Baseerat Online News Portal

صدقۂ فطر کے فضائل و مسائل

مفتی محمد وصی احمد قاسمی

*صدقۂ فطر کے فوائد*

صدقۂ فطر ایک اہم عبادت ہے جس کی ادائیگی میں اظہارِ مسرت کے ساتھ ساتھ غرباء ومساکین کی امداد بھی مقصود ہے اور روزہ میں جو کچھ کمی و کوتاہی سرزد ہوتی ہے اس کا کفارہ بھی ہے۔حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے(زکوۃ فطر)یعنی صدقۂ فطر کو بیہودہ اور بُرے کلمات سے روزے کو پاک کرنے کیلئے اور مسکینوں کو کھلانے کیلئے لازم قرار دیا ہے۔(ابوداؤد)
علاوہ ازیں سکراتِ موت کے وقت آسانی اور عذابِ قبر سے نجات اس میں مضمر ہے جو شخص صاحب نصاب نہ ہو یعنی جس پر صدقۂ فطر واجب نہ ہو وہ بھی ادا کر کے فضیلت حاصل کر سکتا ہے۔
*صدقۂ فطر کا نصاب:*
(1) جس مرد یا عورت کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا نقدی مال یا تجارت کا سامان یا ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچوں چیزوں کایا بعض چیزوں کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو ایسے مرد و عورت پر صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے۔ یاد رہے کہ وہ اشیاء جو ضرورت و حاجت کی نہ ہو بلکہ محض نمود و نمائش کی ہوں یا گھروں میں رکھی ہوئی ہوں۔ اور سارا سال استعمال میں نہ آتی ہوں تو وہ بھی نصاب میں شامل ہو گی (رمضان المبارک فضائل و مسائل)
(2) ہر وہ شخص جو صاحبِ نصاب ہو اس کو اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے اور اگر نابالغوں کا اپنا مال ہو تو اس میں سے ادا کیا جائے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد سوم)
(3) جن لوگوں نے سفر یا بیماری کی وجہ سے یا ایسے ہی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے روزے نہیں رکھے تو صدقۂ فطر ان پر بھی واجب ہے، جبکہ وہ کھاتے پیتے ہوں۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد سوم)
(4) اگر عورت صاحبِ نصاب ہو تو اس پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے مگر عورت پر کسی اور کی طرف سے فطرانہ نکالنا ضروری نہیں ہے نہ بچوں کی طرف سے نہ ماں باپ کی طرف سے نہ شوہر کی طرف سے۔ (رمضان المبارک فضائل و مسائل)
*صدقۂ فطر کی مقداراور کون کون سی چیز بطور فطرانہ کے دے سکتے ہیں:* حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فطر کی زکوٰۃ کھجور کے ایک صاع سے فرض کی یا جَو کے ایک صاع سے۔ غلام پر اور آزاد مرد و عورت پر اور چھوٹے اور بڑے پر۔ اس حال میں کہ وہ مسلمان ہوں اور عیدالفطر کے صدقہ کا حکم فرمایا کہ لوگوں کے نماز کی طرف نکلنے سے پہلے دیا جائے۔ (بخاری ومسلم)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رمضان کے آخر میں روزے کی زکوٰۃ نکالو۔ یعنی فطرانہ دو۔ نبی کریم ﷺ نے یہ صدقہ ایک کھجور سے یا جَو سے یا آدھا صاع گندم سے ہر آزاد مرد و عورت پر غلام ہو یا لونڈی، چھوٹا ہو یا بڑا پر واجب کیا ہے۔ (ابوداؤد)
صدقۂ فطر کھجور، کشمش یا جَو کی صورت میں دیا جائے تو ایک صاع کی مقدار دینا چاہیے اور گندم (گیہوں) کی صورت میں دیں تو نصف صاع دیا جائے گا۔
ایک صاع کی مقدار ساڑھے تین سیر اور نصف صاع کی مقدار پونے دو سیر ہے۔ (اوزانِ شرعیہ از مفتی شفیع صاحب)
مثال کے طور پر جس علاقہ میں گیہوں کی قیمت 20روپئے فی کیلو ہو تو وہاں کے لوگوں کو ایک فرد کا فطرانہ کم از کم 35روپئے نکالنا چاہیے۔
*صدقۂ فطر میں نقد دینا:* صدقۂ فطر میں مزکورہ بالا چیز دینے سے بہتر یہ ہے کہ اس کی قیمت دی جائے تاکہ فقیر اس سے اپنی ضرورت اپنی خواہش کے مطابق آسانی کیساتھ پوری کر سکے۔ (درمختار)
نیز ایک آدمی کا صدقۂ فطر ایک ہی فقیر کو دے یا تھوڑا تھوڑا کر کے کئی فقیروں کو دیدے، دونوں بہتر ہے (بہشتی زیور)
*صدقۂ فطرمعاف نہیں ہوتا:* جس پر صدقۂ فطر واجب ہو اور وہ عید سے قبل یا بعد میں ادا نہ کرے تو اس سے ساقط (معاف) نہ ہو گا، ادائیگی ضروری ہے ورنہ گنہگار ہو گا (ھدایہ باب صدقۃالفطر)
*صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا وقت:* صدقۂ فطر عید کی صبح صادق نمودار ہوتے ہی واجب ہوجاتا ہے۔ جو بچہ عید کی رات صبح صادق طلوع ہو نے سے پہلے پیدا ہوا اس کا صدقۂ فطر لازم ہے اور اگر صبح صادق کے بعد پیدا ہوا تو لازم نہیں۔ اسی طرح جو شخص عید کی رات صبح صادق سے پہلے مر گیا، اس کا صدقۂ فطر نہیں اور اگر صبح صادق کے بعد مرا تو اس کا صدقۂ فطر واجب ہے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد سوم)
*صدقۂ فطر کی ادائیگی کا وقت* صدقۂ فطر کی ادائیگی کااصل وقت عیدالفطر کے دن نماز عید سے پہلے ہے، البتہ رمضان کے آخر میں کسی بھی وقت ادا کیا جاسکتا ہے۔ (نور الانوار)
*صدقۂ فطر کے مصارف:*
(1) صدقۂ فطر کے مستحق ایسے غریب حضرات ہیں جن کو زکوٰۃ دی جاتی ہے۔
(2) صدقۂ فطر ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی، اسی طرح بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، اور نواسا نواسی کو دینا درست نہیں ہے۔ ایسے ہی بیوی شوہر کو اور شوہر بیوی کو اپنا صدقۂ فطر نہیں دے سکتا۔
(3) ان رشتہ داروں کے علاوہ مثلاً بھائی بہن، بھتیجا بھتیجی، بھانجا بھانجی، چچا چچی، پھوپھا پھوپھی، خالہ خالو، ماموں ممانی، سسر ساس، سالہ بہنوئی، سوتیلی ماں سوتیلا باپ ان سب کو صدقۂ فطر دینا درست ہے بشرطیکہ یہ غریب اور مستحق ہوں۔ (البحر الرائق)
اخیر میں قارئین کرام سے عاجزانہ درخواست ہے کہ اس لاک ڈاؤن کے ما ہماری کے وقت میں عیدالفطر کے خوشی کے موقع پرصدقۂ فطر وغیرہ کی رقم سے اپنے غریب ویتیم اورلاچار و مجبور رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی امداد فرماکر عنداللہ وعندالناس ماجور ومشکور ہوں۔
*محتاج دعا*
مفتی محمد وصی احمد قاسمی چھوراہی مدھوبنی بہار۔ رابطہ نمبر 7070971462

Comments are closed.