Baseerat Online News Portal

انسانیت شرمسار ہوئی پھر انسان سے

نوراللہ نور
خدا کی اس سر زمین پر ان گنت مخلوقات ہیں مگر ان میں اشرفیت و افضلیت کا تاج انسانوں کے سر ہے اور تمام خلایق میں سب نمایاں و ممتاز بشر ہے .
مگر اس حقیقت سے بھی چشم پوشی نہیں کرسکتے کہ حضرت انسان جس کو بشریت کا زریں لباس دیا گیا ہے وہ انسانیت کے تقاضوں پورا کرنے سے عاری رہا ہے کبھی وہ خود اپنے خالق کی تخلیق سے انحراف کرتا ہے اور کبھی اس کی دی ہوئی آسایشوں کا انکار کرتا ہے
یہ سب اثم و گناہ اپنی جگہ اس کے باوجود انسان بس یہیں نہیں رکتا بلکہ بسا اوقات اس سے بھی آگے بڑھ کر انسانیت کے منافی وہ کام کر گزرتا ہے جو انسانیت کے لیے عار کا سبب ہوتا ہے اور انسانی مروت سے کوسوں دور . ابھی کل گزشہ جو حادثہ رونما ہوا اس نے انسانی اقدار کو مجروح کر دیا انسانیت خجل و شرمندہ اور بے حسی کا مجسمہ بن گیا

ہوا یوں کہ ایک ہاتھن جو بھوکی تھی اس نے شکم سیری کے لئے جنگل کے طرف رخ کیا لیکن اس سے بے خبر کہ انسانیت کا لبادہ اوڑھے کچھ انسان نما سفاک ان کی موت کا سامان مہیا کیے ہوئے ہیں .
جب وہ جنگل پہونچی تو انارس کے اندرون ان ذلیل لوگوں نے بم رکھ دیا اور جیسے ہی اس نے اس کو لقمہ بنایا وہ خود موت کے منھ میں پہونچ گئی اور اس نے وہاں پر آباد بستی کو بنا کوئی ضرر پہنچائے سیدھے جنگل میں ایک تالاب میں جا کھڑی ہوئی کچھ لمحہ بعد وہ وہیں پر جاں بحق ہوگئی اور یہ سوال کر گی کہ انسانیت ہمیں است ؟
بشریت و افضلیت کے مدعیوں کو اس بے زبان سے سیکھنی چاہیے کہ اس نے اپنے آپ کو موت دہانے پر پانے کے باوجود اس نے درندگی نہیں دکھائی ؛ کسی کو زدوکوب نہیں کیا اور حد تو یہ ہیکہ اس نے اپنے بچے کو جو شکم میں تھا کھونے کا بدلہ تک نہیں لیا ۔
انسان سے انسانیت کا یہی تقاضہ ہے ؟؟ انسان سے رنجش و عداوت تو سمجھ آتی ہے لیکن ان بے جانوں سے کیا تکلیف ہے ؟ آخر ان سے کیسا خطرہ تھا کہ ان کی خوراک میں بم فٹ کر دیا ؟ ہم نے ذاتی عناد سے نہ جانے کتنے ہی کو موت کے بھینٹ چڑھا دیا مگر افسوس کہ ہماری یہ خباثت سے حیوان بھی نہیں بچ سکے ۔
پتہ ہے انسان کسے کہتے ہیں ؟؛ جو انس و محبت سے سرشار ہو ؛ رقت قلبی اور شفقت قلبی کا مادہ ہو ؛ مگر تدریج بتدریج انسانیت معدوم ہوتی جا رہی ہے انسان تو انسان سے خایف ہے ہی لیکن ہمارے رویوں سے اب جانور بھی وحشت زدہ ہے ؛ انہیں بھی اب ہمارے انسانیت پر شبہ ہے اور ان بے جانوں کو بھی ہماری انسانیت پر سوال ہے ۔
ہمارے سر امیتاز و افتخار کا سہرا ضرور ہے مگر ہم نے کبھی اس کی پاسداری نہیں کی ؛ اس کے مقام کو ہم نے حقیقی حق نہیں دیا اگر دیا ہے تو پھر اس بے زباں پر اس قدر بر بریت کیوں ؟
ہمیں اگر معاشرے کی خیر مقصود ہے تو تو انسانیت کے سبق کو از سر نو پڑھنا ہوگا اور اس پر عمل کرنا ہوگا ورنہ جس طرح ہم ایک انسان دوسرے انسان سے بغض و عناد کی وجہ دور ہوگیے ہم ان جیسے کارآمد مطیع و فرمانبردار وحشیوں کے فوائد دستبردار ہوجائیں گے اور بستیاں ویران نظرا آیں گی ۔

ساری تحریر اپنی جگہ لیکن اس واقعے سے انسانیت ایک بار پھر شرمسار ہوئی ہے ۔

Comments are closed.