Baseerat Online News Portal

ہم وفا کے عادی تم جفا کے خوگر

نوراللہ نور
یہ بات بالکل عیاں اور بے غبار ہے کہ ہم برادران وطن کے لیے چاہے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیں ؛ مودت و محبت کے گلدستہ پیش کردیں پھر بھی ان کے لیے ہمارا وجود آنکھوں کا تنکا ہی رہے گا ہم جتنی بھی وفا کرلیں وہ جفا کے نشتر ہی عنایت کریں گے،
یوں تو ہم پر ظلم و استبداد کی کہانی کوئی نئی نہیں ہے بلکہ ہماری داستاں ہندوستان کی نوشتہ دیوار ہے، لیکن گزشتہ روز یوپی میں جو حادثہ رونما ہوا وہ ہمارے تحفظ پر سوالیہ نشان ہے اور انسانیت کی تذلیل ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ اتر پردیش میں( گاؤں کا نام ذہن ) میں نہیں ایک ہندو اکثریت والے گاؤں میں جہاں کچھ مسلموں کے بھی گھر ہیں وہاں ایک مسلم نوجوان باہر سے آتا ہے جو بیمار تھا وہاں کے سفاک لوگوں نے اپنی دل کی بھڑاس نکالی اور کورونا کا مریض بتاکر اسے بے دردی سے زدو کوب کیا اور وہاں رہنے والے باقی ماندہ لوگوں پر بھی جبر و تشدد کیا اور گائے کا پیشاب اسے پلایا گیا !
مجھے بتاؤ کہ اس بیچارے کا کیا جرم تھا؟؟ ابھی وہ لوگ کہاں ہیں جو ہندو مسلم ایکتا کا راگ الاپتے ہیں؟ ذرا بتاؤ مسلم ہونا گناہ ہے کیا؟؟ کیا کسی مسلمان نے کسی برادران وطن کو کلمہ پڑھنے پر جبر کیا؟؟ کیا انہوں نے کبھی گؤ ماش کھلانے کی ضد کی؟ نہیں نہ !  تو تم پھر منافرت کی آگ کیوں بھڑکا رہے ہو؟؟؟

ہمارے جرم کے لیے عدلیہ پو لیس سب ہے مگر ایسے غلاظت اور سماج میں آلائش پھیلانے والے کیڑوں پر کوئی کارروائی نہیں،
آپ چاہتے ہیں کہ ہم بابری سے دادری تک ہر معاملے میں صابر و شاکر رہیں ملک کی امن و سلامتی کی ذمہ داری ہماری ہو، فلاح و بہبود کے لیے کوشاں ہم رہیں اور آپ صرف ہمارے جذبات کی ناقدری کریں‌اور ٹھیس پہنچائیں، ایسا تو نہیں ہو سکتا، ہم مساویانہ طور پر ملک کی بحالی کے لئے پابند عہد تھے ایک دوسرے کا تحفظ ہمارے ذمہ داری تھی لیکن یہاں تو معاملہ بر عکس ہے آپ کے خون کی قیمت گران قدر ہے اور ہمارا لہو ارزاں اور سستا!!
ہم نے ہر محاذ پر ملک کا اور یہاں بودو باش اختیار کرنے والے ہر فرد کا پاس و لحاظ رکھا اگر آپ ملک کی تقویت کے بارے میں فکرمند تھے تو میزائل نے ہم دی’ ہم جتنا مسلمان رہے اتنا ہندوستان کے بھی رہے, ہر دعاؤں میں اپنے ملک کی بازیابی وترقی کی دعائیں کی لیکن پھر بھی آپ کے آنکھوں کا تنکا ہم ہی ہیں،‌
افسوس ہوتاہے کہ اتنی وفاداری کے باوجود الزام تراشیاں ہم ہی پر ہے، خرمن تو ھمارا ہی نذر آتش ہوا ہے، ہم نے صبر کی انتہا کردی اور برادران وطن نے ظلم میں کوئی کسر نہ رکھی۔۔!
آپ نفرت کے لیے شوشے نکالتے ہو اور ہم ہر راہ پر اپنی پلکیں بچھائے کھڑے ہیں لیکن تمہیں احساس ہی نہیں،
آج بھی جب سر کار نے مزدوروں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا تو یہی ٹوپی داڑھی والے خیر سگالی کا کام کر رہے ہیں، مذہب کی شناخت کیے بغیر ان کے گھر جانے کا انتظام کر رہے ہیں، ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں، ان کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں،
اور تو اور ہم بابری پر بھی خاموش‌رہے، دادری پر بھی صابر لیکن ان سب کے باوجود آپ ہمیں دشمن ہی گر دانتے ہو۔! ہمارے وجود سے ان سب کے باوجود تنفر ہے آپ کو ہماری ماؤں بہنوں کے کردار پر انگشت نمائی کر تے ہو۔!
مزید ہم سے کس چیز کے طالب ہو ہم نے سارے مال و متاع ملک اور تمہاری بہتری کے لیے صرف کردی،
حد ہے ہم صبر و تحمل اور برداشت کی  تصویر بنے ہوئے ہیں اور تم سفاکیت و انانیت اور ظلم و جور کی انتہا کیے ہوئے ہیں، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے مساویانہ طور پر ہمارے ہمدوش و ہم پلہ رہو ہم صبر کریں اور تم جبر کرو یہ روش تمہارے لئے اور ملک کے لیے بھی مضر ہے۔

تاریخ بتاتی ہے ہم ہمیشہ وفا کے عادی رہے اور تم جفا کے خوگر نظر آئے۔

Comments are closed.