Baseerat Online News Portal

حیوانوں سے بھی ارزاں ہے ہمارا لہو

نوراللہ نور

گزشتہ دو تین دن سے ایک ہتھنی کی موت پر جو کہ حمل سے تھی ہر طرف تعزیت و غم کا ماحول ہے ہمہ  شما انسانیت کے گن گان گا رہا ہے اور اس کے لیے انصاف کا مدعی ہے ۔
اس واقعہ پر تاسف و تاثر انسانیت کی روح اور بشریت کا حسین امتزاج ہے غم و غصہ بجا اور حق بجانب ہے ۔

لیکن انسانیت یہ کا ڈراما انتہائی مضحکہ خیز اور حقیقت سے کوسوں دور ہے کیونکہ انسان کی موت پر تماشہ بن کر کھڑے رہنے والوں کی آنکھیں اشکبار ہے ؛ یہاں واویلا وہی لوگ مچا رہے ہیں جسے انسانیت سے بیر ہے ، آہ فغاں وہیں کر رہے ہیں جو ایک لاچار کو زدوکوب ہوتا دیکھ کر مسکرا رہے تھے  اور انصاف کے متقاضی وہیں لوگ ہیں جن کے سر بے شمار معصوموں کا انصاف باقی ہے ۔
نیک نیتی اور صلہ رحمی کوئی معیوب نہیں بلکہ انسان کی انسانیت کا طرۂ امتیاز ہے اور بشریت کا تقاضہ ہے لیکن انسان انسانیت کے حقوق سے خارج تو نہیں ؟ بلکہ حیوانوں اور بے زبانوں کے مقابل زیادہ حقدار ہے لیکن ہمیں انسان کا لہو حیوان سے ارزاں اور سستا معلوم ہوتا ہے ۔
ہاتھی کی موت پر حسرت و تاسف کرنے والے انسانو ! بشریت کا تو سر بازار بارہا خون ہوا کبھی آپ کی آہ تک نہ نکلی، تمہاری نظروں کے سامنے بہت سی جانیں بھیڑ کے نظر ہوگئی لیکن کبھی انسانیت کے علمبردارو! آپ نے اف تک نہیں کی ، بستیاں کی بستیاں ویران ہوگئیں لیکن افسوس کہ کبھی اس پر ہمارا درد نہیں چھلکا ، بہت سے معصوم جن کے دوش ناتواں نے اپنے مرحوم والد کی نعش کو کاندھا دیا ہم نے کبھی خبر گیری نہیں کی ۔
ہاتھی کے ساتھ زیادتی کا دکھ ہے نا تمہیں !! ہونا چاہیے لیکن ماب لنچنگ میں جو جاں بحق ہوئے ان پر تو بہت زیادتی ہوئی تھی اس وقت بھی آپ کو تکلیف ہوئی تھی ؟ نہیں ہوئی ہوگی کیونکہ وہ ہاتھی تھوڑی ہے انسان تھا وہ قابل ترحم تھوڑی ہے،
افسوس ہیکہ تم انسان ہو کر بھی انسانی معیار پر نہیں اتر سکے ایک ہاتھی جس کے قاتلوں کا پتہ نہیں اس پر اتنا افسوس ہے لیکن ایک بے گناہ اور بے بس انسان جو اپنی زندگی کی بھیک مانگتا رہا اس پر ترس نہیں آیا ۔

آپ کا دل کٹ رہا ہوگا کہ اس ہاتھی کے بچہ کا جو اس کے حمل میں تھا اس کا کیا گناہ تھا ؟ کاش کہ تم گجرات میں ماؤں کے شکم کو چیر کر اس کے بچوں کے قتل کرنے والے پر بھی کبھی لب کھولتے ! وہ بچہ جو اس ہاتھی کے شکم میں تھا اس کی موت کا درد ہے تمہیں تو وہ نوزائیدہ جنہیں ترشول کی نوک پر اچھالا گیا وہ بچہ نہیں تھا ؟ ارے نہیں بچہ تو تھا مگر ایک انسان اور ایک خاص طبقہ کا تھا ۔

تمہیں غصہ ہے کہ وہ وہ حمل سے تھی اور اس پر ظلم کیا گیا اسے انصاف ملنا چاہیے تو بھائی ! صفورا زرگر بھی تو ایک خاتون ہے دوشیزہ ہے اور وہ بھی حمل سے ہے اس کی غلط گرفتاری اور اس پر کیے گئے تشدد پر تمہاری حمیت نہیں جاگی ؟ یہاں پر انسانیت کا درس ذہن سے غائب ہوگیا بلکہ حد تو یہ ہے کہ اس کی کردار کشی کرتے ہی جا رہے ہو، اس پر ہو رہے نازیبا تبصرے اب تک تم لب پر مہریں لگائے بیٹھے ہو، یہاں انسانیت دم توڑتی نظر نہیں آئی ؟

بہت سے لوگ ماتم کناں تھے کہ ایک بے زباں کا کنبہ اجڑ گیا اس کے وجود کا خاتمہ ہوگیا مگر وہ سارے گھر جو تا ابد خراب و ویران ہوگئے اس کا خیال ہی نہیں آیا ؟

الفاظ تلخ ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ ہم سے انسانیت معدوم ہوگئی ہے ایک حیوان کی موت پر اتنا تماشہ اور ناٹک مگر نگاہوں کے سامنے انسانیت کے قتل پر خاموشی .
انسان کے اس رویہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم انسانوں کا لہو ارزاں اور سستا ہے ان حیوانوں سے ‌۔

Comments are closed.