عالمی تجزیہ

افتخار قریشی
دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں معاشی طاقت بننے کی نظر نہ آنے والی جنگ جاری ہے،دنیا کی سب سے بڑی معیشت والی طاقت امریکہ اپنے دبدبہ کو برقرار رکھنے کے لئے چین سے براہ راست جنگ نہ لڑکر اس کی معیشت کو للکار رہا ہے،ادھر چین بھی امریکہ کی معیشت کو کمزورکرکے سپرپاور بننے کی دوڑ میں اپنے لئے راستے تلاش رہا ہے،دونوں بڑی طاقتوں کی لڑائی میں غریب اور ترقی پزیرممالک اپنی معیشت کو برباد ہوتے دیکھ کر بے بسی کے آنسوں بہا رہے ہیں،گویا ان کے سہارے کے لئے چین اور امریکہ کے علاوہ کوئی تیسرا سہارا انھیں نظر نہیں آرہا ہے،کیا واقعی یہ ممالک معاشی طور پر امریکہ یا چین کے غلام بن جائیں گے؟یہ ایسا سوال ہے ،جس کا جواب دنیا کا ہر آدمی چاہتا ہے۔
چین اور امریکہ کی لڑائی کورونا وبا پھیلنے کے بعد عالمی ادارہ صحت کے رول کو لے کر سامنے آئی تھی،امریکہ کا الزام تھا،کہ کورونا وائرس چین کے وہان شہر کی لیب میں تیار کیا گیا،اور اسی وائرس سے چین نے امریکی معیشت کو کمزور کرنے کے لئے اسے امریکہ پہنچایا،امریکہ نے اس غیر اعلانیہ جنگ کو نظر نہ آنے والے دشمن سے تعبیر کیا،اور چین پر سیدھا الزام لگایا،کہ یہ حملہ چین نے اس کی معیشت کو تباہ و برباد کرنے کے لئے کیا ہے،حالانکہ چین نے امریکہ کے اس الزام کی تردید کی ہے،چین کا الزام ہے،کہ کورونا وائرس کو امریکہ نے تیار کر کے اپنے فوجیوں کے ذریعہ چین کے وہان شہر میں چھوڑاتھا،تاکہ چین وبا ء کا شکار ہوکر معاشی طورپر کمزور پڑجائے،چین پچھلے کچھ برسوں سے اپنی تجارت میں توسیع کررہا ہے،اور امریکی منڈی میں سیندھ لگارہا ہے۔
ا مریکہ نے کورونا وبا ء کے پھیلنے میں عالمی ادارہ صحت کے کردار پر سوال اٹھائے ہیں،امریکہ کا الزام ہے،کہ عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او)چین کے اثر میں آگیا ہے،اور اس نے امریکی مفادات کا خیال نہیں رکھا،امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے چین کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس بات پر بھی ناراضگی جتائی ،کہ چینی حکام نے عالمی ادارہ صحت کو بروقت اطلاع نہیں دی،اور دنیابھر کومغالطے میں رکھنے کے لئے ادارہ پر دباؤ بھی ڈالا،امریکہ چین کے مقابلہ عالمی ادارہ صحت کو زیادہ فنڈنگ کرتا ہے،عالمی ادارہ صحت کا سالانہ بجٹ تقریاًپانچ بلین ڈالر ہے،ڈبلیو ایچ او کے ارکان ممالک رکنیت فیس کے طور پر اسے فنڈ مہیا کراتے ہیں،انھیں یہ فیس لازمی طورپر ادا کرنی پڑتی ہے،بعض امیر ممالک ڈبلیو ایچ او کی ویسے بھی مددکرتے رہتے ہیں،یہ مددمستقل نہیں ہوتی ہے،بلکہ اس کا انحصار امیر ممالک کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے،اس لئے ڈبلیو ایچ او کو امریکی مددکی ضرورت پڑتی ہی ہے۔
امریکہ نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او )سے اپنے رشتے منقطع کرلئے ہیں،اور اسے دی جانے والی فنڈنگ کو روک دیا ہے،امریکہ میں کورونا وبا ء سے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں،اور 18لاکھ سے زیادہ لوگ اس وائرس سے متاثر ہیں،کورونا وباء نے امریکی معیشت کو تباہ و برباد کردیا ہے،امریکہ کی بے چینی کووڈ۔19 پر قابوپانے اور اپنی ڈوبتی معیشت کو سنبھالنے میں بڑھ رہی ہے،امریکہ دنیا کی معاشی اور سیاسی سپرپاور ہے،لیکن اس وقت امریکہ دنیا میں برے دور سے گزر رہا ہے،اس کی طاقت میں مسلسل کمی آرہی ہے،اور اسے کورونا وائرس سے ہار کا سامنا ہے،امریکہ کے لئے کورونا وائرس ایک ایسا دشمن ثابت ہورہا ہے،جو اسے نظر نہیں آرہا ہے،امریکہ اس وقت گھبرایا ہوا ہے،بڑی تعداد میں اس کے لوگ ہلاک ہورہے ہیں،وہ افغانستان کے بعد خلیج ممالک سے بھی اپنے فوجی واپس بلارہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)کے کووڈفنڈ میں سب سے زیادہ60ملین ڈالر کی مدد خلیج ملک کویت نے کی ہے،کویت کے بعد جاپان نے 47.5ملین ڈالر کی مددکی ہے،یوروپین کمیشن نے 33.8ملین ڈالر کی ،عالمی بینک نے 30.6ملین ڈالر کی ،جرمنی نے 28.3ملین ڈالر کی،برطانیہ نے 20.7ملین ڈالر کی اور بل اینڈ میلنڈہ فاؤنڈیشن نے 11ملین ڈالر کی مدد کی ہے،امریکہ نے اپنے حصہ کی115لاکھ ملین ڈالر کی مدد کو روک دیا ہے،اگر امریکہ نے اپنے حصہ کی 115لاکھ ملین ڈالر کی مدد کو ڈبلیو ایچ او کو جاری نہیں کیا تو اس سے ڈبلیو ایچ او کے سامنے بحرانی کیفیت پیدا ہوجائے گی،ڈبلیو ایچ او کے صحت سے متعلق کئی ریسرچ پروگرام بند ہوجائیں گے،اور کووڈ ۔19سے نمٹنے میں عالمی ادارہ صحت کے سامنے مشکلیں کھڑی ہوجائیں گی۔
امریکہ کی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے مبصرین کا خیال ہے،کہ ٹرمپ چین اور ڈبلیو ایچ او کو لے کر انتخابی جملے بازی کا کارڈ کھیل رہے ہیں،یہ بالکل ویسا ہی جملہ ہے، جیسا انھوں نے گزشتہ انتخابات کی مہم میں میکسکو کو لے کر کھیلا تھا،اس بار وہ عام انتخابات میں چین کو سبق سکھانے کے لئے کووڈ۔19جملہ کا استعمال کریں گے،
چین اپنی تجارت کے پھیلاؤ کے لئے جس توسیعی پروگرام پر کام کررہاہے،امریکہ میں اس کو لے کر بے چینی ہے،یہی وجہ ہے امریکہ چین کے پڑوسی ممالک سے دوستی کا خواہاں ہے،اس کے جنوبی کوریا سے اچھے مراسم ہیں،امریکہ شمالی کوریا کو قابو کرنے کے لئے بھی کام کررہا ہے،شمالی کوریا کے ساتھ امریکہ نے ٹکراؤ کو کم کیا ہے،شمالی کوریا چین کے قریب اور جنوبی کوریا کا حریف ملک ہے،امریکہ چین کے خلاف تائیوان اور ہانگ کانگ کے حق میںبھی آواز اٹھاتا رہا ہے،چین کا بھارت کے ساتھ بھی سرحدی تنازعہ چل رہا ہے،چین نے حال ہی میں بھارت کے لدّاخ اور سکم علاقوں میں دراندازی کی ہے،امریکہ نے بھارت سے ثالثی کی پیشکش کی ہے،بھارت نے ثالثی کی پیشکش کو ٹھکرادیا ہے،اور کہا ہے،کہ وہ چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ معاملہ کو بات چیت سے حل کرلے گا۔
عالمی سیاست کے ماہرین کا کہنا ہے،کہ اگر امریکہ اس لڑائی میں کمزور پرتا ہے،یا لڑائی سے ہاتھ پیچھے کھینچ لیتا ہے،تو اس میں کوئی شبہ نہیںکہ چین دنیا میں امریکہ کی جگہ لے کر معیشت اور سیاست کا سپر پاور ملک بن جائے،امریکہ جہاں دوسرے ممالک کے محاذوں پر کمزورہوا ہے،وہیں اسے داخلی معاملات سے نمٹنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے،امریکہ میں افریقی سیاہ فام جارج فلائیڈ کی موت کے بعد مظاہرے ہورہے ہیں،جارج فلائیڈ کی موت منی پولیس شہر میں سفید فام پولیس افسر ڈیریک چاؤ وین کے ہاتھوں ہوئی ہے،چالیس شہروں تک پھیل چکے مظاہرین سے نمٹنے کے لئے پولیس کو مزاحمت کا سامنا ہے،مظاہرین دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں وہائٹ ہاؤس تک پہنچ گئے ہیں۔
امریکہ کو خارجی اور داخلی دونوں محاذوں پر غیر اعلانیہ جنگ جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، امریکہ کے دوست ممالک بھی اس سے دور ہورہے ہیں،یورپین یونین میں قیاس لگائے جارہے ہیں،کہ چین سپرپاور بننے کی طرف بڑھ رہا ہے،یورپین یونین حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے،اگر امریکہ سپر پاور کا تاج کھودیتا ہے تو نہ صرف اس کے دوست ممالک چین کے قریب چلے جائیں گے بلکہ یورپین یونین بھی چین کے ساتھ جانے میںدیر نہیں کرے گا،سوال اٹھتا ہے کہ آیا اس لڑائی میں امریکہ اپنے سپرپاور کے تاج کو بچا پائے گا؟کیا چین دنیا کا سپر پاور ملک بنے گا؟ان سوالوں کا جواب ہمیں آنے والے وقت میں ملے گا،ہاں اتنا ضرور ہے،کہ فی الحال دنیا ایک بڑی تبدیلی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
موبائل نمبر۔8053559185

Comments are closed.