فکو العانی فکو العانی فکو العانی؛ قیدی کو چھڑاؤ قیدی کو چھڑاؤ

احساس نایاب ( شیموگہ , کرناٹک )
ایڈیٹر گوشہ خواتین بصیرت آن لائن
قیدیوں کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"فکوالعانی فکو الاسیر فکو العانی فکو الاسیر”
” قیدی کو چھڑاؤ قیدی کو چھڑاؤ قیدی کو چھڑاؤ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی فقرے باربار دہراتے جاتے تھے ”
دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” جس نے قیدی کو چھڑوایا اس نے مجھ محمد کو چھڑوایا ” سبحان اللہ
ایک روایت میں امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
مسلمان قیدیوں کو چھُڑانا مسلمانوں پہ فرض ہے چاہے وہ لڑکر چھُڑائیں یا مال دے کر چھُڑائیں
حضرت امام مالک رح فرماتے ہیں کہ اگر قیدیوں کو چھڑانے کے لئے سب مسلمانوں کو نکلنا پڑے تو سب نکل کھڑے ہوں اور کوئی آنکھ اُس وقت تک آرام نہ کرے جب تک اُن قیدیوں کو نہ چھُڑالیا جائے اور اگر تمام مسلمانوں کو اپنا سارا مال دے کر قیدی چھڑانے پڑیں اور مسلمانون کے پاس ایک درہم بھی باقی نہ بچے تب بھی قیدی چھڑانے سے دریغ نہیں کرنا چاہئیے
افسوس مسلمانوں نے اس عظیم فرمان کو بھُلادیا ہے
آخر اتنا اہم فریضہ ہم کیسے بھول گئے ؟
جبکہ آج ہمارے جتنے بھی سوشیل ایکٹوسٹ ہیں جنہوں نے این آر سی اور سی اے اے جیسے سیاہ قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے احتجاج کیے، شاہین باغ جیسی تحریک کا آغاز کیا اور وقت کے فرعونوں کی ناپاک آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں للکارا, ہماری بقا ہمارے حقوق کی خاطر پیش پیش رہ کر آئینی حقوق کو استعمال کرتے ہوئے ہر عام و خواص کی لڑائی خود لڑتے رہے، آج ان سبھی کو یو اے پی اے جیسے ظالمانہ قانون کے تحت جھوٹے و بےبنیاد الزامات لگا کر گرفتار کرلیا گیا ہے، انہیں ملک غدار کہہ کر اُن پہ ظلم و ستم ڈھایا جارہا ہے، اذیتیں دی جارہی ہیں جن میں معصوم صنف نازک فیمیل ایکٹوسٹ بھی شامل ہیں،
جی ہاں ! آج زندان میں انہیں بھی لے گئے
جو کبھی ایک لفظ تک بولا نہیں!
ان کا قصور بس اتنا سا تھا کہ انہوں نے تاناشاہ کی تاناشاہی کے آگے جھکنے سے انکار کردیا, اپنوں اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کی خاطر ظالموں کے آگے چٹان بن کے کھڑے ہوگئے، اس لڑائی کا مقصد اپنے وجود کی بقا اور بھارت کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کی سالمیت تھی تاکہ ملک عزیز سترنگی گلشن کی طرح ہمیشہ مہکتا رہے،
لڑ رہے ہیں اس لئے کہ پیار جگ میں جی سکے
آدمی کا خون کوئی آدمی نہ پی سکے ……
لیکن بدلے میں انہیں کیا ملا ؟
قید, اذیتیں, تہمتیں, ذلت و رسوائی اور ان سب سے بڑھ کر نام نہاد ہمدردوں کا دوغلہ چہرہ،
کل تک بڑے بڑے دعوے کرنے والے آج اس مشکل وقت میں ایسے غائب ہیں مانو گدھے کے سر سے سینگ۔!
وہ قلم جو خود کو سچائی کا علمبردار کہا کرتے تھے آج اُس کی سیاہی سوکھ چکی ہے، جو ان نوجوانوں کے حق میں ایک لفظ لکھنے سے بھی قاصر ہیں, ملی و سیاسی قائدین کی تو بات ہی نہ کریں اسٹیجس کی زینت بننے والوں کی زبانوں کو اکثر ایسے وقت میں لقوا مار جاتا ہے،
بچے خود کو سیکولر کہنے والوں کا حال "آن سین آف سین” جیسا ہے جو پردہ کے آگے کچھ اور پردہ کے پیچھے کچھ ہیں، تبھی جب دہلی جلتی رہی ان کے منہ سے اُف تک نہیں نکلا, انہیں ہیرو بنانے والے جامعہ کے بچوں کو جب گرفتار کیا گیا تو انہوں نے سیدھے سیدھے اپنا پلا جھاڑ لیا،
بہرحال غیروں سے اس سے زیادہ امید بھی کیا کی جاسکتی ہے، جب اپنے ہی غیروں سے بدتر کردار ادا کررہے ہوں ……
سمجھ نہیں آتا قوم کی اس بےحسی و بےغیرتی پہ آنسو بہائیں یا ماتم کریں دل تو کرتا ہے شرم کے مارے زمین میں گڑ جائیں۔!
اپنی ان معصوم بےگناہ بہنوں کو ظالموں کی قید میں دیکھ کر دل جلتا ہے, تکلیف ہوتی ہے، دل تو کرتا ہے اس بزدلی و زبوں حالی پہ لاکھوں لاکھ لعنت بھیجیں ..!
ذرا یاد کرو اپنے اُس دور کو جب محمد بن قاسم جیسے قوم کے دلیر جانباز نوجوان صنف نازک کی ایک آواز پہ لبیک کہتے ہوئے سمندر وادیاں پار کرکے مدد کے لئے آجاتے تھے، آج اُسی قوم کی اپنی شہزادیاں بےبس, بےسہارا, لاوارثوں کی طرح زندانوں میں قید ہیں,
ان میں سے ایک صفورا زرگر نامی بہن جو 3 ماہ کی حاملہ ہیں اس حال میں وہ قید کی بدترین اذیتین برداشت کررہی ہیں, ایک ایک پل قیامت کی طرح گزار رہی ہیں، ظالموں کو اُن کے اس حال پہ بھی ترس نہیں آرہا ہے، نہ ہی اُن کے جسم میں پل رہی اُس معصوم جان کی کسی کو پرواہ ہے،
اس کے برعکس اُن کے حمل کو لے کر تہمتیں لگائی جارہی ہیں، اُن کی کردار کشی کی جارہی ہے، اور یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ایسا کوئی لال نہیں ہے جو ان مظلوموں کے لئے ظالمِ وقت سے ٹکراسکے،
اللہ جانیں آج ہماری غیرتِ ایمانی و غیرتِ مردانی کہاں چلی گئی ہے!!
جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس مسلمان کو دوسرے مسلمان کے سامنے رُسوا کیا جائے اور وہ قدرت کے باوجود اس کی مدد نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن تمام مخلوق کے سامنے رسوا فرمائیں گے.!
شاید آج قوم کی ذلت و رسوائی کی اصل وجہ ہماری یہی نااہلی؛و بزدلی اور دنیاپرستی ہے،
ایک طرف صفورا زرگر , عشرت جہاں اور گل فشاں کا غم تو دوسری جانب رضوانہ تبسم جیسی نڈر و بیباک لڑکی کی خودکشی ہے، جس کو بیشتر لوگ خودکشی ماننے سے انکار کررہے ہیں، اور تبسم کی موت پہ کئی سوال کھڑے کیے جارہے ہیں کہ تبسم جیسی نڈر و بہادر لڑکی جو صبر و برداشت کا جیتا جاگتا مجسمہ تھیں آخر وہ کیوں اور کس وجہ سے خودکشی جیسا بزدلانہ قدم اٹھا گئی ہے؟؟؟
لیکن سوال پوچھنے کی ہمت بھی تو کسی میں نہیں، یہاں تو سبھوں کو اپنی اپنی پڑی ہے، کوئ جیے یا مرے کسی کو کیا،
جس لڑکی نے ظالم سرکار کو دن میں تارے دکھائے وہ کیسے چُپکے سے حالات سے گھبراکر اپنی آنکھیں موند سکتی ہے ؟
آخر کیسے وہ خودکشی جیسا بزدلانہ قدم اٹھاسکتی ہے ؟
یقین جانیں یقین کرنا ناممکن ہے، بہرحال اندھے بہرے گونگوں کی بستی میں حق کی آوازیں یونہی دبا دی جاتی ہیں، پھر سچائی کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے،
دراصل یہاں جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں اور جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں،
آخر ظلم کے خلاف کہے بھی تو کہے کون
زبانیں تو بہت ہیں لیکن آوازیں یہاں گم ہیں۔۔!
Comments are closed.