Baseerat Online News Portal

تعزیت نامہ بر وفات حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمۃاللہ علیہ منجانب:- مولانا مجیب اللہ صاحب گونڈوی استاذ حدیث و فقہ دار العلوم دیوبند

۲۵/رمضان المبارک  بروز منگل صبح آٹھ بجے میرے بیٹے عزیزم مولوی وحید اللہ نے میرے پاس آکر یہ اندوہناک خبر سنائی کہ مفتی صاحب کا انتقال ہوگیا ..تو میرے بدن میں جیسے جان ہی نہ رہی ہو دل کی حالت غیر ہوگئی – دراصل رمضان ہی میں ان سے میری دو مرتبہ گفتگو ہوئی اور دونوں مرتبہ انہوں نے پوری بشاشت سے اس طرح گفتگو فرمائی کہ وہ بیمار محسوس ہی نہیں ہو رہے تھے؛ بلکہ پہلی مرتبہ جب گفتگو ہوئی تو الٹے مجھ سے ہی کہنے لگے کہ تمہاری آواز بہت کمزور ہے طبیعت تو ٹھیک ہے نا…؟
ان کی اس پر اعتمادگفتگو سے طبیعت بڑی مطمئن تھی ،اور دل میں اس اندوہناک حادثہ کا اندیشہ تک نہ تھا؛ لیکن قدرت کا اٹل فیصلہ كہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ، اور ہر شخص کی موت کا ایک وقت متعین ہے ، حضرت مفتی صاحب کا وقت موعود بھی رمضان کی بڑی مبارک ساعتوں میں آیا .
اللہ تعالی کو روح سعید کی عید سعید لاک ڈاؤن کی منحوس دنیا میں منظور نہیں تھی؛ اس لئے رمضان المبارک کے سب سے زیادہ بابرکت عشرہ میں اپنے پاس بلا لیا-

واقعہ یہ ہے کہ ایک تسلسل کے ساتھ یکے بعد دیگرے علماء جس تیزی کے ساتھ دنیا سے اٹھتے جارہے ہیں جنہیں رب کریم اپنی جوار رحمت میں جگہ دے رہے ہیں اسے دیکھ کر ناطق گلاوٹھی صاحب کا یہ شعر یاد آرہا ہے.

*محشر میں یا الہی کیا عید ہو رہی ہے*

*جاتے ہیں جانے والے کپڑے بدل بدل کر*

وہ خود تو پاکیزہ کفن میں ملبوس خوش خوش رب کریم کی جوار رحمت میں چلے گئے، رہ گئے ہم تو اس لاک ڈاؤن میں عید کی ہر خوشی سے محروم ہیں ، جہاں اجتماعی دوگانہ بھی ممکن نہیں ، وقت کی ستم ظریفی کہیں یا شومئِ قسمت کہ سوچتے ہیں اس عید کو کپڑا بھی بدلیں یا رہنے دیں.

مفتی صاحب کی بیماری ایسی نہیں تھی کہ جس سے کسی کو یہ شبہ بھی ہو کہ اب وقت رحیل ہے .
بیماری میں شدت ختم بخاری کے روز طبیعت کی خرابی سے آئی، جب ختم بخاری کے بابرکت موقعہ پر کچھ کلام نہ کرسکے ، دعا کیلئے زباں نے ساتھ نہ دیا اور گریہ طاری ہوگیا – جس سے پورے دارالحدیث کی سسکیاں بندھ گئیں اور بار بار یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے کہ "اللہ جو چاہے گا وہی ہوگا”
ہوا وہی جو رب کو منظور تھا ، اللہ کو اس سعید روح کو اپنے پاس بلانا تھا جو امر رمضان کی مبارک ساعت میں پورا ہوا.

اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ حضرت مرحوم دار العلوم کے طبقہءِ اساتذہ میں شان امتیازی کے حامل تھے، انداز تدریس اور مشکل مسائل کی تفہیم میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا وہ کامیاب مدرس ہونے کے ساتھ بہترین مصنف بھی تھے ، جن میں سر فہرست "حجۃ اللہ البالغہ” کا اردو ترجمہ "رحمۃ اللہ الواسعۃ” تفسیر قرآن اور دیگرفنون کی بہت اہم مفید معتبر کتابیں ہیں ، بعض کتابوں کی مقبولیت اس درجہ بڑھی کہ بیشتر مدارس کے نصاب میں داخل ہیں.
انکا درس مقبول عام وخاص تھا ایسا سہل المنال کی عامی شخص بھی درس میں بیٹھ کر مستفید ہو سکے ، درس کی قبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب قدیم فضلاء اور قرب و جوار کے مدارس کے طلبہ دارالعلوم آتے تو انکے سبق میں شرکت بھی انکے پروگرام کا حصہ بنتی.
علم میں جب سمندر کے مانند گہرائی ہو ، عقل پختہ ہو ، وسیع مطالعہ ہو تو بعض منفرد تعبیرات کا اضافہ بھی ہوتا ہے جن کو شخصی تفردات کہا جاتا ہے مفتی صاحب کا شمار بھی انہیں علماء میں سے ہے.
جن کے اپنے تفردات تھے جن سے بعض علماء نے اختلاف کیا اور بعض نے اسکو محض تعبیر کا فرق سمجھ کر قبول کیا-
مفتی صاحب کا ہمارے درمیان سے چلا جانا ایک بہت بڑا خسارہ ہے ان کے ساتھ علم کا بڑا حصہ اس دنیا سے اٹھ گیا جیسا کہ حدیث شریف میں ہے إن الله لایقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد ولٰكن یقبض العلم یقبض العلماء (آخر زمانہ میں) اللہ تعالی دین کا علم اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ علم دین کو لوگوں کے اندر سے کھینچ لے گا؛ بلکہ(اس دنیا سے) حقیقی علماء کو اٹھا لینے کی صورت میں علم دین کو اٹھائے گا
مرحوم کیلئے بہترین خراج عقیدت یہ ہے کہ ہم بھی ان ہی کی طرح اپنے قیمتی اوقات کی حفاظت کریں اور کثرت مطالعہ کے ذریعے اپنے علم میں گہرائی و گیرائی پیدا کریں اور اگر مدرس ہیں تو مولانا مرحوم کی طرح پوری تیاری کے ساتھ درسگاہ میں جائیں انکے منہج تدریس کو اپنا کر تسہیل وتفہیم کے اس نایاب سلسلے کو جاری رکھیں.
اخیر مین دعا ہے کہ اللہ تعالی حضرت مرحوم کے ساتھ خصوصی فضل کا معاملہ فرمائے دارالعلوم دیوبند کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ، برادران صاحبزادگان اور صاحبزادیوں کو صبر و سکون نصیب فرمائے.
آمین یا رب الٰعلمین

Comments are closed.