عید الفطر کے احکام و مسائل

مفتی خیر الاسلام قاسمی

کچھ ہی پلوں میں ماہ رمضان ہم سے رخصت ہوا چاہتا ہے، بہت جلد ہم بارگاہ ایزدی میں سربجود ہو کر دوگانہ شکرانے کی نماز ادا کریں گے، چونکہ مسلسل لاک ڈاؤن کی وجہ سے طرز زندگی یکسر بدل سی گئی ہے اس لیے بعض مقامات پر مسلمان دوگانہ ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں البتہ جن علاقوں میں حالات کچھ اطمینان بخش ہیں وہاں کے مسلمان دو رکعت عید الفطر کی نماز ادا کریں گے اس لیے مناسب سمجھا کہ عید الفطر کے چند احکام ومسائل سپر قرطاس کردوں۔ تو سب سے پہلے یاد رکھیں کہ عید کی نماز کے لیے گھر سے نکلنے سے پہلے خورما، چھوارہ، کھجور یا کوئی بھی شیریں و میٹھی چیز تناول کرلینا سنت ہے۔

نیّت:

دراصل نیت دل کے ارادے کو کہا جاتا ہے۔۔۔ لہٰذا اگر کوئی شخص صرف دل سے یہ ارادہ کرلے کہ وہ "اپنے امام کی اقتدا میں عید کی نماز پڑھ رہا ہے” تو اتنا ہی کافی ہے۔۔۔ اگر کوئی شخص صرف زبان سے نیت کے الفاظ کا تلفظ کرے اور دل سے ارادہ نہ کرے تو اس کی نماز نہیں ہوگی، ہاں اگر کوئی شخص دل سے نیت کرنے کے ساتھ ساتھ، اطمینانِ قلب کے لیے زبان سے بھی نیت کے الفاظ کا تلفظ کرلے، تو اس کی بھی اجازت ہے، تاہم زبان سے نیت کے الفاظ کا تلفظ کرنے کو سنت نہ سمجھے اور نہ نیت کے لمبے چوڑے رسمی الفاظ استعمال کرے؛ بس اتنا کہے: میں اس امام کی اقتدا میں عید کی نماز پڑھ رہا ہوں۔

نمازِ عید کا آسان طریقہ:

ہم جانتے ہیں کہ عید کی نماز دو رکعت ہے اور اس کے پڑھنے کا طریقہ بھی وہی ہے جو کسی بھی دو رکعت نماز کے پڑھنے کا طریقہ ہے، بس اتنا سا فرق ہے کہ دیگر نمازوں میں زائد تکبیریں نہیں ہیں؛ جب کہ عید کی نماز میں چھ زائد تکبیریں ہیں، ۔تین پہلی رکعت میں اور تین دوسری رکعت میں، پہلی رکعت میں قرات سے پہلے ثنا کے بعد کہیں گے اور دوسری رکعت میں قرات کے بعد رکوع سے پہلے تینتیس تکبریں بلند آواز سے کہیں گے۔

زائد تکبیریں کہنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر تکبیر میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دینا ہے؛ سوائے پہلی رکعت کی تیسری زائد تکبیر کے کیوں کہ اس میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑا نہیں جائے گا؛ بلکہ باندھ لیا جائے گا۔

اس موقعے پر ایک اہم بات یاد رکھنے کی ہے کہ تکبیراتِ انتقال (ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانے کی تکبیریں) سب سنت ہیں؛ مگر عید کی دوسری رکعت میں رکوع میں جانے کے لیے کہی جانے والی تکبیر واجب ہے؛ لہٰذا یہ تکبیر زبان سے ضرور ادا ہونی چاہیے۔

عید کی نماز میں سورتیں:

عید کی نماز میں وہی سورتیں پڑھنا مسنون ہے، جو جمعہ کی نماز میں مسنون ہے یعنی پہلی رکعت میں سورۂ "اعلیٰ” اور دوسری رکعت میں سورۂ "غاشیۃ” البتّہ عید کی نماز میں مذکورہ دونوں سورتوں کے بجائے پہلی رکعت میں سورۂ "ق” اور دوسری رکعت میں سورۂ "قمر” پڑھنا بھی رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔

عید کی نماز میں خطبہ:

جیسا کہ جمعہ کی نماز میں دو خطبے ہیں، اسی طرح عید کی نماز میں بھی دو خطبے ہیں فرق یہ ہے کہ جمعہ کی نماز میں خطبے واجب ہیں لہٰذا خطبوں کے بغیر جمعہ کی نماز درست نہیں ہوتی ہے جب کہ عید کی نماز میں خطبے سنت ہیں لہٰذا خطبوں کے بغیر بھی عید کی نماز درست ہو جائے گی، ایک فرق اور یہ ہے کہ جمعہ کے خطبے نماز سے پہلے ہیں جب کہ عید کے خطبے نماز کے بعد ہیں، عید کی نماز میں بھی وہی خطبے پڑھے جاسکتے ہیں جو جمعہ کی نماز میں پڑھے جاتے ہیں، ہاں مگر اتنا خیال رکھنا چاہیے کہ عید کے خطبۂ اوّل سے پہلے نو مرتبہ "اللّٰہ اکبر” اور خطبۂ ثانی سے پہلے سات مرتبہ "اللّٰہ اکبر” پڑھ لیں اور خطبوں کے دوران کہیں کہیں، جہاں جملے پورے ہو رہے ہوں، وہاں تکبیرِ تشریق: "اللّٰهُ أکبر، اللّٰهُ أکبر، لا الٰہ الّا اللّٰهُ وَ اللّٰهُ أَكْبَرُ، اللہ أکبر، وللہ الحمد” پڑھتے رہیں۔

عید کی نماز میں دعا:

عید کی نماز میں دعا نماز کے بعد اور خطبوں سے پہلے کی جائے گی۔

دعا کے بعد بھی خطبے بہ غور سننے کے لیے نمازیوں کو اپنی اپنی جگہوں پر ہی بیٹھے رہنا چاہیے، اٹھنا نہیں چاہیے نہ سمٹ کر بیٹھنے کے لیے اور نہ منھ اٹھا کر گھر گھر جانے کی تیاری کے لیے۔

عید کی نماز سے فارغ ہوکر سلام، مصافحہ اور معانقہ:

ہماری شریعتِ اسلامیہ میں سلام، مصافحہ اور معانقہ کی مشروعیت اس وقت کے لیے ہے جب کہ دو انسان پہلے سے جدا ہوں اور اس وقت مل رہے ہوں تو وہ دونوں آپس میں ایک دوسرے سے سلام، مصافحہ اور معانقہ کریں گے جو لوگ پہلے سے ایک ساتھ بیٹھے ہوں، وہ اٹھ کر ایک دوسرے سے سلام، مصافحہ اور معانقہ کرنے لگیں، تو اس سے شریعت کے ایک حکم کو بے موقع اور بے محل استعمال کرنا لازم آئے گا جو کہ "نیکی برباد گناہ لازم” کا باعث بن جائے گا۔

عید کی مبارکبادی:

آپ بغیر سلام، مصافحہ اور معانقہ کے ایک دوسرے کو بھی عید کی مبارکبادی مختلف الفاظ میں پیش کرسکتے ہیں حدیثِ مبارکہ میں عید کی مبارکبادی کے لیے جو الفاظ وارد ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: "تقبّل اللہ منا ومنکم”  البتہ ہمارے معاشرے میں جو الفاظ رائج ہیں، وہ بھی جائز ہیں لیکن عید ملن تقاریب کے نام پر جو کچھ کیا جاتا ہے اس کا وجود شریعت کی کسی کتاب میں نہیں ملتا ہے، مسلمانوں کو غیر اسلامی رسوم و رواج سے اجتناب کرنا چاہیے۔

دعاء ہے اللہ پاک ہمارے روزوں و دیگر نیک اعمال کو قبول فرمائے، ہمیں بار بار رمضان المبارک کے روزے رکھنا و نیکیاں بٹورنا نصیب فرمائے۔ اور ہر قسم کے فتنوں ہم تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے آمین۔

Comments are closed.