Baseerat Online News Portal

خوشی یا غم؛ اس عید کیا کریں ہم

نوراللہ نور
رمضان اتنی برق رفتاری سے گزر گیا کہ احساس ہی نہیں ہوا ؛ خیرو برکت کا مبارک سلسلہ اپنے اختتام کو آن‌ پہنچا اور اب عید سعید کی متبرک و پرمسرت گھڑی کی آمد ہے آمد ہے
ہم‌ فرحت و انبساط میں عید کے لمحے گزاریں  یا پھر حالات کی کارستانیوں پر نوحہ کنا ہوں، موجودہ وبا سے اضطراب و پریشانی کی حالت ہے تو اس مبارک دن کے آمد سے کچھ چہروں پر مسکا‌ن بھی ہے۔

ہمہ شما کو ایسے دشوار کن حالات میں بھی مسرور دیکھ کر خوشیاں منانے کو طبیعت چاہتی ہے ؛ لیکن پھر مزدروں کے پیادہ پا اور المناک سفر کا منظر ذہن میں آتے ہی دل مسوس کر رہ جاتا ہے ہر سال کی طرح سوچا کہ گھر کو رنگ و روغن سے آراستہ کروں لیکن دل یہ صدا دیتا ہے کچھ مکاں کی روشنی تو گردش زماں نے چھین لی ان کے دل پر کیا گزرے گی۔
دل فرمائش کر رہا ہے کہ اس موقع پر عمدہ پکوان  متنوع و پرلذیذ کھانے انتظام کیا جائے، عمدہ و تشنگی دور کرنے والے مشروبات کا نظم و نسق ہو لیکن اس وبا کے دنوں میں بھوک سے پریشاں، تشنہ و خشک لب  اور بے سہارا لوگوں کی تصویر سارے ارادے مسترد کر دیتی ہے۔

دل آمادہ نہیں تھا لیکن پھر بھی شاپنگ کا خیال ذہن میں آچلا لیکن پھر نفس کچوکے لگاتا ہے کہ نئی پوشاک پہن کر نادار و ناکس کے دل آزاری کا سبب کیوں بنوں؟ بغیر کپڑے کے بھی تو عید ہوسکتی ہے، ایک طرف خیال آتا ہے کہ یہ رب کی طرف سے ضیافت و اکرام کا دن ہے سارے رنج و غم‌ سے کنارہ کش ہو کر رب کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوؤں لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے عبادت میں نقص کا غم‌ وبا سے پھیلتی بھکمری  بڑھتی مصیبت کا رنج  اور عبادت گاہوں پر قفل کا پر ملال منظر ساری امیدوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔

دل کہتا ہے کہ یہ مبارک گھڑی تو سال میں ایک بار ہمارے مقدر ہوتی ہے اس کا پرزوز استقبال کریں اور خوشیوں کی برکھا میں سب کے سنگ بھیگیں مگر ستم یہ ہیکہ ہم پر ہمارے کرتوت کی وجہ سے رب نے ساری برکتیں روک لی ہیں ہم ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے، مصافہ ومعانقہ جو باعث الفت و محبت تھا وہ ہمارے لیے باعث زحمت ہے، بخل و خودپرستی کے گناہ نے ہمیں ضیافت کی نعمت سے محروم کر دیا، جتنے مواقع خوشی کے ہیں اس سے کہیں زیادہ رنج و غم اور آزمائش کے ہیں۔

دل اس مبارک گھڑی کی آمد سے اتنا فرحاں و شاداں ہے کہ من کر رہا ہے کہ خوشی خوشی عید کی نماز ادا کرکے اپنوں کے ساتھ ان لمحوں کو گزاروں، سوئی اور شیرینی سے ایک دوسرے کے لب و دہن کو لذت بخشوں مگر پھر میرا ذہن جب ڈاکٹروں کی ٹیم  پولیس کے نوجوان  اور موجودہ بیماری سے لڑنے والے مستعد و جانباز دستے کی طرف مڑتا ہے تو سارے ارادے از خود متروک ہو جاتے ہیں ہم صرف اپنی خوشی کا خیال کریں اور ان جانبازوں کی خوشیوں کو سرے سے مسترد کر دیں ہمارا ضمیر و خمیر اس کی اجازت نہیں دیتا،

نئی پوشاک تو خریدنے کا من چاہتا ہے اور خریدی بھی جاسکتی ہے مگر میرا ضمیر مجھے آواز دیتا ہیکہ تو نے حاکم وقت کے فرمان پر مسجد کا رخ نہ کیا تو پھر دل کی صدا پر بازاروں کی رونق کیوں کر۔!  میں نیا کپڑا پہن لوں مگر میرا بھائی جو مدد رسانی کے کام میں لگا ہوا ہے اسے یوں ہی نظر انداز کروں یہ نہیں ہو سکتا۔!
کتنے بدنصیب ہیں ہم کہ رب کی ساری نعمتیں برس رہی ہیں مگر ہم پر بندش ہے، ایسے حالات میں دل و دماغ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ ہم خوشی منائیں یا پھر ماتم کریں! دل میں جذبات امنڈتے ہیں لیکن حالات کی موجیں اسے دبا دیتی ہے.
سمجھ نہیں آتا کہ خوشی یا غم اس عید کیا کریں ہم..!

Comments are closed.