے پڑھ سکتا ہے۔ افضل یہ ہے کہ چار رکعتیں پڑھے؛ لیکن اس میں نماز عید کی طرح زائد تکبیریں نہیں کہی جائیں گی، نیز نمازِ عید کی قضا واجب اور ضروری نہیں ہے۔ اگر معذوری یا مجبوری میں نمازِ عید نہیں پڑھ سکا اور اس کے بدل کے طور پر اس طرح دو یا چار رکعت نہ پڑھے تو گنہ گار نہیں ہوگا۔(18)
*کچھ لوگوں نے موجودہ حالات میں عید کی نماز سے منع کر کے کہا ہے کہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں دو یا چار رکعت چاشت پڑھیں؛ لیکن یہ بھی کہا ہے کہ چاشت کی نماز عید کی نماز سے قبل مکروہ ہے؛ اس لئے جب کہیں شہر میں عید کی نماز ہوجائے تو پھر چاشت کی نماز پڑھی جائے۔*
*ان لوگوں کی یہ بات صرف تشویش اور انتشار کا ذریعہ ہے؛ کیوں کہ انہوں نے ایک طرف عید کی نماز کی ادائیگی سے لوگوں کو منع کردیا ہے۔ دوسری طرف شہر میں کہیں عید کی نماز ہوجانے کے انتظار کی تعلیم دے رہے ہیں، جب عید کی نماز ہے ہی نہیں، تو کہیں عید کی نماز ہوجانے کا کیا مطلب ہے؟ ان کی باتوں میں تضاد اور الجھاؤ ہے۔اس لئے انہیں اپنے موقف کی اصلاح کرنی چاہئے*
(1)عن علی الخروج الی الجبان من سنۃ (معجم الاوسط للطبرانی، ج3؍ص116 رقم الحدیث: 4040)
(2) السنۃ ان یخرج الامام الی الجبانۃ، ویستخلف غیرہ لیصلی المصر بالضعفاء، بناء علی ان صلوۃ العیدین فی موضعین جائزۃ بالاتفاق، وان لم یستخلف فلہ ذالک (رد المحتار:ج 3ص 46، ط: بیروت)
(3) عن اسحق : ان علیا امر رجلا یصلی بضعفۃ فی المسجد رکعتین۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ ج 4؍،ص238، رقم الحدیث: 5865)
(4) ویشترط للعید مایشرط الا الخطہ۔ (الفتاوی الھندیۃ: ج ص وفی حاشیۃ الطحطاوی: ص 528)
(5) وتجب صلوتھا علی من تجب علیہ الجمعۃ بشرائطھا المقدمۃ۔(ردالمحتار: ج3؍ص 45 و 46، زکریا)
(6) ویجوز اقامتھا فی المصر وفنائہ فی موضعین فاکثر (غنیۃ المستملی: ص 529، حلبی کبیر: 572)
(7) "السابع : (الاذن العام) فلایضر غلق باب القلعۃ لعدو اوعادۃ قدیمۃ، لان الاذن العام مقرر لاھلہ وغلقہ لمنع العدو ولاالمصلی، امالو تعددت فلا: لانہ لایتحقق التفویت کما افادہ التعلیل”۔ (رد المحتار، باب الجمعۃ: ج2ص 152۔ أحسن الفتاوى: ج 4ص112)
(قوله: الإذن العام) أي أن يأذن للناس إذنًا عامًّا بأن لايمنع أحدًا ممن تصح منه الجمعة عن دخول الموضع الذي تصلى فيه، وهذا مراد من فسر الإذن العام بالاشتهار، وكذا في البرجندي إسماعيل، وإنما كان هذا شرطًا لأن الله تعالى شرع النداء لصلاة الجمعة بقوله: {فاسعوا إلى ذكر الله} [الجمعة: 9] والنداء للاشتهار، وكذا تسمى جمعة لاجتماع الجماعات فيها، فاقتضى أن تكون الجماعات كلها مأذونين بالحضور تحقيقًا لمعنى الاسم. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين:ج2ص151)
والذي يضر إنما هو منع المصلين لا منع العدو. (الدر المختار مع رد المحتار: ج3؍ ص25، زکریا)
(8) (مرقاۃ: ج2 ص 254 و 255۔ حلبی کبیر: ص 566 و 567۔ التاتار خانیہ: ج2 ص604)
(9) ویشترط للعید مایشترط للجمعۃ الا الخطبۃ ۔۔۔۔فانھا سنۃ بعد الصلوۃ ، وتجوز الصلوۃ بدونھا ۔(الفتاوی الھندیۃ: ج1 ص 150وفی حاشیۃ الطحطاوی ص528)
فانھا سنۃ بعد ھا ۔۔۔حتی لولم یخطب اصلا صح واساء لترک السنۃ ( البحرالرائق، باب العیدن ج2؍ ص166، کراچی)
(10) کذا یجب الاستماع لسائر الخطب کخطبۃ النکاح وخطبۃ عید وختم علی المعتمد (الدر المختار: ج3ص35 و 36، زکریا)
(11) فتاوی رحیمیہ: ج5ص56
(12) و وقت الصلاة من الارتفاع إلى الزوال۔ يندب تعجيل الاضحی لتعجيل الاضاحی و تاخير الفطر ليؤدى الفطرة كما في البحر – ( الردالمحتار: ج3ص53،ریاض)
(13) عن ابن عباس، ن رسول الله صلى العيد بلا أذان ولا إقامة. وأبا بكر وعمر، وعثمان شك یحیی. (ابوداود، برقم الحدیث: 1147 )
وليس في العيدين أذان ولا إقامة، هكذاجرى التوارث من لدن رسول الله عليه الصلاة و السلام إلى يومناهذا. (المحيط البربانی: ج2ص485)
(14)،(و) السادس: (الجماعة) وأقلها ثلاثة رجال (ولو غير الثلاثة الذين حضروا سوى الإمام) بنص {فاسعوا إلى ذكر الله} [الجمعة: 9] الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار: ج1؍ ص151)
(15) فيكبر تكبيرة الإحرام ثم يضع يديه تحت سرته ويثني على ما مر ثم ثلاث تكبيرات يفصل بين كل تكبيرتين بسكتة قدر ثلاث تسبیحات لئلا يؤدي الاتصال إلى اشتباه على البعيد ويرفع يديه عند كل تكبيرة منهن ويرسلهما في أثنائهن ثم يضعهما بعد الثالثة ويتعوذ ويقرأ الفاتحة وسورة كما في الجمعة، ثم يكبر ويركع، فإذا قام إلى الركعة الثانية يبتدئ بالقراءة ثم يكبر بعدھا ثلاث تكبيرات على هيئة تكبيرة في الأولى، ثم يكبر ويركع فالزوائد في كل ركعة ثلاث، والقراءة في الأولى بعد التكبير، وفي الثانية قبله ھكذا كيفية صلاة العيد عند علمائنا وهو قول ابن مسعود وأكثر الصحابة ۔
(حلبی کبیر: 567-566، التاتارخانیة: ج2؍،ص604، زکریا۔نورالایضاح: ص121 و 122)
(16) ولايأتي الإمام بسجود السهو في الجمعة والعيدين دفعا للفتنة بكثرة الجماعة. (مراقی الفلاح) دفعا للفتنة، أي افتتنان الناس وكثرة الهرج۔ (بكثرة الجماعة) الباء للسيبيه وهي متعلقة بقوله للفتنة، وأخذ العلامة الواني من هذه السبية أن عدم السجود مقيد بما إذا حضر جمع کثیر، أما اذلم يحضروا فالظاهر السجود لعدم الداعي إلى الترك وهو التشويش۔ (طحطاوی علی المراقی: 253، وکذافي الشامي ج1؍ ص566)
(17) ولو امکنہ الذھاب الی امام آخر، فعل، لانھا تؤدی بمصر واحد بمواضع کثیرۃ اتفاقا۔( الدرالمختار: ج3؍،ص59، زکریا)
(18)ومن فاتہ صلوۃ العید صلی اربعا مثلا صلوۃ الضحی ان شاء ، لان التنفل مثل صلوۃ العید غیر مشروع ، فاذا احب ان یصلی مثل صلوۃ الضحی ان شاء صلی رکعتین، وان شاء صلی اربعا (التاتار خانیۃ: ج2؍ ص 624، زکریا)
وفی البخاری:۔۔۔وقال عطاء: اذا فاتہ العید صلی رکعتین (صحیح البخاری: ج1؍ ص 135، باب اذا فاتہ العید صلی رکعتین)
فإن عجز أربعة کالضحی۔ قلت: وهي صلاة الضحی کمافی الحلية عن الخانية، فقوله كالضحی معناه أنه لا يكبر فيها للزوائد مثل العيد- (شامی: ج3؍ ص59، ریاض)
والأفضل أن يصلي أربع رکعات؛ لأنه روي عن ابن مسعود رضی الله عنه أنه قال: من فاتته صلاة العيد صلی أربع ركعات (المحيط البربانی: ج2؍ ص 499)
قال أبو حنيفة الله: إن شاء صلی، و إن شاء لم يصل، فإن شاء صلی أربعا وإن شاء ركعتين. (اعلاءالسنن: ج 8؍ ص119، ادارة القرآن کراچی )
فقط
واللہ اعلم بالصواب
*کتبہ: محمد اشرف قاسمی*
*خادم الافتاء شہر مہدپور*
ضلع اجین (ایم پی)
24رمضان المبارک1441ھ
مطابق18مئی 2020ء
[email protected]
*تصدیق*
1۔مفتی عبدالخالق صاحب قاسمی
جامعہ اصحابِ صفہ، مکسی ضلع شاجاپور (ایم پی)
(خلیفہ حضرت مولانا قمرُالزماں صاحب الہ آبادی مدظلہ)
2۔مفتی محمد توصیف صدیقی
(معین مفتی: دارالافتاء شہر مہدپور)
*ٹیلی گرام چینل لنک:* https://t.me/joinchat/AAAAAFNnLglqVN-kH8EibQ
Comments are closed.