Baseerat Online News Portal

استادمحترم! مفتی سعید احمد رحمہ اللہ کچھ یادیں کچھ باتیں

محمد شہاب الدین قاسمی
ھزاری باغ (جھارکھنڈ)

اللہ تعالیٰ کے مقرب اور محبوب بندوں کااس دنیا سے جاناصرف چند افراد، قبیلے اور خاندان کے لئے ھی المناک نہیں، بلکہ دنیا ان کی جدائی اور فرقت سےمضطرب ھوجاتی ھے، حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد اکابر واسلاف کے انہیں زریں روایات کی ایک معتبر اور نمایاں کڑی تھے، جن کی جدائ نے سب کویکساں غمزدہ کردیا ھے۔
حضرت سے ترمذی شریف پڑھے اگر چہ تیس سال کا لمبا عرصہ ھو رھا ھے، لیکن ان کی اچانک جدائی نےگذرے ہرلمحات کی یادیں تازہ کردی،زمانہ طالبعلمی اوردرسگاہ کی جو باتیں قصہ پارینہ بن چکی تھیں،یکے بعد دیگرے ذہن ودماغ میں مرتسم ھوکرکرب میں اضافہ کرتی رہیں، عربی چہارم میں جب میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ھوا، اسی وقت سےدورہ حدیث شریف بالخصوص ترمذی شریف کی عبارت خوانی کے امتیازات وخصوصیات کے سلسلے میں سنتا رھتا تھاکہ جب چاھے اور جس طرح چاھےہر طالب علم کو حضرت مفتی صاحب کے درس میں عبارت پڑھنے کی اجازت نہیں تھی،سال کے شروع میں اس سلسلہ میں ھفتوں طلباء کو امتحان سے گذرنا پڑتا اور جب تک حضرت کواطمینان نہ ہوجاتا،کسی کو عبارت پڑھنے کی جرأت نہ ھوتی، شائقین طلبہ جدوجہد کرتے رہتے بالآخر ایک یا دو طالب علم کو ہی عبارت خوانی کی اجازت ملتی، 1990-91ء کے دورہ حدیث شریف میں احقر کو پورے سال ترمذی شریف کی عبارت خوانی کا موقع ملا۔
حضرت الاستا ذ کی درسگاہ کا اصول منفرد تھا،گھر سے رکشہ سے تشریف لاتے، فوارہ سے اور بسااوقات معراج گیٹ سے جوں ہی خبر ملتی کہ مفتی صاحب ؒ تشریف لارہے ہیں دارالحدیث مرتب،خاموش اور محو انتظار ھوجاتا،طلبہ اپنی نشستوں پر مؤدب بیٹھ جاتے،مجال تھا کہ کوئی سامنے یا بغل والے ساتھی سے کوئی ہلکی آواز میں بھی بات کرلے، سب کی نگاہیں ان کے پرُ وقار چہرے کی طرف مرکوز ہوجاتیں،حضرت مسند درس پر تشریف فرماہوتے ہی بلند آواز سے طلبہ کو سلام کرتے اور صرف”جی“ فرماتے اورفوراً بعد قاری عبارت خوانی شروع کرتا، عبارت کی آواز اس قدر مسحور کن اور پرکشش ہوتی کہ دارالحدیث میں روحانیت بھرا سکوت چھاجاتا، اور طلبہ ذھنی اور فکری طور پرعلم حدیث کے سمندر میں غوطہ لگانے کے لئے تیار ہوجاتا، عبارت کی آواز جو فوّارہ اور دارالحدیث کی گیلریوں تک جاتی رہتی، بسا اوقات وہاں سے گذرنے والے طلبہ کے قدم عبارت سنے بغیر آگے نہ بڑھتے۔
ترمذی شریف کے درس میں متن حدیث واضح اور بہترین لہجہ میں پڑھا جاتاتھا،الفاظ وحرکات کی ادائیگی میں تکلف کو مفتی صاحب ؒ بالکل برداشت نہ فرماتے اوراس میں شدت سے بھی منع فرماتے،آسان ادائیگی اور خوش سماعت سے لبریز انداز قرأت کو پسند فرماتے تھے، حروف کو چبانے یا دبانے پر ان کو بارِ خاطر ہو جاتااور فوراً ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار نمایاں ہوجاتے، بسااوقات ناراض ہوکر درس سے اٹھ کرچلے جاتے، اس لئے قاری کو انتہائی مستعد اور حضرت کے اشاروں کے منتظر رہنا پڑتا،وہ ایسے قاری کو پسند فرماتے تھے جو ان کی بحث اور تقریر کو سمجھ سکے، کہ حضرت کی تقریر کب اورکہاں ختم ہورہی ہے،اس کا ادراک بھی قاری کو خود کرنا پڑتا تھا، کبھی کبھی صرف ایک یا دوجملہ پر رک جانا ھوتا، جو قاری اس حساسیت سے عاری ہوتا مفتی صاحبؒ ان سے عبارت نہیں پڑھواتے، مجھے یاد نہیں پڑتاکہ ترمذی شریف کی عبارت خوانی میں میری کسی کمی،کوتاہی یاسستی کی وجہ سے حضرت نے ناگواری کا اظہار کیا ھو۔
حضرت الاستاذباب کے شروع ہی میں باب سے متعلقہ روایت پر مکمل بحث فرمادیتے، بسااوقات دو دو دن گذر جاتے اور باب سے آگے روایت کی عبارت پڑھنے کی نوبت نہ آتی،آپ حدیث کو مقارن بالفقہ کے اسلوب میں پڑھاتے تھے، متعلقہ روایت سے جس قدر فقہی اصول وجزئیات متفرع ہوسکتی تھیں، آپ کھل کر بحث فرماتے، اکثر اس قدربسیط اور جامع تشریح فرماتے کہ ہمیں متداول شروحات میں بھی وہ جزئیات نہ مل پاتیں،ائمہ اربعہ کے مابین اختلاف کو ذکرِ کرتے ھوے، اختلاف کےمنشاء اور اساس کوخوبصورت، عالمانہ اور محققانہ گفتگو فرماتےکہ کسی بھی انداز سے ائمہ اربعہ کے مابین کسی کی تفضیل وتنقیص کی بو تک نہ آتی، روایت مؤیدہ کے استشہاداور دلائل میں مزید روایات پیش فرماتے، آپ کا انداز بیاں اس قدر مرتب اورآسان ھوتا کہ طلبہ کو دقیق علمی مباحث کوبھی سمجھنے میں دیر نہ لگتی،اس دوران طلبہ کی طرف سے اعتراضات واشکالات کی مختلف پرچیاں بھی آپ تک پہونچتیں، آپ ان تمام کو محفوظ کرلیتے اور درس کے اختتام میں ایک ایک کو پڑھتے، بعض پرچیوں کو چار ٹکڑے کرکے ہوامیں پھونک سے بکھیرتے ھوے فرماتے” یہ اس کا جواب ہے” یعنی ان طلبہ کےلئےپرمزاح سرزنش ھوتی جو درس میں دماغی طور پر غیر حاضر رہ کربحث کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتےاور لایعنی سوالات سے درس کے قیمتی وقت کو ضائع کرتےتھے، بعض پرچیوں کے جوابات دیتے اورطلبہ کو مطمئن بھی فرماتے اور ان میں بعض ایسی پرچیاں ہوتی تھیں جن کی تائید کرتے ھوے پرچی دینے پر حوصلہ افزائی فرماتے ،اور بسااواقات گذشتہ تشریح سے آپ رجوع بھی فرمالیتے تھے۔
آپ کے درس حدیث میں علمی نکات وجزئیات کی بارش کا یہ سماں ھوتا کہ ان کا ھر ایک قطرہ گوھر آبدار ھوتا، آپ کے انداز تدریس میں علماء متقدمین کی جھلک نظر آتی اورآپ کی تقریر اور تشریح حدیث سن کر طلبہ کے اندر خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوجاتیں، آپ جس جوش، ولولہ سے درس حدیث دیا کرتےتھے،وہ اپنی مثال آپ تھا،احناف کے اقوال کی تائید میں نقلی وعقلی مسکت دلائل پیش فرماتے اور علماء دیوبند کے منہج واصول سے انحراف نہیں ہوتا۔
حضرت الاستاذ مفتی صاحبؒ کے درس حدیث میں طلبہ کو اس قدر طاقت ملتی کہ صحاح ستہ کے دیگرکتب میں بھی وہ تقریر معاون ثابت ہوتی،اسی طرح رجال محدثین اور درجات روایت پر شرح وبسط کے ساتھ بحث کرتے اور ایک ایک سند کی تنقیح میں کبھی تین تین روز بحث فرماتے، جس کے نتیجہ میں اکثر طلبہ کے ذھن ودماغ میں یہ بات سرایت کرجاتی کہ کسی روایت کو نقل کرنے یا بیان کرنے سے پہلے راوی حدیث، اس کی صحت وثقاھت اور اس کی سندوں پر نظر ڈال لی جائے، طالب علمی کے زمانہ میں ہم لوگ رجال کے بحث کو تطویل لاطائل ک کر نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے تو حضرت مفتی صاحبؒ فرماتے تھے کہ ان اصول وضوابط کو یاد رکھو اس میں ذوق وصلاحیت اور مہارت پیداکرو،آگے چل کر تم کسی ادارہ کے محدث بنوگے اس وقت یہ چیزیں کام آئیں گی،اسلئے کہ علم حدیث کے میدان میں کام کرنے والوں کے لئے یہ سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت کے درس میں ترمذی کی تقریر کو میں قلمبند کرتاتھا اور ایک ایک جزئیہ کو نوٹ کرتاتھا،اسکی ایک ضخیم کا پی تیار ہوگئی تھی، درس سے فارغ ہوکر معارف السنن،التعلیق الصبیح، تقریر شیخ الہند اور درس ترمذی سے مراجعت کرتاتھا،حضرت الاستاذ کی تقریر اوران کتب کے درمیان اگر کوئی بنیادی اختلاف ملتا تو میں حضرت کی خدمت میں جاکر عرض کرتا، حضرت اس کی تائید وتوثیق فرماتے اور حوصلہ افزائی بھی فرماتے اور اگر مجھے سمجھنے میں کچھی غلطی ہوتی تو سمجھا دیتے، شفقت،خوردنوازی اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے مجھے ان کی خدمت میں کسی بھی اشکال کو لے کر جانے میں قطعاً جھجک نہیں ہوئی۔
دوران درس لکھی گئی وہ کاپی ہزاروں صفحات پر محیط تھی اور مستزادکہ حضرت اور دیگر شروحات سے مراجعت شدہ تھی،یقینا وہ میرے لئے بڑاعلمی سرمایہ تھی،حضرت نے اس دیکھ کر فرمایا تھا کہ مستند اور کافی علمی ذخیرہ جمع ھوگیا ھے، آج بھی ان سطور کو لکھتے ہوئے دل بوجھل ھورھا ھےکہ میرے ایک رفیق درس نے جو مجھ سے عربی اور اردو رسم الخط سیکھتے تھے، سالانہ چھٹی کے موقع پر، ایک روز وہ کاپی مجھ سے فوٹواسٹیٹ کے لئے کہہ کر لے گئے اور آج تک وہ نظر نہ آئے،اس تیس سال کے عرصہ میں میرے لئے وہ واقعہ سوھان روح بنا ھوا ھے، اور حضرت الاستاذ کی رحلت اور جدائی نےمدتوں سینے میں چھپی درد نہاں کو مزید ھرا کردیا، میری نظریں آج بھی ان کی متلاشی ھیں۔
اس موقع پر اپنا ایک واقعہ خوب یادآرہاہے ترمذی شریف کا آخری سبق تھا، میری والدہ،بھائی اور ان کی اہلیہ میرے تکمیل حدیث شریف کے موقع پر دیوبند گئے ہوئے تھے، ان کےلئے ضروری انتظامات کی وجہ سے اس دن (پہلااور آخری دن)میں حضرت مفتی صاحب ؒ کے درس میں پانچ منٹ تاخیر سے پہونچا، جس کے نتیجہ میں مجھے سب سے آخری قطار میں جگہ ملی، کچھ دیر بعد حضرت الاستاذ تشریف لائے، بیٹھتے ہی کسی طالب علم نے ترمذی شریف کی آخری حدیث کی عبارت پڑھی، حضرت نے اپنی نگاہ کو اٹھایا اور فرمایا! شہاب الدین ہزاریباغوی کہاں ہے؟میں مارے خجالت،شرم اور خوف اپنی جگہ بیٹھاہی رہا، میں نے کوئی آواز نہیں دی، پھر دو بارہ فرمایااگر وہ کہیں موجود ہو تو آگے آجائے،یہ سن کرمیں اپنی جگہ سے کھڑاہوااورطلبہ نے میرے لئے راستہ بنایا، اس عمل میں تقریباً چار سے پانچ منٹ صرف ہوئے، لیکن حضرت اطمینان وسکون کے ساتھ بیٹھے رہے اور جب میں پہلی صف میں مائک کے پاس پہونچ گیا تو فرمایا تو حضرت نے فرمایا ”جی“اس کے بعد میں نے عبارت خوانی شروع کی اور حضرت استاد محترم نے ترمذی شریف کی آخری حدیث پرتقریر فرمائی۔
میری سماعت میں وہ الفاظ آج بھی محفوظ ھیں جوسال کے اختتام میں طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا تھا”اے جماعت طلباء!آپ کے درمیان متعدد وہ طلباء ہیں جو امتحانات میں امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کرکے پوزیشن لاتے ہیں، وہ یہ نہ سمجھیں کہ فراغت کے بعد ہر حال میں وہ بڑے اور مرکزی اداروں میں ھی صرف بڑی بڑی کتابیں پڑھانے کو ملیں گی اوران کو تدریس وافتاء کے لئے نمایاں مقام ہر حال میں دیاجائے گا، اور وہ طلبہ جن کا علمی استعداد کم یا متوسط ہے انہیں خدا نخواستہ تدریس، ،تقریریاتصنیف وتالیف اور خدمت دین کا کسی شعبہ میں شرف حاصل نہ ہوسکے گا، یا محض کم استعدادکی بنیاد پران کے ساتھ دہرامعیار برتاجائے گا، ایسانہیں ہے اور ہرگز نہیں ہے،میرے عزیز طلباء!اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سےقابلیت وصلاحیت نہیں بلکہ صالحیت اور اخلاص و تقوی کی بنیاد پر ھی کام لیتا ھے، اسلئے اپنی نیتوں کو خالص اللہ کے لئے رکھیں،اگر اس میں کچھ اضمحلال یا کمزوری ہے تو آج ھی، اسی مجلس میں نیتوں کی تصحیح کرلیں ، اور اللہ کے رسول کے مہمان اور ان کے نائب ووارث ہونے کی حیثیت سے عہد کریں کہ ہم نے جو کچھ یہاں پڑھا سیکھاوہ اعلاء کلمۃ اللہ، اشاعت دین،احقاق حق اور ابطال باطل کے لئے ہی استعمال ہوگا، کسی بھی علمی، فکری تخریب اور فتنہ کا دنداں شکن جواب دیں گے، اسلئے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے،لہٰذا ممتاز طلبہ کو نصیحت کرتاہوں کہ شیطان اور نفس آپ کو کہیں راہ حق سے بھٹکانہ دے،اپنے نفس کامحاسبہ کرتے رہیں اور دوسرے تیسرے درجہ کے طلباء کو بھی نصیحت کرتاہوں کہ وہ مایوسی کے شکار نہ ہوں اللہ کے یہاں مایوسی کفر ہے،میں نے دیکھاہے کہ وہ طلبہ جو پڑھنے میں اور دارالعلوم کی زندگی میں نمایاں نہیں تھے،لیکن میدان کار میں آفتاب وماھتاب ھیں۔
آخری درس میں حضرت الاستاذ اپنی اس بات کو درد بھرے لہجہ اس طرح فرماتے تھے ک طلبہ نئے عزم و وحوصلہ کے ساتھ اپنےاپنےگھروں کورخصت ھوتےتھے، نیزشعبان اور رمضان میں ہی دارالعلوم کے احاطہ میں رہتے ہوئے کسی بھی ادارہ کو اپنی تدریسی خدمات کے لئے منتخب کرلیتے،بلا شبہ حضرت الاستاذ کے قیمتی اور رھنمایانہ ارشادات آج بھی ان کے خلف اور شاگردوں کیلئے مشعلِ راہ ھیں ۔
تازہ خواہی داشتن داغ ھائے سینہ را
گاھے گاھے باز خواں ایں قصہ پارینہ را 28 رمضان المبارک 1441ھ
[email protected]
Mob:7004283092

Comments are closed.